ادویات کا استعمال اور ارتقا
ایک لاکھ میں سے زچگی کے دوران 450 خواتین ریڈ ہیمو گلوبین کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث مر رہی ہیں۔
ISLAMABAD:
زمانہ قدیم میں یعنی دور وحشت اور دور بربریت میں انسان اپنے غذائی حصول کے لیے جانوروں کا شکار کرتا، درختوں سے پھل توڑتا اور مچھلی پکڑ کر کھاتا تھا۔ درختوں اور غاروں میں زندگی بسر کرتا تھا۔ حضرت انسان صرف کھا پی کر ہی زندگی نہیں گزارتا تھا بلکہ بخار آنے، ہڈی ٹوٹنے یا اور کسی قسم کی بیماریوں سے نجات اور حصول صحت کے لیے مختلف اقسام کی ادویات بھی استعمال کرتا تھا۔
وہ ادویات آج کی طرح گولیوں، کیپسولوں اور انجکشنوں کے ذریعے نہیں لیتا تھا بلکہ جنگلوں سے جڑی بوٹیوں اور پہاڑوں سے کیمیائی اور نمکیات کے پتھروں کو استعمال کرتا تھا۔ جسم کے اندرونی حصوں کے زخم کو درست کرنے کے لیے ہلدی کا عرق اور چونے کا پانی ملا کر استعمال کرتا۔ آج کے دور جدید میں اسے اینٹی سیپٹک کہا جاتا ہے۔ جسم کے باہر چوٹ لگنے سے سرسوں کا تیل اور ہلدی ملا کر مرہم کے طور پر استعمال میں لاتا۔ ہاضمے کو درست کرنے کے لیے نمکیات اور سبزی کا سوپ استعمال کیا کرتا تھا۔ لہسن خون پتلا کرنے میں کام آتا تھا جسے جدید سائنس بھی مانتی ہے۔ نیم کوڑی سے خون کی صفائی کرتا۔ اس وقت امریکا کی مینسینٹو کمپنی نیم سے 66 اقسام کی ادویات بنا رہی ہے۔ جنگل میں آج بھی ایسے درخت کے چھال ہیں جسے جنگلی لوگ پانی میں ڈال کر مچھلی مارتے ہیں اور زہر بناتے ہیں۔
ایسی جڑی بوٹیوں اور کیمیائی اجزا کو صاف شفاف کر کے اس کو مخصوص شکل دے کر آج ہم دوائیاں استعمال کرتے ہیں۔ اب تو میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ دماغ کے علاوہ ہر چیز تبدیل (ٹرانسپلانٹ) ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ پینسلن، چیچک، کونین اور اینٹی بائیوٹک کی ایجاد جدید سائنس کی انقلابی ایجادات ہیں۔ مگر سائنس کی ان انسان پرور دواؤں کو عام انسان کے حصول کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داریاں ہیں۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں حکومتوں کے کارندوں سے ساز باز کر کے اپنی دوائیں انتہائی مہنگے داموں میں فروخت کر کے ایک جانب انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں تو دوسری جانب منافعے کی حرص میں ارب پتی سے کھرب پتی بنتی جا رہی ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان کے ساتھ ہے۔ یہاں تقریباً 350 سے زائد مقامی ادویات کی کمپنیاں ہیں جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف 35 ہیں۔
حکومت نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چھوٹ دے رکھی ہے اور ملکی کمپنیوں پر قدغن لگا رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام کو مہنگی ادویات خریدنی پڑتی ہیں۔ جو دوائی مقامی کمپنی 144 روپے میں فروخت کرتی ہیں وہی دوائی ملٹی نیشنل کمپنیاں 444 روپے میں بیچتی ہیں۔ جب کہ دیسی اور غیر ملکی کمپنیاں ایک ہی قسم کے کیمیکل سے ادویات کی مینو فیکچرنگ کرتی ہیں، فارمولا بھی ایک ہی ہے اور ان کی پیداوار بھی برابر کی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا کوئی ساز باز نہیں کرتیں جو پکڑ میں آئے۔ مثال کے طور پر کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 500 سے ہزار ڈاکٹروں کو بشمول ان کے خاندان سیمینار کے بہانے بیرون ملک دورہ کروایا۔ اب آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ دورہ کرنے والے ڈاکٹرز کس کا نسخہ لکھیں گے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو دوائیاں ہمارے اپنے ملک میں کم ازکم 10 کمپنیاں بناتی ہیں انھیں درآمد کرنے پر اور بنانے پر پابندی ہو۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش ہمارے لیے اچھی مثالیں ہیں۔
یہاں ملکی کمپنیاں جو دوائیاں بناتی ہیں انھیں بیرون ملکوں سے درآمد کرنے پر پابندی عاید ہے۔ وٹامنز اور عام ادویات تو درآمد کرنے کی قطعی اجازت نہیں۔ دوسرے ممالک سے منظور کروانے میں کم ازکم 5 سال لگ جاتے ہیں۔ درآمدی ادویات کی ڈیوٹی 10 فیصد ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ بوتل، ایلو ایلو، خالی کیپسول، پیکنگ، اسٹرپ یعنی ادویات کی ہر قسم کی پیکنگ کی 20 فیصد ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے 17% سیلز ٹیکس لگتا ہے جو ادویات پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہیں ان پر ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح پاکستانی فیکٹریوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اسی طرح درآمدی ادویات بنانے والی کمپنیوں کا بھی ہر پانچ سال میں معائنہ کرانے کی ضرورت ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات کی قیمتیں پاکستانی ادویات کی قیمتوں کے مساوی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے بھی کہ ان کے برانڈ کی ادویات اگر ڈاکٹرز لکھنا بھی چاہیں تو مریضوں کو ان دوائیوں کی خریداری میں زیادہ پیسہ نہ دینا پڑے۔
پاکستان کی برآمد کرنے والی ادویات کی کمپنیوں کو برآمد کرنے کے لیے پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ادویات FDA سے یا یورپ اور جاپان میں لازمی طور پر رجسٹرڈ کروائیں۔ ان کی 19000,ISO اور جی ایم پی سرٹیفکیٹ کو منظور نہیں کیا جاتا جس سے پاکستانی درآمد کنندگان درآمد نہیں کر سکتے ہیں جب کہ چین کا پاکستان کو ادویات برآمد کرنے پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے۔ پاکستانی کمپنیوں کو 2001 سے تقریباً نہ ہونے کے برابر قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی ہے، پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ حکومت ایک ایجنڈا ترتیب دے جو افراط زر سے منسلک ہو ورنہ پاکستانی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے۔ ان بے روزگاریوں کی وجہ سے جرائم میں مزید اضافہ ہو گا جو کہ ہماری معیشت اور مریضوں کی صحت یابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی دونوں کمپنیاں اگر حکومت کی جانب سے منظور شدہ ہیں تو پھر یہ تفریق کیوں؟ پاکستان میں 1132 بچے بھوک سے ہر روز مر رہے ہیں۔
ایک لاکھ میں سے زچگی کے دوران 450 خواتین ریڈ ہیمو گلوبین کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث مر رہی ہیں۔ لاکھوں مریض پاکستانی ادویات کے عدم حصول کی وجہ سے لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اس لیے کہ اسے ادویات کے ذریعے صاف نہیں کر پاتے۔ مہنگی ادویات کے باعث شہروں اور گاؤں دیہاتوں میں اسپرے نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے ملیریا، ڈینگی وائرس، چیچک، ٹی بی، پیلیا اور کھانسی بخار کے امراض عام ہیں۔ ان مسائل کے حل کا واحد راستہ مقامی ادویات کی کمپنیوں کو سہولتیں، رعایتیں دی جائیں اور ان پر عاید قدغن کا خاتمہ کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں پر وہی آئین و قانون لاگو کیا جائے جو مقامی کمپنیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں یعنی دور وحشت اور دور بربریت میں انسان اپنے غذائی حصول کے لیے جانوروں کا شکار کرتا، درختوں سے پھل توڑتا اور مچھلی پکڑ کر کھاتا تھا۔ درختوں اور غاروں میں زندگی بسر کرتا تھا۔ حضرت انسان صرف کھا پی کر ہی زندگی نہیں گزارتا تھا بلکہ بخار آنے، ہڈی ٹوٹنے یا اور کسی قسم کی بیماریوں سے نجات اور حصول صحت کے لیے مختلف اقسام کی ادویات بھی استعمال کرتا تھا۔
وہ ادویات آج کی طرح گولیوں، کیپسولوں اور انجکشنوں کے ذریعے نہیں لیتا تھا بلکہ جنگلوں سے جڑی بوٹیوں اور پہاڑوں سے کیمیائی اور نمکیات کے پتھروں کو استعمال کرتا تھا۔ جسم کے اندرونی حصوں کے زخم کو درست کرنے کے لیے ہلدی کا عرق اور چونے کا پانی ملا کر استعمال کرتا۔ آج کے دور جدید میں اسے اینٹی سیپٹک کہا جاتا ہے۔ جسم کے باہر چوٹ لگنے سے سرسوں کا تیل اور ہلدی ملا کر مرہم کے طور پر استعمال میں لاتا۔ ہاضمے کو درست کرنے کے لیے نمکیات اور سبزی کا سوپ استعمال کیا کرتا تھا۔ لہسن خون پتلا کرنے میں کام آتا تھا جسے جدید سائنس بھی مانتی ہے۔ نیم کوڑی سے خون کی صفائی کرتا۔ اس وقت امریکا کی مینسینٹو کمپنی نیم سے 66 اقسام کی ادویات بنا رہی ہے۔ جنگل میں آج بھی ایسے درخت کے چھال ہیں جسے جنگلی لوگ پانی میں ڈال کر مچھلی مارتے ہیں اور زہر بناتے ہیں۔
ایسی جڑی بوٹیوں اور کیمیائی اجزا کو صاف شفاف کر کے اس کو مخصوص شکل دے کر آج ہم دوائیاں استعمال کرتے ہیں۔ اب تو میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ دماغ کے علاوہ ہر چیز تبدیل (ٹرانسپلانٹ) ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ پینسلن، چیچک، کونین اور اینٹی بائیوٹک کی ایجاد جدید سائنس کی انقلابی ایجادات ہیں۔ مگر سائنس کی ان انسان پرور دواؤں کو عام انسان کے حصول کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داریاں ہیں۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں حکومتوں کے کارندوں سے ساز باز کر کے اپنی دوائیں انتہائی مہنگے داموں میں فروخت کر کے ایک جانب انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں تو دوسری جانب منافعے کی حرص میں ارب پتی سے کھرب پتی بنتی جا رہی ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان کے ساتھ ہے۔ یہاں تقریباً 350 سے زائد مقامی ادویات کی کمپنیاں ہیں جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف 35 ہیں۔
حکومت نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چھوٹ دے رکھی ہے اور ملکی کمپنیوں پر قدغن لگا رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام کو مہنگی ادویات خریدنی پڑتی ہیں۔ جو دوائی مقامی کمپنی 144 روپے میں فروخت کرتی ہیں وہی دوائی ملٹی نیشنل کمپنیاں 444 روپے میں بیچتی ہیں۔ جب کہ دیسی اور غیر ملکی کمپنیاں ایک ہی قسم کے کیمیکل سے ادویات کی مینو فیکچرنگ کرتی ہیں، فارمولا بھی ایک ہی ہے اور ان کی پیداوار بھی برابر کی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا کوئی ساز باز نہیں کرتیں جو پکڑ میں آئے۔ مثال کے طور پر کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 500 سے ہزار ڈاکٹروں کو بشمول ان کے خاندان سیمینار کے بہانے بیرون ملک دورہ کروایا۔ اب آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ دورہ کرنے والے ڈاکٹرز کس کا نسخہ لکھیں گے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو دوائیاں ہمارے اپنے ملک میں کم ازکم 10 کمپنیاں بناتی ہیں انھیں درآمد کرنے پر اور بنانے پر پابندی ہو۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش ہمارے لیے اچھی مثالیں ہیں۔
یہاں ملکی کمپنیاں جو دوائیاں بناتی ہیں انھیں بیرون ملکوں سے درآمد کرنے پر پابندی عاید ہے۔ وٹامنز اور عام ادویات تو درآمد کرنے کی قطعی اجازت نہیں۔ دوسرے ممالک سے منظور کروانے میں کم ازکم 5 سال لگ جاتے ہیں۔ درآمدی ادویات کی ڈیوٹی 10 فیصد ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ بوتل، ایلو ایلو، خالی کیپسول، پیکنگ، اسٹرپ یعنی ادویات کی ہر قسم کی پیکنگ کی 20 فیصد ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے 17% سیلز ٹیکس لگتا ہے جو ادویات پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہیں ان پر ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح پاکستانی فیکٹریوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اسی طرح درآمدی ادویات بنانے والی کمپنیوں کا بھی ہر پانچ سال میں معائنہ کرانے کی ضرورت ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات کی قیمتیں پاکستانی ادویات کی قیمتوں کے مساوی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے بھی کہ ان کے برانڈ کی ادویات اگر ڈاکٹرز لکھنا بھی چاہیں تو مریضوں کو ان دوائیوں کی خریداری میں زیادہ پیسہ نہ دینا پڑے۔
پاکستان کی برآمد کرنے والی ادویات کی کمپنیوں کو برآمد کرنے کے لیے پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ادویات FDA سے یا یورپ اور جاپان میں لازمی طور پر رجسٹرڈ کروائیں۔ ان کی 19000,ISO اور جی ایم پی سرٹیفکیٹ کو منظور نہیں کیا جاتا جس سے پاکستانی درآمد کنندگان درآمد نہیں کر سکتے ہیں جب کہ چین کا پاکستان کو ادویات برآمد کرنے پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے۔ پاکستانی کمپنیوں کو 2001 سے تقریباً نہ ہونے کے برابر قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی ہے، پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ حکومت ایک ایجنڈا ترتیب دے جو افراط زر سے منسلک ہو ورنہ پاکستانی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے۔ ان بے روزگاریوں کی وجہ سے جرائم میں مزید اضافہ ہو گا جو کہ ہماری معیشت اور مریضوں کی صحت یابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی دونوں کمپنیاں اگر حکومت کی جانب سے منظور شدہ ہیں تو پھر یہ تفریق کیوں؟ پاکستان میں 1132 بچے بھوک سے ہر روز مر رہے ہیں۔
ایک لاکھ میں سے زچگی کے دوران 450 خواتین ریڈ ہیمو گلوبین کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث مر رہی ہیں۔ لاکھوں مریض پاکستانی ادویات کے عدم حصول کی وجہ سے لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اس لیے کہ اسے ادویات کے ذریعے صاف نہیں کر پاتے۔ مہنگی ادویات کے باعث شہروں اور گاؤں دیہاتوں میں اسپرے نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے ملیریا، ڈینگی وائرس، چیچک، ٹی بی، پیلیا اور کھانسی بخار کے امراض عام ہیں۔ ان مسائل کے حل کا واحد راستہ مقامی ادویات کی کمپنیوں کو سہولتیں، رعایتیں دی جائیں اور ان پر عاید قدغن کا خاتمہ کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں پر وہی آئین و قانون لاگو کیا جائے جو مقامی کمپنیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔