بلدیاتی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مستحسن ہے

ایکسپریس فورم میں قانونی ، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا اظہار خیال


Shehzad Amjad November 20, 2013
ایکسپریس فورم میں قانونی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قراردیا جاتا ہے کہ یہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ہمارے نوجوان سیاستدان قانون سازا داروں (اسمبلیوں اور پارلیمنٹ) تک رسائی حاصل کرتے اور نمائندہ حکومت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان میں سیاست ابھی تک شخصی اور جماعتی مفادات سے باہر نہیں آسکی۔ سیاستدان ذاتی مفادات کے اسیر ہیں اور سیاسی جماعتیں کوئی ادارہ بننے کے بجائے اپنی بھاری بھرکم سیاسی شخصیات کے مدار کے گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے سیاستدان آمریت کے خلاف تو زبان طعن دراز کرتے نہیں تھکتے اور جمہوریت کی تعریف وتوصیف کو ہمہ وقت ورد زبان بنائے رکھتے ہیں لیکن عملاً وہ دوغلے کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

تنگ نظری اور آمرانہ سوچ ان کی گھْٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ آئین و قانون کی رو سے ہر پانچ سال کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ضروری ہے لیکن ہمارے سیاستدان خصوصاً برسر اقتدار سیاسی جماعتیں جب تک کامیابی کا یقین حاصل نہیں کرلیتیں انتخابات کا ڈول نہیں ڈالتیں اور کسی نہ کسی بہانے سے انہیں مؤخر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں جبکہ آمرانہ دور میں بلدیاتی انتخابات جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوتے رہے ہیں ۔ سابق ادوار میں سول حکومتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کو بلاجواز ملتوی کیا جاتا رہا ہے تاآنکہ عدالت عظمیٰ کو اس کانوٹس لینا پڑا اور یوں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی کوئی سبیل پیدا ہو سکی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمشن ، صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے پیش کی جانے والی درخواستوں اور اپیلوں کو زیر غور لانے کے بعد انتخابی تاریخوں کا تعین کر دیا جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے اطمینان کاسانس لیا ہے تاہم سرکاری سطح پر حکومتی اقدامات اور بعض حکام کے غیر جمہوری رویوں کے پیش نظر کچھ سیاسی حلقے ابھی بھی تذبذب کاشکار اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک وشبہات اور تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں ۔ روزنامہ ''ایکسپریس ''نے اس صورت حال کے پیش نظر ''سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد '' کے موضوع پر فورم کااہتمام کیا جس میں معروف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، ماہرین قانون اور حکومتی و سول سوسائٹی کے نمائندگان نے شرکت کی اور اپنی جماعت کے نقطہ نظر کا اظہار کیا ۔ ان کی گفتگو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔

خلیل طاہر سندھو (صوبائی وزیر اقلیتی امور اور ہیومن رائٹس)

حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہے اور اس کے لیے زور وشور سے تیاریاں کی جا رہی ہیں تاہم یکدم بہت سی چیزیں تبدیل ہوگئیں اورسپریم کورٹ کا حکم بھی آگیا۔ تحریک انصاف اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئندکہہ رہی ہے جس کے فیصلے کے بارے میں پہلے اس کے خیالات کچھ اور تھے جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم جاری کردیا جس سے مسائل پیدا ہوئے اور فارم بھی تبدیل کرنے پڑے۔ پرانے فارمز پر الیکشن نہیں ہوسکتے کیونکہ اس میں سیاسی جماعت کا خانہ ہی نہیں رکھا گیا تھا۔



وفاقی حکومت بلدیاتی اداروں کو فنڈزدے گی اوریہ کیسے ممکن ہے کہ وہ فنڈز فراہم نہ کرے۔ الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی بھی قرارداد پاس کر چکی ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اگر موجودہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے گی تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے اب تو جو کام کرے گا وہی جماعت کامیاب ہوگی کیونکہ گلوبل دور ہے اور میڈیا میں پل پل کی خبریں آجاتی ہیں اور کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اپنے صوبوں میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے کیا اقدامات کیے ہیں یہ سب کو پتہ ہے۔ بلدیاتی اداروں میں خواتین سمیت نوجوانوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے، پنجاب اسمبلی میں خواتین کی نشستوں پر اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی مخصوص نشستوں کے علاوہ بھی تین نشستیں اقلیتوں کو دی گئی ہیں۔

الیکشن کروائیں گے تاہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ ملک بھر میں ایک ہی روز بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں تاکہ ملک بھرمیں ایک ہی وقت میں نظام بن سکے۔ بلدیاتی انتخابات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہی تھی لیکن یکدم بہت سی چیزیں تبدیل ہونے سے معاملات خراب ہوئے اور الیکشن میں تاخیر کی صورت پیدا ہوئی تاہم حکومت اس بارے میں حتمی فیصلہ کرچکی ہے کہ الیکشن ہر صورت میں ہوں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسا ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ نہیں بلکہ انصاف فراہم کیا گیا ہے۔

میاں محمود الرشید (قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی)

سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرکے آگے لے جانے کا جو اعلان کیا ہے اس میں گرچہ تاخیر ہوگئی لیکن پھر بھی وہ بہت ہی مستحسن ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے پہلے دیئے گئے فیصلے پر اصرار کرتی تو اداروں میں ٹکراؤ ہوسکتا تھا۔ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے مفاہمت پائی جاتی تھی اور قرارداد پاس کی گئی تھی انتخابات کیلئے حالات مناسب نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی معروضات پیش کرچکا تھا کہ دیئے گئے وقت میں شفاف انتخابات نہیں کرائے جا سکیں گے مگر عدالت نے شیڈول دے دیا تھا، اب عدالت نے حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا ہے اور صوبوں کو ذمہ داری دے دی ہے اور مخصوص وقت نہیں دیا بلکہ یہ کہا ہے کہ الیکشن کمیشن صوبوں کے ساتھ مل کر شیڈول طے کرے۔



اب موقع ہے کہ الیکشن کمیشن چاروں صوبوں میں ایک ہی وقت میں بلدیاتی انتخابات کرائے اس سے قومی ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ اسمبلی میں پیش ہونے کے وقت سے ہم کہہ رہے تھے کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پرہونے چاہیئں کیونکہ سیاسی جماعتیں اداروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی مستحسن ہے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں ذات برادری اور ذاتی تعلقات کی بناء پر ووٹوں کی جو لوٹ سیل لگتی تھی جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہونے سے یہ ختم ہوجائے گی۔ اب منتخب نمائندوں کو اپنی پارٹی کے ساتھ رہنا پڑے گا جبکہ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہونے سے حکومت حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے انہیں عہدوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کے لئے دباؤ ڈال سکتی تھی۔ اگر تاریخ کو دیکھیں یا دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کے کردار کا مطالعہ کریں تو بلدیاتی نمائندوں کا کردار ایڈمنسٹریٹو ذمہ داریاں نبھانے کا ہوتا ہے اور پوری دنیا میں عوام کے مقامی مسائل بلدیاتی نمائندے حل کرتے ہیں۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کا کام آئین سازی ہے ان کے پاس ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز نہیں ہونے چاہئیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ٹیوب ویلوں کے فیتے کاٹتے پھریں یا سولنگ، نالیاں بنواتے پھریں۔

ایسا کرنے سے وہ فنڈ کے چکروں میں ہی پڑے رہتے ہیں، انہیں آئین سازی کاموقع ہی نہیں ملتا۔ بلدیاتی بل پر بنائی گئی کمیٹی کے ساتھ میٹنگز میں ہم نے انہیں مختلف تجاویز دیں جن میں سے ہماری کچھ تجاویز مان لی گئیں مگر زیادہ تر نہیں مانی گئیں۔ ہمارا شروع سے ہی مؤقف تھا کہ بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنایا جائے اور انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں مگر مسلم لیگ(ن) کو چونکہ اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی جس کی وجہ سے بل پاس ہوگیا۔

صحت اور تعلیم جو بنیادی ضرورتیں ہیں انہیں بھی بل میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے انتظام سے نکال دیا گیا، پنجاب کی حدتک اس ایکٹ کے تحت تمام بلدیاتی عہدے صرف نمائشی ہوں گے ان کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہوں گے، تمام اختیارات پنجاب لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس ہوں گے جس میں سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری خزانہ سمیت 7ممبر ہوں گے اور ان میں کوئی منتخب نمائندہ نہیں ہوگا۔ اس کمیشن کا سربراہ وزیراعلیٰ ہوگا۔ کمیشن کو اختیار ہوگا کہ کسی بھی نمائندے سے وضاحت طلب کرسکے گا، کسی کے فنڈ روک سکے گا اور کسی کو معطل بھی کرسکے گا۔

اس کمیشن کی موجودگی میں منتخب نمائندوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وہ عوام کی خدمت نہیں کرسکیں گے۔ حلقہ بندیاں کرتے وقت اپنے متوقع امیدواروں کو سامنے رکھا گیا حقیقی حلقہ بندیوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا، حلقہ بندیوں میں گلی کی ایک طرف کسی حلقے میں تو دوسری طرف کسی اور حلقے میں، کئی جگہ ایک گاؤں دریا، نہر یا پٹڑی کے ایک طرف تو دوسرا دوسری طرف ہے۔ کسی یونین کونسل میں اس چیز کا خیال نہیں رکھا گیا۔ موجودہ حکومت کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے تھا مگر انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہم نے ان حلقہ بندیوں کو تسلیم نہیں کیا انہیں بدلنے کی ضرورت ہے۔

محمد بشارت راجہ (سابق وزیر قانون و بلدیات پنجاب، سینئر نائب صدر مسلم لیگ (ق) پنجاب)

بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے امید ہے کہ الیکشن ہو جائیں گے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت الیکشن کروانا ہی نہیں چاہتی۔ ماضی میں بھی ان کی روایت رہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن نہ کروائے جائیں۔ الیکشن کے حوالے سے پیچیدگیوں کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے بلدیاتی انتخابات کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ اگر سارے حالات کو دیکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی کیونکہ ابھی تک حکومت نے الیکشن کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز ہی جاری نہیں کیے جس سے حکومت کی الیکشن کے حوالے سے غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔



اگر الیکشن کمیشن کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوں گے تو وہ الیکشن کیسے کروائیں گے کیونکہ حکومت کی نیت ہی نہیں ہے کہ وہ الیکشن کروائے اور یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں پر کروانے سے کیوں انحراف کر رہی ہے حالانکہ موجودہ حکومت ایک سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ ایسے اقدامات کر کے عوام کو الیکشن لڑنے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک کئی علاقوں کی حلقہ بندیاں ہی مکمل نہیں ہوئی ہیں اور جان بوجھ کر نامزدگی فارم جمع کروانے کے لیے مسائل پیدا کیے گئے ہیں جیسا کہ ایک ضلع کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے دوسرے ضلع کا ریٹرننگ افسر تعینات کیا جاتا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے 150 ارب روپے سے زائد کے فنڈز اپنی مرضی سے خرچ کیے جاسکیں۔

الیکشن کے حوالے سے وزیر بلدیات کا بیان کہ الیکشن نہیں ہوں گے سمجھ نہیں آرہا، حالانکہ یہ واضح اشارہ ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ موجودہ حکومت کے لیے بہت سی مشکلات ہیں کیونکہ یہ اقتدار کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت گزشتہ کئی سالوں سے الیکشن التواء کر رہی ہے اور اب بھی یہی امکان ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہو رہی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل وزیر بلدیات بیان دے رہے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوسکتے جو کہ غیر قانونی ہے اور اس سے حکومت کی نیت بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔

نوید چودھری (سابق صدر آصف زرداری کے کوآرڈینیٹر برائے پنجاب)

بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے دیر آید درست آید، لوگوں کی یہ خواہش بھی تھی جبکہ لوگ ڈر رہے تھے کہ گیارہ مئی والے واقعات دوبارہ نہ دھرائے جائیں کہ موجودہ ہونے والے ان الیکشن کا حال بھی اسی طرح نہ ہو کہ فساد برپا ہوجائے۔ اب جو ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہے دیکھتے ہیں وہ اس ذمہ داری کو کیسے بہتر طریقے سے نبھاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایسا نہ کرے کہ جیسے جنرل الیکشن میں ہوا ہے اور لوگ آج تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ الیکشن میں ہوا کیا ہے کیونکہ لوگوں کو جن نتائج کا یقین تھا نتائج اس کے برعکس آئے اور لوگوں کو مایوسی ہوئی، لہذا موجودہ الیکشن صاف شفاف ہونے چاہیئں تاکہ عوام کے ووٹ کے تقدس کو نقصان نہ پہنچے اور نتائج آنے پرلوگوں کو یقین ہوسکے کہ انہوں نے جس جذبے کے تحت ووٹ ڈالے اسی کے مطابق ہی نتائج سامنے آئے ہیں۔



موجودہ حکومت نے اگر لوکل گورنمنٹ میں دلچپسی لی ہوتی تو موجودہ الیکشن میں ترمیم کرتے، جو کمیٹی بنائی گی تھی اس کمیٹی کی سفارشات اس میں شامل نہیں کی گئیں کیونکہ اس کمیٹی کے سیکرٹری کو ہی سفارشات کو چیک کرنے کیلئے کہا گیا تھا۔ 1997ء میں جو چیزیں تھیں وہی چیزیں اب بھی اس میں شامل کی گئیں ہے اوراب موجودہ ان چیزوں میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بہتری کی کوئی چیز نظر آتی ہے کہیں یہ لڑائی شروع نہ ہوجائے۔

اس کے علاوہ 2001ء کا آرڈینس اور اعلیٰ سفارشات بھجوائی گئی ہیں لیکن متعلقہ گورنمنٹ یعنی جو لوکل گورنمنٹ کا کمیشن ہے وہی اس سسٹم کو بنائے گا اور وہی اس کو سنے گا اس عمل سے یہ چیز ظاہر ہوتی ہے کہ من پسند فیصلے ہوںگے اور اس کی حیثیت وہ نہیں ہے جو اس کی ہونی چاہیے۔ ریٹرننگ آفیسرز جو کہ کونسلروں کے تابع ہیں وہ کس طرح دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے گا اور اس عمل سے اپنی مرضی کے نتائج سامنے آئیں گے جو وہ چاہتے ہوں گے۔ اگر ریٹرننگ آفیسر کونسلروں کے تابع نہ ہو تو پھر نتائج عوام کے مطابق ہو سکتے ہیں لیکن ایسا کیا نہیں گیا ہے۔

حلقہ بندی میں کسی بھی جگہ پٹوار سرکل کے مطابق کام نہیں ہوا ہے اور ہر سرکل میں اپنی مرضی کے مطابق سرکل کو بنایا گیا ہے، ان سرکلز میں اپنی اپنی مرضی کے علاقے شامل کئے گے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی سب سے بڑی مثال لاہو شہر میں ٹاؤن شپ کے علاقے میں اس یونین کونسل کا نام مخصوص ایم این اے اور ایم پی اے کے نام پر رکھ دیا گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن اپنی مرضی کرتے ہوئے انتظامیہ نے ایسا کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیڈ گورننس کے انبار لگ چکے ہیں، موجودہ مہنگائی نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں جس سے عام آدمی کو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے سفید پوش کا بھرم ختم کردیا ہے اور دکاندار بھی اپنے من مانے ریٹ وصول کر رہے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

ان حالات میں الیکشن کے نتائج نہیں مل سکتے ہیں جس کی وہ خواہش رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں سے بیوروکریسی کے تحت سارے نظام کو چلایا جا رہا ہے اور آج تک آڈٹ پیرے عوام تک نہیں پہنچ سکے ہیں جو کہ عوام تک پہنچنا چاہیے تھے۔ میاں محمد شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد آتے ہی سابقہ گورنمنٹ کا آڈٹ کروایا تھا اور عوام کے سامنے اس آڈٹ رپورٹ کو پیش کیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اپنا آڈٹ ابھی تک نہیں کروایا ہے اور اربوں روپے کے فنڈز کسی اور کاموں میں خرچ کئے جا رہے ہیں۔

آصف چیمہ ایڈووکیٹ (سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)

پنجاب حکومت کے ماضی کے رویہ کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کروانا ہی نہیں چاہتی، اگر اس نے الیکشن کروانا ہوتے تو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران الیکشن کروا دئیے جاتے۔ الیکشن کروانے کے لیے مختلف قسم کے حیلے بہانے بنا کر التواء کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ اقتدار کو عام آدمی تک پہنچانا ہی نہیں چاہتے۔ الیکشن نہ ہونے سے لوگ احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ وہ مخصوص طبقہ کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ عام آدمی کو آگے آنے کا کوئی موقعہ ہی نہیں مل رہا اسی وجہ سے الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کرکے راستہ روک رہے ہیں۔



اگر الیکشن ہوتے رہتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینا تھا اس سے عام آدمی نے آگے آکر کام کرنا تھا حالانکہ حکومت نے بلدیاتی ایکٹ کے ذریعے بہت سے اختیارات واپس لے لیے تھے اور منتخب نمائندے کو ہٹانے کا اختیار بھی دے دیا گیا تھا اس کے باوجود الیکشن نہ کروانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ تاہم اس وقت حکومت کو الیکشن کروانا ہی پڑیں گے کیونکہ سپریم کورٹ میں بیان دے چکی ہے اور یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ الیکشن کروائے جائیں گے ۔ اگر سپریم کورٹ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کارروائی نہ کرتی تو یہ تیزی پیدا ہی نہ ہوتی۔

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس بھی الیکشن کروانے میں دلچسپی رکھیں گے اور الیکشن ضرور ہوں گے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن کروانے کے لیے تیزی پیدا ہوئی تھی کیونکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ الیکشن ضرور ہوں گے کیونکہ یہ آئینی تقا ضا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے چیف جسٹس بھی الیکشن کروانے کے لیے اپنے کردار کو ادا کریں گے ۔ تاکہ عام آدمی بھی سیاست میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔

سمیع اﷲ خان
(رہنماء مسلم لیگ،ن)
سپریم کورٹ کا انتخابات کیلئے مزید وقت دینے کیلئے کیا گیا فیصلہ بالکل درست اور بر وقت ہے۔ جب قومی اسمبلی میں انتخابات کے التواء کے حوالے سے قرارداد آئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ دو اداروں میں ٹکراؤ ہونے جا رہا ہے مگر اس فیصلے کے بعد اس طرح کے خطرات ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے اندر موجود ہے کہ انتظامی سطح پر سٹیک ہولڈرز یعنی الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتیں مل کر باہمی مشاورت سے انتخابات کا وقت طے کریں مگر یہ دونوں ادارے الیکشن کمیشن اور چاروں صوبائی حکومتین بعض وجوہات کی بناء پر الیکشن کا التواء چاہتی تھیں اور یہ وجوہات بہت ٹھوس تھیں۔



سپریم کورٹ نے قرار داد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں جو بلدیاتی بل لائے گئے وہ سب کے سامنے ہیں مگر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو قوانین وضح کئے ہیں وہ سامنے نہیں آئے ہیں۔ بل میں کیا صحیح ہے کیا غلط اور اس میں کیا تبدیلی کی جاسکتی ہے اس پر کوئی بحث نہیں کی گئی۔ جب پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ تشکیل دیا جا رہا تھا تو تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) ہمارے ساتھ شامل تھیں۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ واضح ہے کہ بلدیاتی اداروں کو چلانے کے لئے اگر مستقبل میں بھی کوئی تجویز دے گا تو اس پر غور ضرور کیا جائے گا۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں تو اس حوالے سے واضح ہونا چاہیے کہ حلقہ بندی کیلئے شماریات کوڈ ہوتا ہے اور 95 فیصد تک اس کوڈ کو مدنظر رکھنے کی پابندی ہے۔

اسے شماریاتی بلاک بھی کہتے ہیں۔شماریاتی بلاک کی موجودگی میں حلقہ بندی میں کسی گلی کو ادھر ادھر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو پارٹیاں حلقہ بندیوں کے حوالے سے شور مچارہی ہیں انہوں نے اس کے خلاف کوئی بھی اپیل نہیں کی ہے حالانکہ اپیل کا حق ہر کسی کیلئے موجود ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے صرف الزامات کی زد پر رکھا اور مسلم لیگ(ن) کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں نے اسے پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کیا۔ صوبے بھر میں عام شہریوں اور امیدواروں کی طرف سے کل 641 اپیلیں کی گئی ہیں ان میں سے 90 فیصد اپیلوں کا فیصلہ اپیل کرنے والوں کے حق میں کیا گیا ہے۔

اس وقت انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کے تحفظات ہیں، بیلٹ پیپر کی چھپائی جن کی تعداد عام انتخابات سے 5 گنا زیادہ ہے، دوسرا مسئلہ مقناطیسی سیاہی کا ہے اور پاکستان پرنٹنگ پریس اور پی سی ایس آئی آر مل کر اس پر کام کر رہے ہیں، اس وقت کاغذات نامزدگی میں امیدوار کیلئے سیاسی جماعت کا نام نہیں ہے وہ بھی ڈالنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹیں بنانے سے معذوری ظاہر کی ہے اور وہ کام بھی پنجاب حکومت کو کرنا پڑ رہا ہے اور جلد بازی سے اس میں سقم رہ جانے کا خطرہ بھی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر پورا اترنے کی کوشش کرے گی۔

آمنہ ملک (رکن انسانی حقوق)

موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ بلدیاتی الیکشن ہوں کیونکہ یہ اقتدار کسی اور کو منتقل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت اقتدار کی منتقلی دوسرے لوگوں کو کر دے تو اس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے اثرات عام لوگوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ٹیوب ویل اور پلوں کا افتتاح اگر ایم پی ایز اور ایم این ایز ہی کریں گے تو سسٹم میں بہتری کیسے آئے گی اور عام لوگوں کو اقتدار کیسے پہنچے گا۔سال کے شروع سے اب تک الیکشن کروائے جا رہے ہیں، معلوم نہیں حکومت الیکشن کروانے میں کیوں سنجیدہ نہیں ہے۔



موجودہ بلدیاتی الیکشن میں خواتین کوبھی شامل کیا جائے خواتین کے لئے الگ سے مخصوص سیٹیں رکھی جائیں اور ان میں اقلیتی خواتین کی سیٹیں بھی بحال کی جائیں ، خواتین کی شمولیت کو آسان بنایا جائے جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئیں گے کیونکہ آج کے دور میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور اس کے اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں ۔ موجودہ بلدیاتی الیکشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر الیکشن کروانے سے خواتین کو جو مسائل درپیش ہیں وہ آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں اور نظام میں اس کے نتائج خاطرخواہ سامنے آئے گے۔

حکومت نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عام آدمی کو براہ راست ان اقدام کا کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل ہوسکے اور لوگوں کی مشکلات کم ہوسکی ہوں جبکہ دن بدن لوگوں کی مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل عوام کے ساتھ جو وعدے کئے تھے عوام اب حکومت کی جانب دیکھ رہی ہے کہ ان وعدوں کو کب پورا کیا جائے گا جبکہ روزبروز ایسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جس سے عام آدمی کے لئے مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔

جمہوری حکومت کا نعرہ لگانے والے جمہوریت میں عام لوگوں کی مشکلات کا بھی خیال رکھیں نہ کہ عوام کو دو وقت کی روٹی اپنے بچوں کو کھلانا مشکل ہوجائے۔ حکومت ایسے عملی کام کرے جس کے اثرات نچلی سطح تک براہ راست عوام تک پہنچیں اور جب ایسا ہوگا نہ صرف ملک خوشحال ہوگا بلکہ عوام بھی خوشحال ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں