زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آداب حکمرانی میں یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ صورتحال کا درست تجزیہ کیا جائے اور بروقت فیصلہ کیا جائے۔
حکمران بعض اوقات ایسی بھولی باتیں کر جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب حکمرانی اس قدر سادہ نہیں رہی ہے جیسی پرانے دور میں تھی۔ اب حکمران کسی معاملے پر فیصلہ کرنے سے قبل اہل الرائے یعنی متعلقہ وزارت کے افسران سے بریفنگ لے کر فیصلہ کرتے ہیں اور یہی لوگ ہوتے ہیں جو صورتحال کی درست کیفیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔
فیصلہ یقیناً وزیر اعظم کو کرنا ہوتا ہے اور اگر حکمران زیادہ ہی سادہ ہوں تو حکومت کے ان کارندوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور اگر بیدار مغز اور جرأت مند ہوں تو سب کچھ جان لینے کے بعد خود فیصلہ کرتے ہیں مگر یہ جان لینے کا عمل ریاست کے مستقل خدمت گاروں کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی متعلقہ حکام آپ کو معاملے کے خوب و ناخوب سے آگاہ کرتے ہیں اور فیصلہ آپ کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں کوالالمپور میں جو کانفرنس منعقد ہوئی ، اس کا مقصد مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام سے نکالنا اور مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ عمران خان صاحب نے اس کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور عین وقت پر اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔
ان کے مخالفین اسے ان کی یو ٹرن لینے کی عادت قرار دیتے اور ایسا کہنے میں خود کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس وقت وزارت خارجہ کے بزرجمہر کہاں تھے اور انھوں نے وزیر اعظم کو کیا رائے دی تھی اورکیا عدم شرکت کے نتائج سے آگاہ نہیں کیا تھا؟ اب عمران خان صاحب خود اسے قبول کرتے ہیں کہ بعض اسلامی برادر ملکوں کا خیال یہ تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے امت میں افتراق پیدا ہوگا مگر یہ مفروضہ تھا اصل بات یہ تھی کہ جن ممالک نے ہمارے کاسۂ گدائی کو اپنی عنایات سے لبریز کردیا تھا ان کا شدید دباؤ تھا کہ پاکستان اس اسلامی کانفرنس میں شرکت نہ کرے اور جیساکہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے زیر کفالت کی ذاتی رائے نہیں ہوا کرتی وہ اپنے سرپرستوں کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہوتے ہیں۔
نہیں معلوم کہ حکمرانوں کو یو ٹرن کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور وہ کوالالمپور جا پہنچے اور وہاں سچی بات بھی کہہ دی کہ بعض برادر ملکوں کا خیال تھا کہ اس قسم کی کانفرنس سے امت میں تقسیم در تقسیم کا عمل وجود میں آئے گا ، مگر ان کی یہ رائے درست نہیں تھی۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں وزارت خارجہ کے افسران، سفیران گرامی قدر اور معاملے کی فہم رکھنے والے اہل فراست کو سمجھانا چاہیے تھا کہ اس کانفرنس سے ایسا کچھ ہونے کی توقع نہیں اور وزیر اعظم کا اس میں شریک ہونا پاکستان کے لیے مفید ہوگا۔
مگر ہوا یہ کہ وزیر اعظم کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے اورکانفرنس کے مقاصد پورے نہ ہوسکے۔ کانفرنس کے مخالف ممالک کو بھی اس عدم شرکت سے کوئی تقویت حاصل نہیں ہوئی ، البتہ طیب اردگان اور مہاتیر محمد جیسے عظیم محبان امت اور رہنمایان قوم شدید صدمے کی حالت میں رہے۔ اب خود عمران خان فرما رہے ہیں کہ ان کا برادر ملکوں کو تاثر درست نہیں تھا اور یہ کہ وہ آیندہ ایسی کانفرنس میں ضرور شرکت کریں گے یہ دوسرا یوٹرن ہوگا اور یہ کہ :
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اب عمران خان کو اس کا مکمل احساس ہو گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی حمایت اسلامی ممالک میں سے جس طرح مہاتیر محمد اور طیب اردگان نے کی ہے کسی دوسرے اسلامی ملک نے نہیں کی۔ ان '' اسلامی '' ممالک کا رویہ مغربی ممالک جیسا رہا کہ وہ اپنے مفادات کے پیش نظر بھارت جیسے بڑے ملک سے جس سے ان کے تجارتی مقاصد وابستہ ہیں ناراضگی مول لے کر پاکستان کی دوستی کا بھرم کیوں بھرتے۔ ان کے یہاں نہ اب کوئی محمد بن قاسم ہوتا ہے نہ محمود غزنوی۔ البتہ تاجروں اور منافع خوروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ہندو ذہن تو ہے ہی ''بنیا'' ذہن ، وہ مالی مفادات کو تمام چیزوں پر مقدم رکھتا ہے۔
جس وقت عمران خان کشمیر کاذکر کر رہے تھے تو بعض '' برادر اسلامی ممالک'' بھارتی وزیر اعظم مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ اعزاز سے نواز رہے تھے۔ اس صورتحال کو ہماری سفارتی ناکامی قرار دینا مشکل کام ہے اس میں بڑا حصہ مفاد پرستانہ حکمرانی کا ہے۔ ہم عجمی لوگ اسلام کے معاملے میں جس طرح جذباتی ہوتے ہیں اور اسلام کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں عربی قوم پرستی اس کو نری جذباتیت خیال کرتی ہے اور اس معاملے میں قطعی غیر جذباتی رویہ رکھتی ہے۔اب خان صاحب نے اگلی کانفرنس میں شرکت کی حامی تو بھر لی ہے مگر ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ خدا جانے وہ کب پھر ''یوٹرن'' لے لیں اور اگر ایسا کوئی یو ٹرن لیا تو وہ پاکستان کی بدقسمتی ہوگی۔
آداب حکمرانی میں یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ صورتحال کا درست تجزیہ کیا جائے اور بروقت فیصلہ کیا جائے۔ بعد از وقت فیصلے بعض اوقات مفید ہونے کے بجائے مضر ہوتے ہیں۔ ہماری تحریر سے خدانخواستہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ ہم امت کو عرب و عجم میں تقسیم کر رہے ہیں اور عجم کو فضیلت دے رہے ہیں۔ ہم عجمی جذباتیت اور عربی تعقل پسندی پر گفتگو کر رہے تھے ورنہ عرب کو ہر طرح عجم پر جو فضیلت حاصل ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گی چاہے وہ کتنے ہی غلط فیصلے کیوں نہ کر لیں۔
اب ہم تو حکمرانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے صورتحال کے درست تجزیے اور اس کے نتیجے میں فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوروکریسی کے جہاں دیدہ افسران سے مناسب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کریں تاکہ انھیں نہ یو ٹرن لینا پڑے نہ اپنے فیصلوں پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔
ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ میں اتحاد ہو، اسے دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے اور یہ کہ کشمیر میں مظالم کی جو داستان دہرائی جا رہی ہے اور جس کی تفصیلات ابھی لوگوں کے علم میں نہیں آ رہی ہیں ان کا تقاضا ہے کہ امت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوکر بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور اسی کی پشت پناہی میں ہندو دہشت گردی کا مقابلے کرے اور بھارت میں اعتدال پسند ہندو عناصر کی حوصلہ افزائی کرے کہ مودی کے فاشزم کے عہد میں ان کی آواز اہل کشمیر اور خود مسلمانان ہند کے لیے بڑی طاقت ہے۔ اس وقت انھوں نے جس حق گوئی کا کردار ادا کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔