امریکانے طالبان سے مذاکرات کےدوران ڈرون حملے نہ کرنیکی یقین دہانی کرادی سرتاج عزیز
پاکستان معاہدے کے تحت امریکا اور نیٹو افواج کے دفاعی سازوسامان کی واپسی کو نہیں روک سکتا،مشیر خارجہ
وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کے دوران بریفنگ دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے حکیم اللہ محسود رابطے میں تھا اور اس سلسلے میں اسے تین نام بھجوائےگئے جب کہ حکومتی وفد بھی ملاقات کرنے والا تھا تاہم حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کی ٹائمنگ بد قسمت رہی۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکومت نے امریکا سے اس بارے میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے سے مذاکرات متاثر ہوئے، مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر موقف تھا کہ حکیم اللہ محسود ان کی ہٹ لسٹ پر تھا انہوں نے حکیم اللہ کو نہیں بلکہ ریڈار پر نظر آنے والے ہدف کو نشانہ بنایا تھا تاہم اب امریکی حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکا ڈرون حملے نہیں کرے گا۔
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ 2014 میں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد لڑائی ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے کیونکہ افغانستان میں لڑائی ہوئی تو وہاں معاشی بحران شدید ہوجائے گا اور مہاجرین کا ریلا پاکستان آئے گا جس کا بوجھ ہم نہیں اٹھاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان مجوزہ سرحدی معائدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور حکومت نے اس ضمن میں غیر ملکی جارحیت اور مشاورت جیسے الفاظ کی وضاحت بھی مانگی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جارحیت کیسی ہوگی کون کرے گا اور کس سے مشاورت کی جائے گی اس کی وضاحت کی جائے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نیٹو افواج کی سپلائی کے لئے جانے والے فی ٹرک کے ڈھائی سو ڈالر بھی نہیں مل رہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے راستے نیٹو کی سپلائی کے لیے فی ٹرک 1100 سے 1200 امریکی ڈالر لگانے کی تجویز دی گئی تھی جو قابل عمل نہیں ہے،پاکستان معاہدے کے تحت امریکا اور نیٹو افواج کے دفاعی سازوسامان کی واپسی کو نہیں روک سکتا۔
۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کے دوران بریفنگ دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے حکیم اللہ محسود رابطے میں تھا اور اس سلسلے میں اسے تین نام بھجوائےگئے جب کہ حکومتی وفد بھی ملاقات کرنے والا تھا تاہم حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کی ٹائمنگ بد قسمت رہی۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکومت نے امریکا سے اس بارے میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے سے مذاکرات متاثر ہوئے، مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر موقف تھا کہ حکیم اللہ محسود ان کی ہٹ لسٹ پر تھا انہوں نے حکیم اللہ کو نہیں بلکہ ریڈار پر نظر آنے والے ہدف کو نشانہ بنایا تھا تاہم اب امریکی حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکا ڈرون حملے نہیں کرے گا۔
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ 2014 میں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد لڑائی ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے کیونکہ افغانستان میں لڑائی ہوئی تو وہاں معاشی بحران شدید ہوجائے گا اور مہاجرین کا ریلا پاکستان آئے گا جس کا بوجھ ہم نہیں اٹھاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان مجوزہ سرحدی معائدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور حکومت نے اس ضمن میں غیر ملکی جارحیت اور مشاورت جیسے الفاظ کی وضاحت بھی مانگی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جارحیت کیسی ہوگی کون کرے گا اور کس سے مشاورت کی جائے گی اس کی وضاحت کی جائے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نیٹو افواج کی سپلائی کے لئے جانے والے فی ٹرک کے ڈھائی سو ڈالر بھی نہیں مل رہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے راستے نیٹو کی سپلائی کے لیے فی ٹرک 1100 سے 1200 امریکی ڈالر لگانے کی تجویز دی گئی تھی جو قابل عمل نہیں ہے،پاکستان معاہدے کے تحت امریکا اور نیٹو افواج کے دفاعی سازوسامان کی واپسی کو نہیں روک سکتا۔
۔