مشرقی پاکستان اور پنجاب کا المیہ

جتنے بیرونی حملہ آور برصغیر پر حملہ آور ہوئے انھیں بیشتر مواقعے پر پنجاب میں روکا گیا۔

zb0322-2284142@gmail.com

ملتان سے محفوظ خان شجاعت نے ''مشرقی پاکستان اور پنجاب کا المیہ'' نامی کتاب مجھے ارسال کی۔ اس کتاب میں میجر اسحق کے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کا میں نے مطالعہ کیا جس سے علم میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ میجر اسحق کے جرأت مندانہ خیالات اور نظریات کے بارے میں آگہی ہوئی۔ اتنے عظیم آدمی تھے کہ ان کے انتقال پر کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور انقلابی شعرا فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ نے منظوم نظمیں لکھیں۔ یہ کتاب کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کی جانب سے شایع ہوئی ہے۔

میجر صاحب سے میری ملاقات 1974ء میں وحید مسیح کے گھر ملیر، کراچی میں ہوئی تھی۔ وہ ادیب، شاعر اور مصنف تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ ''مصلی'' پنجابی زبان میں آج بھی گرمکھی حروف تہجی میں امرتسر یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما حسن ناصر کو جنرل ایوب خان کے دور آمریت میں لاہورکے شاہی قلعے میں تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا، ان کا مقدمہ بڑی بہادری، بے باکی اور جرأت مندی سے میجر صاحب نے لڑا۔ ''پنجاب کا المیہ'' کے باب میں میجر اسحق لکھتے ہیں کہ جتنے بیرونی حملہ آور برصغیر پر حملہ آور ہوئے انھیں بیشتر مواقعے پر پنجاب میں روکا گیا۔

سکندر یونانی کو پنجاب سے واپس جانا پڑا۔ ''بھگت سنگھ'' جو کہ انگریز استعمار کے خلاف لڑتے ہوئے تختہ دار پر جا چڑھا، اس کا بھی تعلق فیصل آباد سے تھا، مگر جب بنگال میں عوامی لیگ عام انتخابات میں جیتی تو انھیں اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر دی گئی۔ چونکہ فوج میں زیادہ پنجابی ہیں اس لیے بنگالی اور دنیا بھر کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجابیوں نے بنگال پر فوجی چڑھائی کی جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پنجاب کے محنت کشوں کا بنگال کے محنت کشوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جھگڑے حکمران طبقات کے ہیں۔

''مشرقی پاکستان کا المیہ'' کے باب میں میجر صاحب لکھتے ہیں کہ بنگال کی طبقاتی لڑائی خاص کر کسانوں کی جدوجہد بہت پرانی ہے۔ اسحق نے خود دوسری عالمی جنگ میں کلکتہ سے بنگال کا سفر کیا اور وہاں کی تنگ دستی، مزاج اور تہذیب کا خود جائزہ بھی لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اٹھارہ سو تینتالیس میں حاجی شریعت اللہ نے مسلمان کسانوں کو منظم کیا اور ان میں ایک زبردست تحریک پیدا کی۔ شیخ کرامت علی چالیس سال تک کشتی میں بیٹھ کر آسام کے ناگاؤں سے لے کر خلیج بنگال میں سندربن کے جزیروں تک رشد و ہدایت کا کرم کرتے رہے۔ انھوں نے کشتیوں میں ایک تیرتا ہوا کالج قائم کیا۔ ایک کشتی میں وہ اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے اور دوسری کشتی میں ان کے ساتھی رہتے تھے اور تیسری میں درس و تدریس ہوتا تھا۔

اسی زمانے میں میر ناصر علی عرف تیتو میر نے بنگالی کسانوں کی انگریز کے خلاف بغاوت میں رہنمائی کی جس کے دوران وہ خود بھی شہید ہو گئے۔ میجر صاحب آگے چل کر ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ بنگالیوں کے ووٹ سے ہی پاکستان بنا اور پھر انھیں ہر طرح سے پیچھے دھکیلا گیا۔ 1954ء میں مشرقی پاکستان میں کرشک سرامک پارٹی اور عوامی لیگ کے متحدہ محاذ (جگتو فرنٹ) نے مسلم لیگ کو انتخابات میں ہرا کر وزارت تشکیل دی۔ مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ بنے۔ انھیں بھارت سے دوستی کے الزام میں معزول کر دیا گیا بلکہ گرفتاری بھی عمل میں آئی۔

وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا گیا، اس کے بعد وزیر اعظم محمد علی بوگرہ (راقم خود بھی بوگرہ کا ہے) کو معزول کیا گیا۔ بعدازاں حسین شہید سہروردی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اقتدار پر اسکندر مرزا آ گئے اور پھر انھیں ہٹا کر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ ایوبی آمریت میں شیخ مجیب کو سات بار گرفتار کیا گیا۔ انیس سو باون میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے جو تحریک چلی جس میں برکت، موتیا اور سلام وغیرہ شہید ہوئے۔ انیس سو چون میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ اب تو انیس سو باون کو بنگلہ پر چلنے والی تحریک کی تاریخ اکیس فروری کو عالمی طور پر مادری زبان کا دن منانے کا اقوام متحدہ نے بھی فیصلہ کر لیا ہے۔


انیس سو ستر میں عام انتخابات ہوئے جس میں ایک سو باسٹھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے عوامی لیگ نے ایک سو ساٹھ نشستیں حاصل کی تھیں۔ عوامی لیگ صرف ایک نشست پر ہاری تھی۔ راجہ تری دیو رائے کے مقابلے میں عوامی لیگ نے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ چھبیس مارچ انیس سو اکہتر میں ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان ہوا جب کہ پچیس مارچ شام چار بجے سے فوج کشی شروع ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ جو اجلاس میں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ جب پچیس مارچ سے چھبیس مارچ تک صرف ایک دن میں لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا تو شیخ مجیب نے یہ اعلان کیا کہ اب ہم لاکھوں لاشوں پر کھڑے ہو کر پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔

یہ سانحہ انیس سو باون کی زبان کی تحریک سے شروع ہوا اور انیس سو ستر کے انتخابات پر اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بہت سارے مضمرات اور وجوہات تھیں جیسا کہ بنگال میں تین سو بہتر چائے کے باغات میں صرف تین باغات کے ایگری کلچر افسر بنگالی تھے۔ فوج، نوکر شاہی، سی ایس پی افسران، تجارت، سونے کے ذخیرے یعنی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں مشرق اور مغرب میں شدید خلیج پیدا ہو گئی تھی۔

کاغذ بنگال میں پیدا ہوتا تھا جب کہ مغربی پاکستان میں بارہ آنے دستہ اور مشرقی پاکستان میں ڈیڑھ روپے دستہ، ناریل مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ہی بھاؤ یعنی آٹھ آنے کا جب کہ انگور مغربی پاکستان میں ساڑھے تین روپے کلو اور مشرقی پاکستان میں ساڑھے تین روپے چھٹانک فروخت ہوتا تھا۔ اس لیے عوامی لیگ کا چھ نکاتی مطالبہ وہی تھا جو مقبوضہ کشمیر کے عوام ہندوستان سے مطالبہ کرتے ہیں۔ وہاں پر فوج کشی کے بعد دو اتحاد عمل میں آئے۔

ایک فوج کشی کا حامی جس میں جماعت اسلامی، نظام اسلام، پی ڈی پی، مسلم لیگ وغیرہ جب کہ فوج کشی کے خلاف عوامی لیگ، نیپ کے دونوں دھڑے، عوامی لیگ (آمنہ گروپ) کرشک سرامک لیگ، نیشنل سوشلسٹ پارٹی اور دونوں کمیونسٹ پارٹیوں نے مل کر یونائٹیڈ اسٹرگل کمیٹی تشکیل دی۔ مغربی پاکستان کی دو دائیں بازو کی جماعتوں نے فوج کشی کی مخالفت کی جن میں جمعیت علما پاکستان اور تحریک استقلال شامل ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے گرومندر کراچی میں عوامی لیگی کارکنان کے ہمراہ فوج کشی کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ بیشتر جماعتیں خاموش رہیں۔ کچھ بائیں بازو کی جماعتیں اور افراد بیانوں کی حد تک محدود رہیں۔ انیس سو اکہتر کے جون سے بنگال میں کمیون کی شکل کی محلہ کمیٹیاں، کسان کمیٹیاں، فیکٹریوں میں مزدور کمیٹیاں تشکیل پانے لگی تھیں۔ ان کمیٹیوں میں کمیونسٹ پارٹیوں کے کارکنان، کرشک سرامک لیگ کے کارکنان، نیشنل سوشلسٹ پارٹی مکمل طور پر اور تھوڑے سے عوامی لیگ کے ریڈیکل کارکنان شامل تھے۔ ان کمیٹیوں نے حکومت کے بغیر کاروبار زندگی چلانا شروع کر دیا تھا۔

جس سے عوامی لیگ، ہندوستانی حکومت، امریکا اور کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما خوفزدہ ہو گئے، اس لیے بھارتی فوج نے مداخلت کر کے ان کمیٹیوں کو تہس نہس کیا۔ اگر نہ کر پاتی تو ساتواں امریکی بحری بیڑا موجود تھا۔ ان کمیٹیوں کی تشکیل میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے رہنما میجر جلیل پیش پیش تھے۔

بنگال کے عوام سے زیادتی کے نتیجے میں ہی بنگلہ دیش بنا۔ اب ہمیں اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، مگر ہم نے اب بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی ہمارے ملک کے پسماندہ علاقوں چولستان، تھرپارکر، بلوچستان، وزیرستان اور سابق فاٹا کے علاقوں کے عوام کی محرومیاں دور نہیں کی جا رہی ہیں۔
Load Next Story