کھجور پر لٹکی فرقہ واریت
جہاں لوگ گنجے پر ہاتھ صاف کرنے لگتے ہیں ٹوپی والے فورا انھیں ٹوپی پہنا کر نکال لیتے ہیں
ISLAMABAD:
یہ الگ الگ حلیے کے مذہبی سیاست دان ہوں، جو ایک میز پر بھی بیٹھے ہوئے اپنے چہرے پر تختی سجائے ہوتے ہیں کہ ''فاصلہ رکھو ورنہ پیار ہو جائیگا'' یا پھر سیاست کے پنجرے میں لوگوں کو قید کرنے والے مداری جن میں سے اکثر مسجد یا امام بارگاہ بھی اُس وقت جاتے ہیں جب کیمرے ساتھ لگے ہوں یا پھر کجھور پر لٹکی ہوئی civil society ۔ سب لوگ نہ جانے کیوں ہمیں یہ بتانے پر تلے ہوئے ہیں کہ گنجے کے سر پر اتنے بال ہیں جتنے ایک اچھے شیمپو کے استعمال پر بھی نہیں ہو سکتے ۔ سب ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت نام کا کوئی رنگ برنگی جن نما گنجا نہیں پایا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ شیشہ دیکھ کر بھی کسی کو یقین نہیں آتا کہ سر پر بال نہیں۔
سڑک پر چلتے ہوئے اگر ہمیں کوئی گنجا نظر آ جائے تو ہم اُسے فورا باہر کا آدمی کہہ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اور زور زور سے استغفراللہ پڑھنے لگتے ہیں ۔ اسی لیے جو لوگ ہنگو میں نام سن کر قتل کرتے نظر آئے وہ سارے باہر سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے آنکھیں بند کر لیں کہ جاگتے ہوئے برے خواب نہیں دیکھنے چاہیے۔ شیخ رشید صاحب نے فورا کہہ دیا کہ پنڈی میں گنج پن کا مظاہرہ کرنے والے سارے حیوانی گنجے باہر سے آئے تھے۔ ورنہ پنڈی میں تو سارے سروں پر سفید اور کالے بال ایک ساتھ رہتے ہیں۔ عمران خان اپنی بوڑھی جوانی میں بھی گنجے نہیں ہوئے اس لیے انھیں بھی پنڈی، ملتان اور بہاولنگر میں سارے باہر سے آئے ہوئے گنجے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ بات اب تک نہیں سمجھ سکے کہ خیبرپختونخوا میں تو اُن کی حکومت نے سارے بالوں والے وزیر رکھے ہیں پھر کوہاٹ میں تفرقہ کا طوفان اٹھانے والے گنجے کہاں سے آ گئے؟ اور اُن کے سروں پر چپیڑ کس نے لگائی تھی کہ سارے بیرونی گنجے گرم انڈوں کی طرح ابلنے لگے ۔ دکانوں کو آگ لگا دی۔ لوگوں کو قتل کر دیا اور پھر فوج کو آنا پڑ گیا ۔ ایک شیمپو بنانے والی کمپنی کے سیلز مین نے مجھ سے پوچھا بھی کہ عمران خان نے ان رنگ برنگے گنجو ں کو آفس دے کر مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ سوال اتنا مشکل تھا کہ اس کے لیے ہمیں خود گنجا ہونا پڑ جاتا۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ گنجوں کا اور ٹوپی کا ساتھ جنم جنم کا ہے۔ بچپن میں جب کبھی گرمیوں میں ابا ہمیں گنجا کرواتے تو ہمیں بہت شرم آتی تھی۔ اسی شرم کے باعث ہم اکثر ٹوپی پہن کر اپنے ساتھیوں کو ٹوپی کروایا کرتے تھے کہ ہم گنجے نہیں ہے بس ابا کے ظلم کی وجہ سے کان کے اوپر کے بال کم ہو گئے۔ بلوچستان کے ہمارے اکثر دوست کہتے ہیں کہ جب کبھی ہمیں یہاں باہر سے آئے ہوئے رنگ برنگے فرقوں کے گنجے نظر آتے ہیں تو اُس کے قریب ہی کہیں ٹوپی والے بھی ہوتے ہیں۔ جہاں لوگ گنجے پر ہاتھ صاف کرنے لگتے ہیں ٹوپی والے فورا انھیں ٹوپی پہنا کر نکال لیتے ہیں۔
اسی لیے شاید اس وقت کے وزیر اطلاعات کو یہ کہنا پڑ گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہیں نہ کہیں ماضی میں فرقہ واریت کے گنج پن میں مبتلا رہی ہے۔
وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ہر ادارے میں یہ گھس چکے ہیں۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اب ٹوپی والے گنجوں سے اپنا رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسی لیے اب دور دور رہتے ہیں۔ کہیں اس لیے تو نہیں کہ اب چھوٹے بال بڑے ہو چکے ہیں اور وہ کانوں کے اوپر آنے لگے ہیں ۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جن سے اب ٹوپی کھنیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اتنے پختہ ہو گئے ہیں کہ وہ اب ٹوپی والے کو بھی اپنی طرح گنجا سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی انھیں یقین دلانے کی کوشش کرے کہ میرے سر پر سارے بال ہیں تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سر قلم کرنے کا حکم دے دیتے ہیں ۔
کوئی سر پھرا نفسیات کا ماہر اگر انھیں بتانے کی کوشش کرے کہ جناب آپ کے سر پر بال نہیں ہیں اسے سر پھرا کہہ کر اپنی آبادی سے نکال دیتے ہیں۔ سارے ٹولے ایک ہو جاتے ہیں۔ جیسے ابھی سارے ٹی وی پر چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کوئی گنجا ہے ہی نہیں ۔
یہ سارے موسمی اداکار ہمیں بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی گنجی دیواروں پر کہیں نہیں لکھا ہوا کہ کون کافر ہے ۔۔ یہ ہمیں اندھا سمجھتے ہوئے منہ بند کرنے کے لیے کہتے ہے کہ موسم کیسا بھی ہو جائے رنگ برنگے گنجے کے سر پر سارے بال سیاہ ہیں اور اُس میں کسی کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوئی سفید بال موجود نہیں۔
میرا یقین ہے کہ جب سے انسان ہے تب سے گنج پن کا مرض ہے۔ آپ جرمنی میں ہوں یا افغانستان میں، ایران کا شہر چابار ہو یا پھر امریکا میں نیویارک کی گلیاں یہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ مگر وہاں کسی کو باہر سے آیا ہوا نہیں کہا جاتا بلکہ مرض کو مرض مانتے ہیں۔ جس بات کو ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں وہ صدیوں سے موجود ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے سروں پر ایک جتنے بال ہوں؟ مگر صدیوں کی لڑائی کے بعد کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ سمجھ گئے کہ گنج پن کی آمد کو باہر یا اوپر سے آئی مخلوق مت سمجھیں بلکہ تسلیم کر لیں کہ یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ہمیں ہی حل کرنا ہے۔ کیوں نہیں مان لیتے کہ ہمارا معاشرہ بٹ رہا ہے جھوٹی تسلیاں دینے سے سارے بال دوبارہ تو نہیں جوڑے جائیں گے ہاں مان لینے کے بعد اُس کا علاج ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ نہیں مانتے اسی لیے تو کراچی میں پچھلے بیس سالوں میں گنج پن کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو چن چن کر مار دیا گیا ۔
بالوں سے متعلق گفتگو ہو اور خواتین کا ذکر نہ ہو یہ اُسی طرح ہے جیسے کراچی آپ لکھیں اور اُس کے ساتھ بھائی لکھنا بھول جائیں۔ وزیر داخلہ لکھیں اور اُس کے ساتھ ٹی وی شوقین لکھنا بھول جائیں یا پھر آپ دہشت لکھیں اور پولیس لکھنے کا منع کر دیں۔ اس لیے گنج پن کے متعلق ماہرانہ رائے لینے کے لیے اپنی اکلوتی بیوی سے رابطہ کیا۔ قسمت پھوٹی ہوئی تھی عین اسی وقت ٹی وی پر حکیم اللہ محسود کی فوٹیج چل رہی تھیں۔ بیوی نے خبر دیکھنے کی بجائے بالوں کی تعریف کر دی۔ جیسے جماعت نے اعمال دیکھے بغیر شہادت دے دی تھی۔ پوچھنے لگی کہ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یہ تو پتہ کریں کہ شیمپو کون سا استعمال کرتا تھا۔ میں نے ہزار بار جملہ دہرایا کہ یہ خالصتاً پاکستانی ٹوٹکے کا کمال ہے ورنہ تو یہ بھی گنجا ہوتا۔ مگر وہ شیمپو کا پوچھتی رہی۔ ابھی بھی sms کر کہ پوچھ رہی ہے اگر کسی بالوں والے، گنجے یا پھر ٹوپی بیچنے والے کو پتہ ہو تو میری مشکل آسان کر کے اس قوم پر احسان عظیم کیجیے جو برسوں سے آگ میں جل رہی ہے۔ فرقوں کے رنگ بکھرنے والے گنجوں کے سر پر سارے بال قدرتی ہیں یا پھر کسی کی ٹوپی پہن کر ہمیں ٹوپی پہنا رہے ہیں ۔؟
یہ الگ الگ حلیے کے مذہبی سیاست دان ہوں، جو ایک میز پر بھی بیٹھے ہوئے اپنے چہرے پر تختی سجائے ہوتے ہیں کہ ''فاصلہ رکھو ورنہ پیار ہو جائیگا'' یا پھر سیاست کے پنجرے میں لوگوں کو قید کرنے والے مداری جن میں سے اکثر مسجد یا امام بارگاہ بھی اُس وقت جاتے ہیں جب کیمرے ساتھ لگے ہوں یا پھر کجھور پر لٹکی ہوئی civil society ۔ سب لوگ نہ جانے کیوں ہمیں یہ بتانے پر تلے ہوئے ہیں کہ گنجے کے سر پر اتنے بال ہیں جتنے ایک اچھے شیمپو کے استعمال پر بھی نہیں ہو سکتے ۔ سب ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت نام کا کوئی رنگ برنگی جن نما گنجا نہیں پایا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ شیشہ دیکھ کر بھی کسی کو یقین نہیں آتا کہ سر پر بال نہیں۔
سڑک پر چلتے ہوئے اگر ہمیں کوئی گنجا نظر آ جائے تو ہم اُسے فورا باہر کا آدمی کہہ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اور زور زور سے استغفراللہ پڑھنے لگتے ہیں ۔ اسی لیے جو لوگ ہنگو میں نام سن کر قتل کرتے نظر آئے وہ سارے باہر سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے آنکھیں بند کر لیں کہ جاگتے ہوئے برے خواب نہیں دیکھنے چاہیے۔ شیخ رشید صاحب نے فورا کہہ دیا کہ پنڈی میں گنج پن کا مظاہرہ کرنے والے سارے حیوانی گنجے باہر سے آئے تھے۔ ورنہ پنڈی میں تو سارے سروں پر سفید اور کالے بال ایک ساتھ رہتے ہیں۔ عمران خان اپنی بوڑھی جوانی میں بھی گنجے نہیں ہوئے اس لیے انھیں بھی پنڈی، ملتان اور بہاولنگر میں سارے باہر سے آئے ہوئے گنجے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ بات اب تک نہیں سمجھ سکے کہ خیبرپختونخوا میں تو اُن کی حکومت نے سارے بالوں والے وزیر رکھے ہیں پھر کوہاٹ میں تفرقہ کا طوفان اٹھانے والے گنجے کہاں سے آ گئے؟ اور اُن کے سروں پر چپیڑ کس نے لگائی تھی کہ سارے بیرونی گنجے گرم انڈوں کی طرح ابلنے لگے ۔ دکانوں کو آگ لگا دی۔ لوگوں کو قتل کر دیا اور پھر فوج کو آنا پڑ گیا ۔ ایک شیمپو بنانے والی کمپنی کے سیلز مین نے مجھ سے پوچھا بھی کہ عمران خان نے ان رنگ برنگے گنجو ں کو آفس دے کر مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ سوال اتنا مشکل تھا کہ اس کے لیے ہمیں خود گنجا ہونا پڑ جاتا۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ گنجوں کا اور ٹوپی کا ساتھ جنم جنم کا ہے۔ بچپن میں جب کبھی گرمیوں میں ابا ہمیں گنجا کرواتے تو ہمیں بہت شرم آتی تھی۔ اسی شرم کے باعث ہم اکثر ٹوپی پہن کر اپنے ساتھیوں کو ٹوپی کروایا کرتے تھے کہ ہم گنجے نہیں ہے بس ابا کے ظلم کی وجہ سے کان کے اوپر کے بال کم ہو گئے۔ بلوچستان کے ہمارے اکثر دوست کہتے ہیں کہ جب کبھی ہمیں یہاں باہر سے آئے ہوئے رنگ برنگے فرقوں کے گنجے نظر آتے ہیں تو اُس کے قریب ہی کہیں ٹوپی والے بھی ہوتے ہیں۔ جہاں لوگ گنجے پر ہاتھ صاف کرنے لگتے ہیں ٹوپی والے فورا انھیں ٹوپی پہنا کر نکال لیتے ہیں۔
اسی لیے شاید اس وقت کے وزیر اطلاعات کو یہ کہنا پڑ گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہیں نہ کہیں ماضی میں فرقہ واریت کے گنج پن میں مبتلا رہی ہے۔
وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ہر ادارے میں یہ گھس چکے ہیں۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اب ٹوپی والے گنجوں سے اپنا رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسی لیے اب دور دور رہتے ہیں۔ کہیں اس لیے تو نہیں کہ اب چھوٹے بال بڑے ہو چکے ہیں اور وہ کانوں کے اوپر آنے لگے ہیں ۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جن سے اب ٹوپی کھنیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اتنے پختہ ہو گئے ہیں کہ وہ اب ٹوپی والے کو بھی اپنی طرح گنجا سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی انھیں یقین دلانے کی کوشش کرے کہ میرے سر پر سارے بال ہیں تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سر قلم کرنے کا حکم دے دیتے ہیں ۔
کوئی سر پھرا نفسیات کا ماہر اگر انھیں بتانے کی کوشش کرے کہ جناب آپ کے سر پر بال نہیں ہیں اسے سر پھرا کہہ کر اپنی آبادی سے نکال دیتے ہیں۔ سارے ٹولے ایک ہو جاتے ہیں۔ جیسے ابھی سارے ٹی وی پر چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کوئی گنجا ہے ہی نہیں ۔
یہ سارے موسمی اداکار ہمیں بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی گنجی دیواروں پر کہیں نہیں لکھا ہوا کہ کون کافر ہے ۔۔ یہ ہمیں اندھا سمجھتے ہوئے منہ بند کرنے کے لیے کہتے ہے کہ موسم کیسا بھی ہو جائے رنگ برنگے گنجے کے سر پر سارے بال سیاہ ہیں اور اُس میں کسی کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوئی سفید بال موجود نہیں۔
میرا یقین ہے کہ جب سے انسان ہے تب سے گنج پن کا مرض ہے۔ آپ جرمنی میں ہوں یا افغانستان میں، ایران کا شہر چابار ہو یا پھر امریکا میں نیویارک کی گلیاں یہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ مگر وہاں کسی کو باہر سے آیا ہوا نہیں کہا جاتا بلکہ مرض کو مرض مانتے ہیں۔ جس بات کو ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں وہ صدیوں سے موجود ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے سروں پر ایک جتنے بال ہوں؟ مگر صدیوں کی لڑائی کے بعد کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ سمجھ گئے کہ گنج پن کی آمد کو باہر یا اوپر سے آئی مخلوق مت سمجھیں بلکہ تسلیم کر لیں کہ یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ہمیں ہی حل کرنا ہے۔ کیوں نہیں مان لیتے کہ ہمارا معاشرہ بٹ رہا ہے جھوٹی تسلیاں دینے سے سارے بال دوبارہ تو نہیں جوڑے جائیں گے ہاں مان لینے کے بعد اُس کا علاج ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ نہیں مانتے اسی لیے تو کراچی میں پچھلے بیس سالوں میں گنج پن کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو چن چن کر مار دیا گیا ۔
بالوں سے متعلق گفتگو ہو اور خواتین کا ذکر نہ ہو یہ اُسی طرح ہے جیسے کراچی آپ لکھیں اور اُس کے ساتھ بھائی لکھنا بھول جائیں۔ وزیر داخلہ لکھیں اور اُس کے ساتھ ٹی وی شوقین لکھنا بھول جائیں یا پھر آپ دہشت لکھیں اور پولیس لکھنے کا منع کر دیں۔ اس لیے گنج پن کے متعلق ماہرانہ رائے لینے کے لیے اپنی اکلوتی بیوی سے رابطہ کیا۔ قسمت پھوٹی ہوئی تھی عین اسی وقت ٹی وی پر حکیم اللہ محسود کی فوٹیج چل رہی تھیں۔ بیوی نے خبر دیکھنے کی بجائے بالوں کی تعریف کر دی۔ جیسے جماعت نے اعمال دیکھے بغیر شہادت دے دی تھی۔ پوچھنے لگی کہ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یہ تو پتہ کریں کہ شیمپو کون سا استعمال کرتا تھا۔ میں نے ہزار بار جملہ دہرایا کہ یہ خالصتاً پاکستانی ٹوٹکے کا کمال ہے ورنہ تو یہ بھی گنجا ہوتا۔ مگر وہ شیمپو کا پوچھتی رہی۔ ابھی بھی sms کر کہ پوچھ رہی ہے اگر کسی بالوں والے، گنجے یا پھر ٹوپی بیچنے والے کو پتہ ہو تو میری مشکل آسان کر کے اس قوم پر احسان عظیم کیجیے جو برسوں سے آگ میں جل رہی ہے۔ فرقوں کے رنگ بکھرنے والے گنجوں کے سر پر سارے بال قدرتی ہیں یا پھر کسی کی ٹوپی پہن کر ہمیں ٹوپی پہنا رہے ہیں ۔؟