ترکی کے صدر رجب طیب اردوان دوسرا اور آخری حصہ

رجب طیب نے امریکا کو بتا دیا کہ ہم تمہارے ’’باپ‘‘ کے نوکر نہیں۔


ایم قادر خان February 13, 2020

2003میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو اس سے پہلے عبداللہ گل نے مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا کر قانون میں تبدیلی کر لی۔ رجب طیب اردوان پر لگی پابندی ہٹا دی گئی۔ رجب طیب نے 2003 کے انتخابات میں 84 فیصد شرح سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوبارہ اسمبلی میں شمولیت کر لی۔ نائب عبداللہ گل نے وزارت سے استعفیٰ دیدیا اور رجب طیب ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔

2007 جب رجب طیب صدارتی انتخابات کے لیے نامزد ہوئے تو ملک میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے۔ رجب طیب نے صدارتی عہدہ عبداللہ گل کے حوالے کر دیا۔ امسال ہونیوالے قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ان کی پارٹی 46 فیصد شرح سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی۔ 2011 میں ان کی پارٹی 327 کی نشستوں کی جیت اور 50 فیصد کی شرح سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی۔ رجب طیب کو متواتر تیسری مرتبہ ترکی کے وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے۔

28 اگست 2014 کو رجب طیب ترکی کے بارہویں صدر منتخب ہوئے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے ووٹ سے ایک صدر کا انتخاب ہوا۔ 2019 میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اس بار پھر سے ان کی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب ترکی کے اگلے انتخاب صدر 2023 میں ہونگے۔ آئینی مدت 4 سے 5سال ہو چکی ہے۔

ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ 2023 کے بعد ترکی پہلے جیسا ترکی نہیں رہے گا۔23 جولائی 2023 کو معاہدہ ''لوزان'' ختم ہو رہا ہے اس کے بعد ترکی قبرص کے مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریگا۔ اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کے لیے اپنی جان لگائیگا۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان دوبارہ سے ملک میں واپس آ سکیں گے، بحیرہ فارس سے گزرنیوالے بحری بیڑوں سے ترکی ٹیکس وصول کیا کریگا۔ ترکی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا حکمران دیا ہے جو صرف ٹیلی ویژن نشریات تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا۔

ساری دنیا نے دیکھ لیا رجب طیب جو کہتا ہے وہ کر کے بھی دکھاتا ہے۔ اس نے برما میں ہونیوالے مظالم کے خلاف سب سے پہلے نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ وہاں امداد بھی بھیجی۔ رجب طیب نے شام کے حل کے سلسلے میں نہ صرف اپنی فوج بھیجی بلکہ امداد بھی دی۔ مسئلہ فلسطین کی آواز، مسئلہ مقبوضہ کشمیر کی آواز عالمی سطح پر بلند کی۔2018 میں جب امریکا نے یروشلم شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو رجب طیب نے برجستہ اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ ''یروشلم مسلمانوں کا استنبول ہے، یروشلم مسلمانوں کا مکہ ہے، یروشلم مسلمانوں کا اسلام آباد اور جکارتہ ہے۔'' اگر مسلمانوں کا حال یہی رہا تو کل مکہ اور مدینہ تک ان یہودیوں، عیسائیوں کے قبضے میں چلے جائینگے۔

عالمی سطح پر رجب طیب مختلف ممالک سے بیشمار میڈل اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 میں جب غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا تو رجب طیب نے ورلڈ اکنامکس فورم پر اسرائیل کے صدر کو معصوم بچوں اور خواتین کے قاتل اور قابض کہہ کر پکارا اور اس ملاقات کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے اس کارنامے کو صرف ترکی ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں انکا سر فخر سے بلند کر دیا۔

جب وہ واپس اپنے وطن پہنچے تو ترک عوام نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔15 جولائی 2016 میں جب امریکی نواز فوج نے ترکی پر قبضہ کر لیا اتفاق سے میں ایک روز اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ترکی پہنچا دوسرے دن یہ معاملہ ہوا، میں نے اپنی آنکھوں سے عوام کا جم غفیر دیکھا۔ رجب طیب نے ایک ٹیلی ویژن پر اپنا پیغام چھوڑا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترکی کی غیور وطن پرست عوام سڑکوں پر آ گئے۔ یہ حقیقت ہے پوری دنیا نے یہ منظر بذریعہ ٹیلی ویژن دیکھا جب ایک طرف فوج تھی اور دوسری طرف پولیس اور ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر لیے ترکی کی معصوم بہادر عوام جو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے یہ منظر میں نے دیکھا اور چند گھنٹوں کے اندر فوج سے قبضہ واپس لے لیا گیا۔ اس بغاوت میں سیکڑوں فوجیوں کو پولیس نے گرفتار کیا ان سب کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اس بغاوت کو انجام دینے والے امریکن سی آئی اے کا ایجنٹ جو ترکی میں رہائش پذیر تھا اسے سزائے موت سنا دی گئی۔

امریکا نے اپنے اس ایجنٹ کو چھڑوانے کے لیے ترکی کے اسٹیل اور دیگر اشیا پر مزید ٹیکس لگا دیا۔ ترکی کی معیشت کمزور ہونے لگی لیکن اس بار بھی ترکی کے غیور عوام نے ملک کا ساتھ دیا۔ ڈالر فروخت کر کے ملک کی کرنسی خریدی امریکا سے آنے والے دسیوں اقسام کے پھل و دیگر ساز و سامان پر ترکی نے پابندی لگا دی۔ اس موقع پر ترکی کا قطر نے بڑا ساتھ دیا جس سے ترکی کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا ملا اور ترکی اپنے پیروں پر دوبارہ سے کھڑا ہو گیا۔ چند ماہ قبل ترکی نے روس سے ایئر ڈیفنس ڈیل کی تو امریکا نے ترکی کو دھمکیاں دیں مگر مرد مجاہد رجب طیب نے اس بار بھی اپنی بات پر قائم رہنے کا حتمی فیصلہ کیا۔

رجب طیب نے امریکا کو بتا دیا کہ ہم تمہارے ''باپ'' کے نوکر نہیں۔جب سے صدر رجب طیب برسر اقتدار ہوئے ملک وہ پہلے والا ترکی نہیں رہا۔ رجب طیب اپنی قوم کے آگے سرخرو ہوئے ہیں عوام انھیں محبت، چاہت ، الفت سے نوازتی ہے۔ یہ روز و شب اپنے ملک و قوم کی ترقی کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کا اسلام سے والہانہ لگاؤ ہے۔ رجب طیب نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا 30.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ صفر کر کے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کر دی۔

ملکی تعلیمی نظام کو اسلامی بنانے کے لیے اصلاحات کیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن اسکولوں میں طلبا کی تعداد 65 ہزار تھی وہ 8 لاکھ سے زیادہ تجاوز کر گئی۔ ملک کی جامعات کی تعداد 98 سے بڑھ کر 190 کردیں۔ 12 سال سے قبل قرآن پڑھنے پر پابندی ختم کی اور تمام اسکولوں میں قرآن و دین کی تعلیم لازمی قرار پائی۔ صرف ایک سال میں 17000 نئی مساجد کی تعمیر اور پرانی مساجد کھول دی گئیں ان کی مرمت ہوئی۔ ترکش قوم کے لیے سبز کارڈ کا اجرا کیا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں مفت علاج کی سہولت حاصل ہو گئی۔ خواتین کے لیے پردے کے ساتھ ڈیوٹی کی اجازت دے دی گئی، ایک خاتون جج نے 2015میں اسکارف پہن کر مقدمہ سنا تو اہل یورپ کے لیے یہ بریکنگ نیوز بن گئی۔2002 میں ترکی کے زرمبادلہ کے ذخائر 26.5 بلین ڈالر تھے جو 2014 میں 150 بلین ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔

موجودہ زرمبادلہ پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ترکی میں صرف 12 سال میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26سے بڑھ کر 50 ہو گئی۔ ترکی کی صرف سیاحت سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ گزشتہ دس سال میں 2002 سے 2011 ، 13500 کلو میٹر طویل راستے پر تیز رفتار ریل چلنے لگی۔ سیکڑوں کلومیٹر کی مرمت ہوئی۔ تعلیمی بجٹ 17.50 سے بڑھ کر 34 لیرا ہو گیا ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کی اور بلوں میں نمایاں کمی کی اور بھی بہت اصلاحات کی گئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں