چین سے پاکستانیوں کو نہ نکالنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اسلام آباد ہائی کورٹ

شہریوں کو چین سے نہ نکالنے کی وجہ سے کچھ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ

چاہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ فوٹو: فائل

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات سے متعلق درخواست پر سماعت کی، وزارت خارجہ کے ڈی جی چین کی جانب سے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستانی طلبا چین میں محصور ہیں، بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہے ہیں، بنگلا دیش شہریوں کو نکال سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ایسا کرسکتا، ہمارا سوال ہے صرف ہم اپنے شہریوں کو کیوں نہیں نکال رہے۔ جس پر حکومتی نمائندے نے جواب دیا کہ 194 ممالک میں سے صرف 23 ممالک نے شہریوں کو نکالا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جن ممالک نے اپنے شہریوں کو نکالا انہوں نے کیا بندوبست کیا؟ 23 ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں، آسٹریلیا نے چین سے نکالے گئے شہریوں کو کسی جزیرے پر رکھا ہے، آپ گوادر کے پاس رکھ لیں۔


وزارت خارجہ کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ووہان کو چینی حکومت نے لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے، وہاں ایک ہزار پاکستانی شہری ہیں، چینی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانیوں کا خیال رکھا جائے گا۔ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ملک اور طالب علموں کے مفاد میں ہوگا۔

عدالتی استفسار پر وزارت خارجہ کے نمائندے نے کہا کہ چین سے مسافروں کی آمدورفت پر پابندی نہیں، ایئرپورٹس پر اسکریننگ کی جاتی ہے لیکن ووہان سٹی سے کوئی باہر نہیں جاسکتا۔ چین نے کورونا وائرس سے متاثرہ ووہان سٹی کو مکمل لاک ڈاؤن کیا جہاں ایک ہزار پاکستانی موجود ہیں،بنگلا دیش نے اپنے شہریوں کو واپس نکالنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، وزارت خارجہ اس صورتحال کو مانیٹر کررہی ہے، بھارت نے کچھ لوگ نکالے ہیں تاہم 80 فیصد لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں، ہم نے چینی حکومت سے کہا تھا ہمارے سفیر کو ووہان شہر جانے کی اجازت دی جائے، لیکن چینی حکومت کا جواب تھا وہ کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ شہریوں کو نکالا تو کسی ملک سے تعلقات خراب ہو جائیں گے،وہاں پر پھنسے ہمارے شہری ہیں، یہ کوئی وضاحت نہیں کہ شہریوں کو نکالا تو کسی ملک سے تعلقات خراب ہو جائیں گے، کیا ریاست پاکستان بیان حلفی دے گی کہ شہریوں کونہ نکالنے کی وجہ سے کچھ ہواتو کون ذمہ دار ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم یہ نہیں چاہتے وہ وائرس یہاں منتقل ہو، چاہتے ہیں وزارت خارجہ بہترین انداز میں مسئلہ حل کرے، میں اور آپ اس کے ماہر نہیں، عدالت چاہتی ہے پاکستانیوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے، عدالت چاہتی ہے ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ داری لے، چین میں پھنسے پاکستانیوں سے متعلق فیصلہ کرنا وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے،عدالت کسی قسم کا حکم نامہ جاری نہیں کرے گی جو کرنا ہے وہ وزارت خارجہ کو کرنا ہے۔ چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، ہم اس حوالے سے کوئی حکم نہیں دے رہے، آپ دو ہفتوں کا وقت لے لیں۔
Load Next Story