ورودِ مسعود
وہ سمجھتے تھے کہ اردو کے زوال کی ذمے داری بہت کچھ غیروں پر ہے لیکن تھوڑی بہت اردو بولنے والوں پر بھی ہے۔
'' ورودِ مسعود '' مسعود حسین خان کی آپ بیتی ہے خود نوشت۔ مسعود حسین خان کا تعلق انڈین صوبے یوپی میں ضلع قائم گنج میں آباد آفریدی پٹھانوں کے اس خاندان سے تھا جس کے ایک رکن ہندوستان کے صدر ، ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ یہ مسعود کے باپ کے بڑے بھائی تھے۔ ان کے ایک چچا محمود حسین خاں بھی تھے جو کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔
مسعود حسین خاں خود بھی ایک ممتاز شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اردو کے ممتاز ادیب، انشا پرداز، محقق اور ماہر لسانیات تھے۔ وہ شاعر بھی تھے لیکن بنیادی طور پر وہ ایک استاد تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر رہے اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں بھی اردوکے پروفیسر اور صدر شعبہ کے فرائض انجام دیے۔ انجمن ترقی اردو کے جنرل سیکریٹری رہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے وائس چانسلرکے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انھوں نے مختلف حیثیتوں سے بیرونی ممالک کے دورے بھی کیے۔
جس خاندانی ماحول میں مسعود حسین کی تربیت ہوئی، اس کا ذکرکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں '' اپنے مسلمان ہونے پر فخر رہا لیکن اسلامی شعائرکی پابندی کو غیر ضروری جانا، جنسی آزاد خیالی کی بنیاد بھی اسی ماحول میں پڑی۔ جنس کی جانب سے خیالات میں آزاد رہا لیکن عملی طور پر جھونپو ہونے کی وجہ سے مس و مساس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بچپن میں خرگوش کے شکار اور پتنگ بازی کا شوق رہا۔ گولیاں اور تاش کھیلے، شطرنج بھی کھیلی لیکن کسی کھیل میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ ہاں قوتِ شامہ اور حس سامعہ میں بچپن سے تیز رہا۔ پھولوں کی خوشبو اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میرے سرور کا باعث رہی۔''
مسعود حسین خاں کی تعلیم کا آغاز جامعہ ملیہ سے ہوا جب ڈاکٹر صاحب جرمنی سے آکر جامعہ کے وائس چانسلر ہوئے۔ لکھتے ہیں کہ جامعہ کے اسکول میں چھ سال قیام نے میری کایا پلٹ دی۔ یہیں اردو زبان اور ادب کا چسکا پڑا اور یہیں حالی اور اقبال کی عظمت سے بھی آشنا ہوا۔ انھی دنوں میں نے پہلا شعر بھی کہا۔ جامعہ کے بعد ڈھاکہ میں چار سال گزارے پھر دہلی کالج سے بی اے کرکے ایم اے کرنے علی گڑھ چلا گیا۔
مسعود حسین خان نے اپنی خود نوشت میں اپنے چچاؤں کا تعارف یوں کرایا ہے کہ ذاکر حسین خاں بنیادی طور پر جمالیات، اخلاقیات اور شعرکے آدمی تھے۔ ان کی زندگی میں نظم وضبط کی بہت کمی تھی۔ حس ظرافت ایسی تھی کہ وہ ہر قسم کی نامعقولیت کو اپنے لیے گوارا بنا لیتے تھے۔ محمود حسین خاں چھوٹے چچا تھے۔ وہ بڑے باغ و بہار آدمی تھے۔ ان کا قہقہہ مشہور ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ قہقہہ کب قہر وغضب میں تبدیل ہو جائے گا۔ محمود خاں سے بڑے مسعود خاں کے چچا ، یوسف حسین خاں تھے۔ وہ صحیح معنوں میں اہل قلم تھے۔ علامہ اقبال کے فکر و فن پر ان کی کتاب ''روح اقبال'' قابل ذکر ہے، لیکن ان کے جمال پر ان کا جلال حاوی تھا۔مسعود حسین خاں نے علی گڑھ جاکر ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ رشید احمد صدیقی شعبہ اردو کے سربراہ تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس زمانے میں سخن فہمی اور سخن وری کے لیے علی گڑھ سے بہتر کوئی محفل نہ تھی۔ اختر انصاری، مجازؔ، سردار جعفری، جذبیؔ، جانثار اخترؔ، رازؔ مراد آبادی، اخترؔ الایمان، شکیلؔؔ بدایونی، مسعود علی ذوقی بزم پر چھائے ہوئے تھے۔ مسعود حسین خان کا ربط و ضبط زیادہ اختر انصاری اور جذبیؔ سے رہا۔ ایک '' نرگسیت '' کا شکار تھا اور دوسرا ''خود رحمی'' کا۔ وہ لکھتے ہیں '' میں علی گڑھ کے اس ادبی ماحول کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن مارچ 1941 میں ایم اے کا امتحان دینے کے بعد زندگی کی نئی جولا گاہوں کی تلاش میں نکلنا ضروری ہو گیا تھا۔
دو سال کے بعد رومانوں کے اس شہر طرب اور دیوانوں کے اس دشت جنوں کو مراجعت مقدر ہو چکی تھی البتہ اس عرصے میں پہلے غم دوراں اور غم جاناں کی گزر گاہوں سے گزرنا بھی لازم تھا۔''1941 کی گرمیوں کی چھٹیوں میں پہلی بار مسعود حسین خاں کو نجمہ سے قربت کا احساس ہوا۔ یہ ان کے ماموں کی بیٹی تھی۔ لکھتے ہیں ''اس وقت وہ گیارہ بارہ برس کی تھی۔ کچھ تو اس کا الہڑپن اور کچھ اس کی لڑکوں جیسی شرارتیں بھانے لگیں۔ میں اس سے عمر میں بہت بڑا تھا یعنی ایم اے کر چکا تھا۔ پھر ایک شام جو مبہم تھا، وہ واضح ہو گیا، جو جذبہ سویا ہوا تھا وہ بیدار ہو گیا۔''
انھی دنوں میں مسعود خان کو آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی اور وہ دہلی چلے گئے مگر چھ مہینے ہی میں انھیں یہ احساس ہو گیا کہ وہ غلط جگہ پھنس گئے ہیں چنانچہ استعفیٰ دے کر سیدھے علی گڑھ پہنچے اور شعبہ اردو میں جونیئر لیکچرارکی جگہ رشید صاحب کی سفارش پر انھیں مل گئی۔ اس کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے ''اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا'' پر ریسرچ شروع کر دی۔ دو سال کی شب و روز کی محنت کے بعد اپنا مقالہ پیش کر دیا اور انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی۔ یہ 1945 کا سال تھا۔
مسعود حسین خاں نے تحقیق کے دوران کی علمی ریاضت کی شدت اور رفتارکو قابو میں رکھنے کے لیے کیا تدبیر اختیارکی اس کا تذکرہ وہ یوں کرتے ہیں کہ ''میز پر کام کرنے کی کسل مندی میں طویل ٹہل سے دور کیا کرتا تھا اور ذہنی تھکن کو شعر وشاعری کے مشغلے سے۔ میری باقاعدہ شعرگوئی کا آغاز اسی زمانے سے ہوا۔ اسی زمانے میں ، میں نے ایک سیاہ برقعہ والی کی پرچھائیں بن کر اس کا فاصلے سے کئی برس تعاقب کیا۔ مجھے اس کی شکل کی رمق تک نہ دکھائی دی۔'' دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدلتے گئے۔ فروری 1948 میں مسعود حسین خاں کی شادی بنت عم نجمہ سے ہوگئی۔ علی گڑھ میں انھوں نے یونیورسٹی کا ایک کوارٹر الاٹ کرا لیا تھا۔ نجمہ یہاں آگئیں اور ان کی متاہلانہ زندگی کی آسودگی کا آغاز ہوا۔
1948 سے 1962 تک وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ رہے، اسی دوران بغرض تعلیم وہ لندن اور پیرس بھی گئے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد انھوں نے ایک کام یہ کر ڈالا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کیمپس میں مکان بنا ڈالا۔ پاکستان بن چکا تھا۔ علی گڑھ سے ہجرت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لیے زمین کی قیمتیں گر گئی تھیں اس سے فائدہ اٹھاکر مسعود خاں نے دو بیگھ خرید لی تھی، وہ کام آگئی۔علی گڑھ سے مسعود حسین خان چھ سال کے لیے حیدرآباد عثمانیہ یونیورسٹی چلے گئے۔ ان کے لیے یہ ان کی عملی زندگی کا ایک یادگار زمانہ تھا۔ یہاں سے وہ پھر علی گڑھ آگئے اور یونیورسٹی میں ایک نئے شعبہ لسانیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اردو کو انھوں نے پیشے کے طور پر اختیار کیا تھا، وہ ان کا مقدر بنتی گئی۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہر ہر قدم پر اردو کے ساتھ جو نا انصافی کی جا رہی تھی اس نے مسعود حسین خاں کو آزردہ کر دیا تھا۔
وہ سمجھتے تھے کہ اردو کے زوال کی ذمے داری بہت کچھ غیروں پر ہے لیکن تھوڑی بہت اردو بولنے والوں پر بھی ہے۔1973 میں مسعود حسین خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ یہ ان کے لیے ایک بڑا واقعہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''جامعہ ملیہ مدرسہ ثانوی کا طالب علم جب چالیس سال کے وقفے کے بعد اس کے سربراہ کی حیثیت سے وہاں پہنچا تو اس کے کچھ عجیب طرح کے ملے جلے جذبات تھے۔ کچھ اس وجہ سے اور بھی کہ جس کرسی پر وہ بیٹھ رہا ہے اس پر اس کے چچا، ڈاکٹر ذاکر حسین براجمان رہ چکے تھے۔''
مسعود حسین خاں کی خودنوشت '' ورودِ مسعود '' جو راشد اشرف کی مرتب کردہ زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع ہوئی ہے، ''شادم از زندگی خویش'' کے عنوان پر ختم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''جب میں اپنی گزری ہوئی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک خاص قسم کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ میں خود کو دوسروں کی اور اپنی نظر میں باوقار پاتا ہوں۔''