کربلا کا لازوال سبق
وقت کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ رہبران دین و ملت کربلا میں شہادت حسین کے پیغام کو سمجھیں
محرم الحرام کا مہینہ نواسہ رسول حضرت امام حسین اور ان کے 72 جانثاروں کی احیائے اسلام کے لیے کربلا کے مقام پر دی گئی لازوال قربانی سے منسوب ہے۔ تاریخ انسانی میں روئے زمین پر ایسا کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہوا اور تا قیامت امام عالی مقام کے کرب و بلا کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی۔ سانحہ کربلا در حقیقت حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکا تھا۔ وقت کا یزید ہر صورت امام حسین کو اپنی بیعت کرنے پر مجبور کر رہا تھا وہ طاقت کے نشے میں سرشار تھا اور مفاد پرستوں کا ٹولہ اس کا ہمنوا امام حسین جن کی تربیت ان کے نانا آنحضرت کے زیر سایہ ہوئی، یزید کی چالاکیوں، چالبازیوں اور مکر و فریب سے پوری طرح آگاہ تھے انھوں نے دین اسلام کی بقا، سر بلندی اور دوام کے لیے یزید کی مطلق العنانی کی بیعت کرنے کی بجائے حق و صداقت کا پرچم بلند کیا اور جرأت و بہادری سے یزید کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون سے دین اسلام کو نئی زندگی، قوت اور سر بلندی عطا کی۔ نواسہ رسول نے باطل، جابر اور ظالم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کی جو لازوال مثال قائم کی وہ قیامت تک کے لیے تاریخ میں امر ہو گئی۔ فاطمۃ الزہرہ کے لعل نے اپنے لہو سے حق و باطل کے درمیان سچائی کی جو فیصلہ کن لکیر کھینچی اس نے یہ ثابت کر دیا کہ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ظالم، باطل، آمر اور جابر قوتوں کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 14 سو سال گزارنے کے بعد بھی سانحہ کربلا اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لوگوں کے قلب و ذہن میں ترو تازہ ہے اور امام کی عزاداری کا سلسلہ جاری ہے۔
آپ امام عالی مقام کی میدان کربلا میں دی گئی قربانی کے فلسفے اور سانحہ کربلا کے پس منظر و پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے دنیائے اسلام کے موجودہ حکمرانوں، رہنماؤں، قائدین اور علمائے کرام، مشائخ عظام، مفتیان دین اور رہبران محراب و منبر کے کردار، اعمال اور قول و عمل کا جائزہ لیں تو تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کسی بھی مکتب فکر کے اکابرین میں پیغام کربلا کو سمجھنے، اس سے روشنی، سبق حاصل کرنے کا جذبہ ہے اور نہ شوق شہادت، بقول علامہ اقبال:
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
رہبران ملت اسلامیہ دین اسلام کی سربلندی، بقا اور دوام کے لیے باطل سے ٹکرانے کے بلند آہنگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن ان کے عمل کا خانہ خالی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام دیگر اقوام کے مقابلے میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں پستی و زوال کا شکار ہے۔ خطہ زمین پر 60 کے قریب اسلامی ممالک ہیں جن میں تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان آباد ہیں۔ کم و بیش سب کی حالت خستہ و ناگفتہ بہ ہے۔ مجبوریوں، محرومیوں، مایوسیوں اور ناکامیوں نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، غربت، جہالت، پس ماندگی، افلاس، مسلکی و فقہی اختلافات، مذہبی منافرت، انتہا پسندی و فرقہ واریت اور دہشت گردی مسلمان ملکوں کی پہچان بن چکی ہے۔ اسلام تو امن و آشتی کا دین ہے یہ صبر، تحمل، برداشت، میانہ روی، اعتدال پسندی، رواداری اور اقلیتوں کے احترام کی تعلیم دیتا ہے کتاب مبین میں لکھا ہے کسی ایک انسان کا ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ دنیا بھر میں دین اسلام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے مذہب سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور پوری دنیا میں اسلام کے خلاف بھرپور پروپگینڈا مہم شروع کر رکھی ہے طرح طرح کی تاویلات اور غلط تشریحات سے اسلام کا مبارک چہرہ مسخ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جو ارباب حل و عقد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
عالم اسلام کو آج مشکل اور سنگین چیلنجوں اور کڑی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی کے حوالے سے دین اسلام رسوائیوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے۔ یہ سب ہمارے اکابرین قوم اور رہبران دین ملت کی مصلحت کوشی، مفاد پرستی، اقربا پروری، تفرقہ بازی، منتقمانہ مزاجی اور غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس زبوں حالی کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے رو گردانی، سرکار مدینہؐ کے اسوہ حسنہ سے بے اعتنائی اور نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کے لہو سے رقم ہونے والے پیغام کربلا کو بھلا دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال امام عالی مقام اور ان کے رفقا کی شہادت کو جس درد مندی و دل سوزی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور ان کے غم میں آہ و فغاں کرتے ہیں کیا روز مرہ کی عملی زندگی میں بھی اسی چاہت، محبت، عقیدت اور اخلاص نیت کے ساتھ اسوہ شبیری پر عمل بھی کرتے ہیں؟ کیا وقت کے یزیدیوں کے خلاف آج عالم اسلام کے حکمراں امام عالی مقام کی طرح صف آرا نظر آتے ہیں؟ کیا رہبران دین ملت نے کربلا کے حقیقی پیغام کو سمجھا اور کوئی سبق حاصل کیا؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ جانے دیجیے دوسروں کو اپنے گھر پاکستان کو ہی دیکھ لیجیے جس کے حکمراں وقت کے یزید کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن میں اسلام کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے اتنے گروہ وجود میں آ گئے ہیں کہ اصل اسلام کی پہچان مشکل ہو گئی ہے ہم ''شہید'' اور ''شہادت'' جیسے خالصتاً شرعی مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہیں قوم مسلک اور فرقے کے نام پر تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے بدقسمتی سے ایک فرقے کے خلاف دوسرا صف آرا ہے ہم اپنا تعارف مسلمان کی بجائے شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ کے نام سے کرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اب ''طالبان'' نامی ایک نیا فرقہ بھی وجود میں آ گیا ہے جو پاکستان کے آئین، پارلیمنٹ اور حکومت کو نہیں مانتا اور بندوق کی نوک پر ''اپنا اسلام'' نافذ کرنا چاہتا ہے۔ خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس فرقے کی پہچان ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے ''طالبانوں'' نے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کراچی تا خیبر آگ و خون کا الاؤ روشن ہے۔ معصوم و بے گناہ لوگ اس کا ایندھن بن رہے ہیں۔ 9 اور 10 محرم کو ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا مقام اطمینان ہے کہ ماسوائے راولپنڈی و اسلام آباد کے سانحے کے ملک کے کسی حصے میں خودکش حملوں و بم دھماکوں کا کوئی بڑا سانحہ رونما نہیں ہوا۔ اس حوالے سے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی یقینا قابل تحسین ہے۔ وقت کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ رہبران دین و ملت کربلا میں شہادت حسین کے پیغام کو سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔
آپ امام عالی مقام کی میدان کربلا میں دی گئی قربانی کے فلسفے اور سانحہ کربلا کے پس منظر و پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے دنیائے اسلام کے موجودہ حکمرانوں، رہنماؤں، قائدین اور علمائے کرام، مشائخ عظام، مفتیان دین اور رہبران محراب و منبر کے کردار، اعمال اور قول و عمل کا جائزہ لیں تو تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کسی بھی مکتب فکر کے اکابرین میں پیغام کربلا کو سمجھنے، اس سے روشنی، سبق حاصل کرنے کا جذبہ ہے اور نہ شوق شہادت، بقول علامہ اقبال:
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
رہبران ملت اسلامیہ دین اسلام کی سربلندی، بقا اور دوام کے لیے باطل سے ٹکرانے کے بلند آہنگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن ان کے عمل کا خانہ خالی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام دیگر اقوام کے مقابلے میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں پستی و زوال کا شکار ہے۔ خطہ زمین پر 60 کے قریب اسلامی ممالک ہیں جن میں تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان آباد ہیں۔ کم و بیش سب کی حالت خستہ و ناگفتہ بہ ہے۔ مجبوریوں، محرومیوں، مایوسیوں اور ناکامیوں نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، غربت، جہالت، پس ماندگی، افلاس، مسلکی و فقہی اختلافات، مذہبی منافرت، انتہا پسندی و فرقہ واریت اور دہشت گردی مسلمان ملکوں کی پہچان بن چکی ہے۔ اسلام تو امن و آشتی کا دین ہے یہ صبر، تحمل، برداشت، میانہ روی، اعتدال پسندی، رواداری اور اقلیتوں کے احترام کی تعلیم دیتا ہے کتاب مبین میں لکھا ہے کسی ایک انسان کا ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ دنیا بھر میں دین اسلام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے مذہب سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور پوری دنیا میں اسلام کے خلاف بھرپور پروپگینڈا مہم شروع کر رکھی ہے طرح طرح کی تاویلات اور غلط تشریحات سے اسلام کا مبارک چہرہ مسخ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جو ارباب حل و عقد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
عالم اسلام کو آج مشکل اور سنگین چیلنجوں اور کڑی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی کے حوالے سے دین اسلام رسوائیوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے۔ یہ سب ہمارے اکابرین قوم اور رہبران دین ملت کی مصلحت کوشی، مفاد پرستی، اقربا پروری، تفرقہ بازی، منتقمانہ مزاجی اور غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس زبوں حالی کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے رو گردانی، سرکار مدینہؐ کے اسوہ حسنہ سے بے اعتنائی اور نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کے لہو سے رقم ہونے والے پیغام کربلا کو بھلا دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال امام عالی مقام اور ان کے رفقا کی شہادت کو جس درد مندی و دل سوزی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور ان کے غم میں آہ و فغاں کرتے ہیں کیا روز مرہ کی عملی زندگی میں بھی اسی چاہت، محبت، عقیدت اور اخلاص نیت کے ساتھ اسوہ شبیری پر عمل بھی کرتے ہیں؟ کیا وقت کے یزیدیوں کے خلاف آج عالم اسلام کے حکمراں امام عالی مقام کی طرح صف آرا نظر آتے ہیں؟ کیا رہبران دین ملت نے کربلا کے حقیقی پیغام کو سمجھا اور کوئی سبق حاصل کیا؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ جانے دیجیے دوسروں کو اپنے گھر پاکستان کو ہی دیکھ لیجیے جس کے حکمراں وقت کے یزید کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن میں اسلام کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے اتنے گروہ وجود میں آ گئے ہیں کہ اصل اسلام کی پہچان مشکل ہو گئی ہے ہم ''شہید'' اور ''شہادت'' جیسے خالصتاً شرعی مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہیں قوم مسلک اور فرقے کے نام پر تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے بدقسمتی سے ایک فرقے کے خلاف دوسرا صف آرا ہے ہم اپنا تعارف مسلمان کی بجائے شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ کے نام سے کرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اب ''طالبان'' نامی ایک نیا فرقہ بھی وجود میں آ گیا ہے جو پاکستان کے آئین، پارلیمنٹ اور حکومت کو نہیں مانتا اور بندوق کی نوک پر ''اپنا اسلام'' نافذ کرنا چاہتا ہے۔ خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس فرقے کی پہچان ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے ''طالبانوں'' نے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کراچی تا خیبر آگ و خون کا الاؤ روشن ہے۔ معصوم و بے گناہ لوگ اس کا ایندھن بن رہے ہیں۔ 9 اور 10 محرم کو ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا مقام اطمینان ہے کہ ماسوائے راولپنڈی و اسلام آباد کے سانحے کے ملک کے کسی حصے میں خودکش حملوں و بم دھماکوں کا کوئی بڑا سانحہ رونما نہیں ہوا۔ اس حوالے سے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی یقینا قابل تحسین ہے۔ وقت کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ رہبران دین و ملت کربلا میں شہادت حسین کے پیغام کو سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔