سوشل میڈیا کا شتر بے مہار کیسے قابو ہو

کئی ممالک میں سوشل میڈیا پر کنٹرول کسی نہ کسی سطح پر قائم کیا گیا ہے تو کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟

اخلاقی تنزلی کا باعث بننے والے افراد و گروپس کو روکنا کس کی ذے داری ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا شتر بے مہار ہے اور اسے نکیل ڈالنا مشکل ہی نہیں کم وبیش ناممکن بھی ہے۔ اس حوالے سے دو رائے موجود ہیں۔ ایک طبقہ تو شدت سے اس پورے قصے کو ہی ڈرامہ قرار دیتا ہے۔ وہ اس حق میں ہی نہیں کہ سوشل میڈیا نام کی کوئی چیز پاکستان میں ہونی چاہیے۔ اس شدید سوچ کی وجہ وہ اکثر یہ قرار دیتے ہیں کہ یہ نہ صرف نوجوان نسل کو گمراہ کررہا ہے بلکہ وطن عزیز کی سالمیت کو بھی اس سے خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ان کی اپنی سوچ ہے اور اس سوچ سے اگر مکمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا تو مکمل انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس طبقے کے پاس اس سوچ کی کئی وجوہات اور دل کو چھو لینے والے دلائل موجود ہیں۔

دوسرا طبقہ ایسا ہے جو مکمل طور پر سوشل میڈیا کی آزادی کا قائل ہے کہ وہ اسے تعلیم، معلومات، تفریح کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ جدید دنیا سے رابطے کا ذریعہ ان کے نزدیک سوشل میڈیا ہی ہے۔ ان کی بات بھی اپنی جگہ کافی حد تک اگر درست ہے تو کسی حد تک اس سے اختلاف بھی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ ان دونوں فکروں کے درمیان بھی موجود ہے جو نہ مکمل طور پر اس جن کو قابو میں لا کر پنجرے میں بند کردینے کا قائل ہے، نہ اسے ایسی آزادی دینے کا قائل ہے کہ جو مرضی ہوتا رہے اور ان سے سوال نہ ہوسکے۔

آپ سوشل میڈیا کا کوئی بھی فورم کھولیے۔ آپ اپنا کام کررہے ہیں، معلومات اکھٹی کررہے ہیں، رابطے کا ذریعہ مانتے ہوئے رابطہ استوار کیے ہوئے ہیں، تعلیمی مقاصد کےلیے تعلیم کے حوالے سے مدد لے رہے ہیں، اور آپ کے خاندان کے افراد یا دیگر عزیز و اقارب بھی آپ کے اردگرد موجود ہیں۔ یقینی طور پر اگر آپ موبائل فون کے ذریعے کسی بھی مقصد کےلیے سوشل میڈیا پر تخلیق کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں تو کسی حد تک پرائیویسی کا عنصر قائم رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کے ذریعے سے کام کر رہے ہیں تو بھرے پرے گھر میں پرائیویسی شائد ممکن نہ ہو، اگر آپ مکمل تالہ بندی کرکے کمرے میں بند نہیں تو۔

اب یہاں ایک مسئلہ آتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر سنجیدہ سے سنجیدہ کام بھی کررہے ہوں یا کسی سے اہم بات چیت میں مصروف ہوں تو اچانک کوئی تصویر، تحریر یا ویڈیو ایک دم سے ایسی سامنے آجاتی ہے جو نہ صرف انتہائی بیہودہ و نازیبا ہوتی ہے بلکہ اگر خاندان کا کوئی فرد اردگرد ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے کچھ نابلد بھی ہے تو آپ کو شرمدنگی گھیر سکتی ہے کہ آپ اسے جتنا مرضی سمجھا لیں کہ یہ خودکار نظام کے تحت تصویر، تحریر یا ویڈیو سامنے آئی ہے، اس کے دل میں گرہ پڑجائے گی آپ کے اخلاق و کردار کے حوالے سے ۔ اور بسا اوقات گھر میں بچے یا گھر کے دیگر افراد بھی آپ کا فون یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں تو یہی چیزیں براہ راست بھی ان کے سامنے آسکتی ہیں۔ شرمندگی بہرحال ہر لحاظ سے ہوگی، اور آپ ذہنی کوفت کا شکار بھی ہوں گے کہ جو چیز آپ دیکھنا یا پڑھنا ہی نہیں چاہتے وہ بار بار آپ کے سامنے کیوں آرہی ہے۔ یہی شائد کلٹیویشن تھیوری ہے (ذہنی کاشت کی تھیوری) جس میں آپ بار بار ایک چیز دکھا کر لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ عرصے سے ایک اور نہایت خطرناک رجحان سامنے آیا ہے کہ کوئی خاتون انتہائی نازیبا حالت میں لائیو ویڈیو پر موجود ہوگی اور اس ویڈیو کو ایک سے زیادہ گروپس میں شیئر کرنے پر ذاتی بات چیت (واٹس ایپ یا ان باکس) کی طرف مائل کررہی ہوگی۔ بات ذاتی حیثیت میں ہوتی ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے۔ لیکن آپ ایک لمحہ سوچیے یہ نازیبا ویڈیو جب دس گروپس میں شیئر ہوتی ہے تو ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں یا نہیں؟ وقتی ہیجان کی وجہ سے ہم اپنے ہاتھوں سے معاشرتی اقدار گڑھے میں ڈالتے ہوئے معاشرے کو تباہ کررہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہورہا ہے۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو صرف تفریح کررہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ تفریح ہماری بنیادیں کھوکھلی کرنے کے ساتھ معاشرتی طور پر ہمیں ایک ایسی قوم بناتی جارہی ہے جو اخلاقی گراوٹ کی کھائی میں گرتی جارہی ہے۔

پاکستان میں اگر سوشل میڈیا کی مدد سے طب، انجینئرنگ، قانون، فنون لطیفہ، حالات حاضرہ، میڈیا سمیت دیگر ہزاروں شعبہ جات میں اگر مثبت فوائد حاصل کیے جارہے ہیں تو پاکستان میں ہم سوشل میڈیا کے جن کی جکڑن میں مکمل طور پر اپنے آپ کو تباہ کررہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام افراد پاکستان میں اس کا منفی استعمال کررہے ہیں، لیکن مثبت استعمال کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اور مجموعی اثر مثبت رجحانات کے بجائے منفیت لیے ہوئے ہے۔ اب ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا سے فوائد حاصل کیے جائیں، بجائے اس کے کہ معاشرتی اقدار و اخلاقیات زوال پذیر ہوں۔


پہلی فکر یہ ہے کہ مکمل پابندی عائد ہوجائے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ اس طرح ہم عالمی دنیا کے ساتھ رابطے اور معلومات کے اہم ذریعے سے محروم ہوجائیں گے اور ایسا کرنا بہرحال دنیا میں آگے بڑھنے کےلیے ہمارے لیے کسی بھی طرح سے ممکن نہیں ہے۔ دوسری فکر یہ کہ سوشل میڈیا ایک مکمل آزاد اور بنا کسی پابندی یا قدغن کے میدان ہونا چاہیے، یہ فکر بھی مکمل درست اس لیے نہیں کہ ہم آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں کسی بھی صورت اپنے معاشرے کو کھائی میں نہیں جانے دے سکتے اور اگر معاشرہ ہی تباہ و برباد ہوجائے تو ملکی اساس و نظریہ بھی دفن ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہم ایسی آزادی بھی دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ درمیانی فکر لیکن قابل عمل ہونے کے ساتھ واحد حل بھی ہے۔

دنیا میں مثالیں موجود ہیں۔ چین میں سوشل میڈیا کا بلیک آؤٹ نہیں، لیکن وہاں سوشل میڈیا پر کئی طرح کی پابندیاں موجود ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے نہ صرف مقامی ورژن متعارف کروائے گئے ہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت کئی سوشل نیٹ ورکنگ فورمز تشکیل دیے گئے جو کامیابی سے معلومات، اطلاعات اور تفریح کا ذریعہ ہیں۔ تو کیا چین ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ چین دنیا کی اقتصادی سپر پاور بننے کے سفر پر گامزن ہے۔ ایران میں سوشل میڈیا کو شتر بے مہار آزادی حاصل نہیں، تو کیا ایران اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ مشکلات کے باوجود ایران نہ صرف بیرونی دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھ رہا ہے بلکہ اپنا آپ قائم رکھے ہوئے ہے۔ ترکی میں بھی سوشل میڈیا پر قدغن کا چابک موجود ہے تو کیا ترکی اپنا وقار کھو بیٹھا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ معلومات، اطلاعات اور مسابقت کی دوڑ میں ترکی عالمی دنیا کا مقابلہ کرنے کے ساتھ مسلم امہ کے سربراہ کے طور پر بھی ابھرا ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، بھارت، بنگلہ دیش، شمالی کوریا اور دیگر کئی ممالک میں سوشل میڈیا پر کنٹرول کسی نہ کسی سطح پر قائم کیا گیا ہے تو کیا ایسے ممالک دنیا میں نہیں جانے جاتے؟

پاکستان میں ذمے داری کس کی ہے کہ اخلاقی تنزلی کا باعث بننے والے افراد و گروپس کو روکیں؟ پی ٹی اے کا دائرہ اختیار ہے تو وہ کوئی ایسا نظام قائم کرے کہ کھلے عام یوں سوشل میڈیا پر فحاشی کی ترویج نہ کی جاسکے، اور مقامی ورژن کی جانب قدم اٹھایا جائے۔ دنیا اپنی زبانوں میں جیسے لٹریچر کا ترجمہ کرکے اپنے ہاں فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسی مثال پر ہم بھی کام کرسکتے ہیں۔ دنیا سوشل میڈیا کو قابو میں رکھ کر بھی فتح کے جھنڈے گاڑ رہی ہے تو ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی سوشل میڈیا فورم ہو، ہم اسے پابند بھی کرسکتے ہیں کہ جناب یہ معاملات ہیں جو ہمیں نہیں چاہئیں کہ ہماری مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اقدار کردار کے خلاف ہیں۔ آپ اس پر کام کریں ورنہ ہم آپ پر تاحکم ثانی پابندی عائد کریں گے۔ اور اس عمل تک پہنچتے پہنچتے آپ مقامی ورژن پر کام کیجیے۔

بائیس کروڑ لوگ بستے ہیں یہاں۔ کروڑوں لوگ سوشل میڈیا سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ ابتدائی مرحلے میں صرف ان مقامی افراد کو کسی بھی مقامی سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ ایپلی کیشن یا ویب سائٹ سے منسلک کیجیے۔ اور پھر رفتہ رفتہ عالمی دنیا میں بھی ان مقامی ورژن کو پھیلائیے۔ کیا فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر، پن ٹرسٹ، لنکڈ اِن جیسے بہت سے نظام خودبخود وجود میں آگئے؟ بالکل نہیں۔ انسانی دماغ کی سب کارستانی ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے کہ وہ عقل استعمال کرنا جانتا ہے۔ تو یہ تمام فورمز اگر انسانی دماغ کی وجہ سے وجود میں آئے تو ہم اپنے ذہین دماغوں کو اکھٹا کیوں نہیں کرسکتے؟

دنیا ہمیں ٹیکنالوجی کے استعمال پر سبقت کی وجہ سے شکست دے رہی ہے۔ ہم اپنے ذہین دماغوں کی مدد سے انہیں انہی کی زبان میں جواب دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے پی ٹی اے یا ایف آئی اے کا سائبر ونگ، یا اس حوالے سے کوئی بھی دوسرا ادارہ، خلوص اولین شرط ہے کہ ہم ملک میں واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں سوشل میڈیا کو ایسی نکلیل ڈالنی ہوگی کہ یہ جدھر کو منہ ہو ادھر ہی نہ بھاگ پڑے۔ بلکہ اس نکیل کی طنابیں ہماری پاس ہوں کہ ہم ملک کے فائدے اور معاشرے کی فلاح کےلیے اسے جس جانب چاہیں موڑ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story