ہوئے تم دوست

تمام تر اخلاقی پستی کے باوجود ہماری قوم آج بھی ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرنے والوں سے درگزر کرنے کا جذبہ رکھتی ہے


نجمہ عالم November 20, 2013

وطن عزیز بیرونی طور پرکن خطرات سے دوچار ہے،کیسی کیسی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی صورت حال کا اس کو سامنا ہے، کوئی سیاستدان، کوئی رہنما، کوئی ادارہ غرض معاشرے کے تمام ذمے داران اس صورت حال کا حقیقی ادراک رکھنے کی بجائے ان مسائل اور ایشوز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں جس سے ملک کے حالات سنبھلنے کے بجائے مزید الجھتے جائیں۔ ملک کو درپیش خطرات و مسائل بڑھتے رہیں مگر ان کے ذاتی مفادات پر آنچ نہ آئے۔

وہ سیاسی جماعتیں جو روز اول سے قیام پاکستان کی مخالف تھیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ مسلمانان برصغیر کے مطالبہ آزادی کے خلاف عمداً بنائی گئی تھیں انھوں نے ہر مرحلے ہر ہر ذریعے سے قیام پاکستان کی علانیہ مخالفت کی جو تاریخ کا حصہ ہے اور خفیہ طور پر بھی وہ سازشیں کیں کہ مطالبہ آزادی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ مگر جب ان کی تمام تر مخالفانہ کوششوں کے باوجود الحمد اللہ پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو یہ بھی پاکستان کے ہمدرد بن کر یہاں سرگرم عمل ہو گئیں۔ ابتدا میں قیام پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کی یاد ہر پاکستانی کے دل میں تازہ تھی جب جذبہ آزادی و حب الوطنی عروج پر تھا تو یہ لوگ کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کرنے سے گریزاں رہے مگر خفیہ طور پر کم پڑھے لکھے افراد اور کچے ذہن کے نوجوانوں کے دلوں کو اندر ہی اندر اسلام (کہ جس کی سربلندی کے لیے ہی یہ ملک حاصل کیا گیا تھا) کے بارے میں اپنے مخصوص اور متعصبانہ خیالات سے آلود کرنے لگے اور پھر وہ وقت آیا کہ انھوں نے باقاعدہ سیاسی طور پر اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا عوام کی ایک قلیل تعداد کو اپنے نظریات کا اسیر کر لیا۔ قلیل تعداد میں نے بڑے وثوق سے اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان کے انتخابات اس بات کے گواہ ہیں کہ ان مخصوص نظریات کو عوام میں کبھی بھی پذیرائی حاصل نہ ہوئی اور یہ ہمیشہ سیاسی اقلیت ہی رہے۔

آگے چل کر غضب انھوں نے یہ کیا کہ طلبا کو اپنی منفی سوچ کا حصہ بنا کر تعلیمی اداروں کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کر کے جو نقصان تعلیم اور تعلیمی اداروں کو پہنچایا اس کا ازالہ آج تک ممکن نہ ہو سکا۔ ان سیاسی منافقین کا کردار یہ رہا ہے کہ زبانی پاکستان کو اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے دعوے اور اندرونی طور پر پاکستان دشمن عناصر سے گٹھ جوڑ۔۔۔۔فطرت کا یہ ازلی مظاہرہ ہے کہ منافق کی منافقت زیادہ دیر پوشیدہ نہیں رہتی۔ بالآخر دلوں کی کدورت کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں طالبان کے سربراہ کی ہلاکت پر جو جو موشگافیاں کی گئیں اس نے تمام محب وطن، عقل و شعور اور مثبت انداز فکر کے حامل پاکستانیوں کو نہ صرف ورطہ حیرت میں ڈال دیا بلکہ تمام مسلمانوں کی گردنیں شرم سے جھکا دیں۔ ان بیانات سے وہ بلی جو کافی عرصے سے تھیلے میں اچھلتی کودتی محسوس ہو رہی تھی باہر آ گئی اور اب پاکستانیوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی، فرقہ وارانہ منافرت اور تعصب کو ہوا دے کر امن و امان کی صورت حال کو کن عناصر نے اس مقام پر پہنچایا؟ آج چھیاسٹھ (66) برس گزر جانے کے باوجود ہم ایک متحد اور ہم خیال قوم نہ بن سکے موجودہ صورت حال بتا رہی ہے کہ آیندہ دنوں میں مزید دوریاں پیدا ہوں گی ۔

اگر بات بے تکی اور غیر متعصبانہ بیان تک محدود رہتی تو شاید دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر دی جاتی اور اگر مسلح افواج کے شہداء، پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں شہادتوں پر بیان داغے جانے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے معذرت کر لی جاتی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر اخلاقی پستی کے باوجود ہماری قوم آج بھی ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرنے والوں سے درگزر کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ مگر وہاں تو معذرت کے بجائے مزید اشتعال انگیز مطالبات کیے جا رہے ہیں اور گرجدار لہجے میں فرمایا جا رہا ہے کہ فوج کی سیاسی معاملات میں دخل اندازی قابل برداشت نہیں گویا ملک و قوم کے محافظوں کی قربانیوں کی توہین اور ان کے اہل خانہ کی دل آزاری عین اسلامی طرز فکر اور حقیقی اسلام ہے جس کے نفاذ کے یہ لوگ دعوے دار ہیں۔ ہزاروں بے گناہ شہریوں جن میں خواتین اور معصوم بچوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے ان کی شہادت پر تنقید کرنا اور تمسخر بنانا جائز اور برحق ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ اپنے رویے اور انداز فکر پر نادم ہونے کے بجائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ اسلام کی خود ساختہ تعریف پر اڑے ہوئے دوسروں کو قرآن مجید فرقان حمید کا بغور مطالعہ کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔

ملک کے دانشور، صاحب الرائے اور روشن خیال افراد جو ہر صورت اور ہر حال میں ملک کو ہر طرح کے خلفشار سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں وہ اس بھیانک انداز فکر پر بے حد فکرمند ہیں کہ وطن عزیز کی بقا و سلامتی کو آخر کیوں داؤ پر لگایا جا رہا ہے؟ محرم الحرام کے تقدس کو بھی فراموش کر کے ہر طرح اور ہر سطح پر منافرت کو فروغ دینا آخر کس سازش کا حصہ ہے؟ جب کہ چند مہذب، وسیع القلب اور محب وطن سیاسی جماعتیں، علما ، دانشور اور انفرادی طور پر کئی اہم شخصیات اس نازک وقت میں مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں نہ صرف سرگرم رہیں بلکہ کسی حد تک کامیاب بھی۔ ان کا طرز فکر اور عمل قابل تعریف ہے۔ اتحاد بین المسلمین اور تمام فرقوں کے درمیان یکجہتی و اتحاد کے لیے ان تمام علما، افراد اور سیاسی سطح پر ایم کیو ایم کا کردار واقعی قابل ستائش رہا ہے ان کا ذکر نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔

اس موقف پر بیشتر کالم نویسوں اور مضمون نگاروں نے تواتر کے ساتھ لکھا اور اپنا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ذرایع ابلاغ خصوصاً برقی ذرایع ابلاغ کا بھی فرض ہے کہ احتیاط کو مد نظر رکھ کر ایسی غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ فضا پیدا کریں کہ جس کے باعث معاشرتی ہم آہنگی، اتحاد و اخوت قائم ہو سکے اور ملک کو جس طرح کے حالات اور چیلنجز کا سامنا ہے ان سے بخوبی عہدہ برا ہو سکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شرح خواندگی کی کمی افراد معاشرہ کے انداز فکر پر اثر انداز ہوتی ہے اور کوئی بھی متعصبانہ سوچ بغیر کسی استدلال کے ناخواندہ لوگوں میں بڑی آسانی سے پروان چڑھائی جا سکتی ہے اور یوں غیر محب وطن عناصر اپنے مفادات و مقاصد باآسانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدنصیبی کہہ لیجیے کہ وہ بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمنوں اور خطرات سے دوچار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمیں ان کے ہوتے ہوئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں بقول شاعر ''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔'' ایسے میں روشن خیال افراد، علما اور سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ تمام خدشات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھیں اور اپنا فرض بھرپور ذمے داری سے ادا کریں تا کہ ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔