لاہورمیں بن بلائے بھارتی جانوروں کی پرورش اور افزائش

جانوروں اورپرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے اورنہ ہی انہیں بارڈرکراس کرنے کے لئے ویزے کی ضرورت ہوتی ہے


آصف محمود February 11, 2020
بھارت سے جوجانور بارڈرکراس کرکے اوروہاں شکاریوں سے اپنی جان بچاکر ہمارے ملک میں آتے ہیں ان کوہم سینے سے لگالیتے ہیں، محکمہ وائلڈ لائف فوٹوایکسپریس

ISLAMABAD: وائلڈلائف جلوپارک اورلاہورسفاری پارک میں نہ صرف بن بلائے بھارتی مہمان جانور پرورش پارہےہیں بلکہ یہاں ان کی افزائش بھی ہورہی ہے۔

بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کا جینامشکل بنادیاگیا ہے اورشہریت کے متنازع قانون کے بعد وہاں بسنے والے کروڑوں شہریوں کا مستقبل سوالیہ نشان بناہواہے لیکن اسی ہمسایہ ملک سے خوراک کی تلاش اورشکاریوں کے چنگل سے نکل کرپاکستان آنے والے سانبھڑ ہرنوں کو یہاں کے لوگوں نے سینے سے لگاکررکھاہے، لاہورکے وائلڈلائف جلوپارک اورلاہورسفاری پارک میں نہ صرف بن بلائے بھارتی جانور پرورش پارہے بلکہ یہاں ان کی افزائش بھی ہورہی ہے۔



بھارت کے پاکستان سے جڑے سرحدی علاقوں اورمقبوضہ کشمیرمیں سانبھڑہرنوں کی تعدادزیادہ ہونے اوران کے بڑھتے ہوئے شکارکی وجہ سے اکثریہ جانورجان بچانے اوربہترخوراک کی تلاش میں قصور،لاہور اورسیالکوٹ کے علاقے سے بارڈر عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔

وائلڈلائف حکام کے مطابق پاک بھارت مشرقی سرحد سے سانبھڑاورنیل گائےجبکہ رحیم یارخان اوربہاولنگر،منڈی یزمان کے بارڈرسے نیل گائے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں،ان میں اکثرزخمی جانوروں کومقامی لوگ پکڑلیتے ہیں اوران سے متعلق محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کواطلاع مل جائے توپھر انہیں ریسکیوکرکے مختلف چڑیاگھروں اوروائلڈلائف پارکوں میں منتقل کردیاجاتا ہے۔

پنجاب وائلڈلائف حکام کے مطابق اس وقت بارڈرکراس کرکے پاکستان آنے والے سانبھڑہرنوں کی تعداد 18 ہوچکی ہے، ان میں سے 12 ہرن جلوپارک میں موجودہیں جن میں 4 نر اور8 مادہ ہیں جبکہ چندہفتے قبل ان کے یہاں دوبچے بھی پیداہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک جوڑا لاہورسفاری پارک میں موجود ہے۔



لاہورسفاری پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی ایکسپریس کوبتایا کہ ہمارے پاس پنجاب کے مشرقی بارڈرسے زخمی حالت میں ملنے والے جو جانورلائے جاتے ہیں بالخصوص سانبھڑ ان کے لئے ہم نے الگ سے ایک انکلوژربنایا ہے۔ یہاں ان زخمی جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، ان کے زخموں کی مرہم پٹی اوراچھی خوراک دی جاتی ہے جس سے وہ تندرست ہوجاتے ہیں۔

چوہدری شفقت علی کہتے ہیں ان جانوروں کے جسموں پرمسلسل دوڑنے ،جھاڑیوں اورکانٹوں کی وجہ سے زخم ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں جنگلی سوراورکتے کاٹ لیتے ہیں لیکن یہ ان سے جان بچاکرنکل آتے ہیں۔ ان زخمی جانوروں میں سے زیادہ ترکی جان بچالی جاتی ہے لیکن جوزیادہ زخمی ہوتے ہیں یاان کے زخم بہت زیادہ بگڑجاتے ہیں ان کی موت بھی ہوجاتی ہے۔



وائلڈلائف پارک جلوکی ویٹنری آفیسر ڈاکٹرآمنہ فیاض نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں جوزخمی جانورلائے جاتے ہیں پہلے ہم ان کوکچھ عرصہ کے لئے کورنٹائن میں رکھتے ہیں جہاں ان کا مشاہدہ کیاجاتاہے، کیونکہ ہمیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ جانورکسی خطرناک ڈزیزکاشکارنہ ہوں جس کی وجہ سے ہمارے پاس پہلے سے موجودجانوراورپرندے متاثرہوسکتے ہیں۔ عام طورپرایک ماہ تک ایسے جانوروں کوکورنٹائن میں رکھاجاتا ہے اورپھرجب یہ وہاں معمول کے مطابق خوراک کھاناشروع کردیتے ہیں اورخودکواس نئے ماحول کا عادی بنالیتے ہیں توپھرانہیں انکلوژرمیں ان کے دیگرساتھیوں کے ساتھ چھوڑدیاجاتاہے، بہترخوراک ملنے کی وجہ سے ان کی افزائش بھی ہوتی ہے۔



پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر کہتے ہیں کہ پاکستان کا دامن بہت وسیع ہے، ہم توانسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اورپرندوں سے بھی پیارکرنے والی قوم ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت سے جوجانور بارڈرکراس کرکے اوروہاں شکاریوں سے اپنی جان بچاکر ہمارے ملک میں آتے ہیں ان کوہم سینے سے لگالیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جانوروں اورپرندوں کے لئے کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے اورنہ ہی انہیں بارڈرکراس کرنے کے لئے ویزے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے جوجانور انڈیا سے بارڈرکراس کرکے پاکستان آتے ہیں وہ اب پاکستانی شمارہوں گے اورپاکستان کی ملکیت ہوں گے۔ انڈیا ان کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں