مظلوم کی دعا سب سے اچھی ’’فیس‘‘ ہے وکیل عذرا غزل صدیقی
عوام اذیت میں مبتلا ہیں، حکم راں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، عذرا غزل صدیقی
WASHINGTON:
ایسا معاشرہ جہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہو، کسی عورت کا وکالت کے میدان میں قدم رکھنا، وکالت، جسے خالصتاً مردوں کا پیشہ تصور کیا جاتا ہے، کسی کارنامے سے کم نہیں۔
عذرا غزل صدیقی سکھر کی اُن گنی چنی خواتین میں سے ہیں، جنھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ وہ ایک قابل تقلید مثال ہیں۔ یہ مقام اُنھوں نے اپنی انتھک محنت اور والدین کی حوصلہ افزائی کے طفیل حاصل کیا۔ عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد اُنھوں نے خواتین کو فوری انصاف دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کورٹ روم میں قدم رکھا۔ خوش قسمتی سے بیش تر کیسز میں کام یاب رہیں۔ غریب خواتین سے وہ فیس لینے کی قائل نہیں۔ مظلوم کی دعا کو سب سے اچھی ''فیس'' تصور کرتی ہیں۔ کہتی ہیں،''میں خدا کی ممنون ہوں، جس نے مجھے مظلوموں کے لیے لڑنے کا حوصلہ دیا۔ بس خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی یہ کام جاری رکھوں۔ ساتھ ہی چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اِس پیشے میں آئیں۔''
سکھر کی خواتین کے لیے مشعل راہ، عذرا صدیقی پریکٹس کے ساتھ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔ گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج میں وہ بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمے داریاں نبھا رہی ہیں۔ اس پلیٹ فورم سے وہ وکلا خواتین کی ایک کھیپ تیار کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے 25 دسمبر 1978 کو سکھر کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، اسرار احمد صدیقی پیشہ تجارت سے وابستہ ہیں۔ چھے بہن بھائیوں میں وہ بڑی ہیں۔ چھوٹے بھائی، محمد رضوان ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہیں۔ اُس کے بعد مہوش اسرار ہیں۔ چوتھے نمبر پر بینش اسرار اور پانچویں پر عروج اسرار ہیں۔ محمد کامران صدیقی سب سے چھوٹے ہیں۔ یوں تو بہن بھائیوں کے درمیان دوستانہ روابط ہیں، مگر اِس رشتے میں احترام کا عنصر بھی شامل ہے۔ بچپن میں وہ بہت شرارتی ہوا کرتی تھیں۔ محلے داروں کے گھروں کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتیں۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں،''آج بھی اپنی سہیلیوں اور محلے داروں کے گھر کی گھنٹی بجا کر پرانی یادیں تازہ کرتی ہوں۔''
عذرا کی شخصیت پر اُن کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔ اِس بابت کہتی ہیں،''میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ ہمارے وسائل محدود تھے، اِس کے باوجود والد صاحب نے ہمیں اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُن کی محنت اور تربیت کے طفیل آج تمام بہن بھائی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دراصل وہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ رشتے داروں سے یہی کہتے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔ جب عزیزواقارب کے ہاں جاتے، تو سب سے پہلے گھرانے کے بچوں سے اُن کی تعلیم سے متعلق پوچھتے۔ اِس طرح اُنھوں نے ہم پر تعلیم کی اہمیت اجاگر کی۔''
شمار اُن کا قابل طالبات میں ہوا کرتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ماڈرن ہائی اسکول، سکھر سے حاصل کی۔ 1994 میں اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک کا مرحلہ طے کیا۔ اسکول کے دن یاد کرتے ہوئے اپنے استاد، احمد شاہ رضوی کا بہ طور خاص ذکر کرتی ہیں، جو لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیا کرتے، اور بچوں کے والدین کو نصیحت کرتے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں، تاکہ وہ عملی زندگی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
دسویں کے بعد وہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کا حصہ بن گئیں۔ کالج کے زمانے میں خاصی متحرک رہیں۔ کھیلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1998 میں اُنھوں نے بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدا سے خواہش تھی کہ عورتوں کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ کریں۔ جوں جوں یہ فکر پختہ ہوتی گئی، مستقبل کا خاکہ واضح ہوتا گیا۔ اِس کام کے لیے وکالت کا پیشہ مناسب لگا۔ گو کچھ لوگوں نے مخالفت کی، مگر اُنھوں نے گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج میں داخلہ لے لیا۔ اگلے تین سال بے حد مصروف گزرے۔ جم کر پڑھائی کی۔ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں نے بھی باندھے رکھا۔
ڈگری مکمل کرتے ہی عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ نام وَر وکیل، ڈیوڈ لارنس کی فرم سے وہ منسلک ہوگئیں۔ اپنے مضمون میں مزید گرفت کی خواہش نے کراچی یونیورسٹی کا حصہ بنا دیا، جہاں سے انھوں نے نمایاں نمبروں کے ساتھ ایل ایل ایم کیا۔ وہ انتہائی پُرمسرت لمحہ تھا۔
پریکٹس نے جلد ہی شناخت عطا کر دی۔ جب پہچان بنا لی، تو اپنے خواب کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ مظلوم خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی کا مقصد سامنے رکھا، اور کام شروع کر دیا۔ اچھے لوگوں کا ساتھ میسر آیا، یوں کارواں بنتا گیا۔ اِس ضمن میں کہتی ہیں،''میں خاندان کی پہلی خاتون وکیل ہوں۔ عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوا کہ خواتین کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پھر مجھے یہ ادراک ہوا کہ وکالت کے شعبے میں خواتین بہت کم ہیں۔
میری خواہش ہے کہ مردوں کے ساتھ خواتین بھی اِس شعبے میں آئیں۔ جتنی زیادہ خاتون وکلا ہوں گی، مظلوم خواتین کو انصاف کی فراہمی کا عمل اتنا سہل ہوجائے گا۔ اسی خیال کے تحت میں نے ایل ایل ایم کے بعد سکھر کے ایک نجی کالج میں پڑھانا شروع کردیا۔'' چار سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 2012 میں گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج سے بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر منسلک ہوگئیں۔ تدریس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
عذرا کے مطابق اُن کی کام یابی والدین کی سرپرستی کے مرہون منت ہے۔ ''والدین نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی۔ انھوں نے ایک دوست کی طرح میرا ساتھ دیا۔ ہر موڑ پر مجھے مفید مشوروں سے نوازا۔ حوصلہ افزائی کی، تاکہ میں اچھی وکیل بن سکوں۔ جب پہلی بار کالا کوٹ پہن کر عدالت میں قدم رکھا، تو لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ خواتین اس شعبے میں خود کو نہیں منوا سکتیں، تاہم چند ہی دنوں میں مَیں نے ثابت کردیا کہ عورتیں مردوں سے کسی طرح کم تر نہیں۔''
سیاست سے وہ بے زار ہیں۔ کہتی ہیں،''جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہی دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست سے دل اچاٹ ہوگیا ہے۔'' اُن کے مطابق ملک میں جاری پانی، بجلی، گیس کے بحران، بڑھتی منہگائی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے لوگ شدید اذیت میں مبتلا ہیں، جب کہ حکم راں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ''اگر یہی حالات رہے، تو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ صورت حال بگڑ بھی سکتی ہے۔'' سیاست دانوں کے قبیلے سے تو زیادہ امید نہیں، البتہ مصطفیٰ کمال کی صلاحیتوں اور کاوشوں کو سراہتی ہیں۔ بہ قول اُن کے،''کراچی کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے والے مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کی اِس ملک کو اشد ضرورت ہے۔''
عذرا کے مطابق ملکی حالات، مسائل کا انبار اور عوام کی پریشانی دیکھ کر اُنھیں ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ ''سوچتی ہوں، اگر اﷲ تعالی نے مجھے صدر یا وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا، تو میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اور جامع اقدامات کروں گی۔ اگر ہم مشکلات میں گھرے افراد کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سکھر سمیت ملک بھر میں یہی صورت حال ہے۔ سیاست دانوں کو اس طبقے کی جانب توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ سچا پاکستانی بن کرکام کرنا ہوگا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں، مگر ہم پستی کی جانب گام زن ہیں، اور یہ صورت حال افسوس ناک ہے۔''
سکھر سمیت ملک بھر میں آج سیکڑوں این جی اوز سرگرم ہیں۔ چند موثر انصاف کی فراہمی کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر عذرا صاحبہ اُن سے مطمئن نہیں۔ کہتی ہیں،''آج تک ہم نے این جی اوز کو عملی کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عملی اقدامات کم، نمایشی کام زیادہ ہے۔ این جی اوز کے آنے سے بعض لوگوں کو اچھا روزگار تو ملا، مگر اِن کے اصل ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ ہاں، چند ایک ایسے ادارے ہیں، جو خدمت خلق کے لیے کام کر رہے ہیں، مگر ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ باقی اپنے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔''
اُنھیں دکھ ہے کہ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی خواتین کو وہ مقام نہیں ملا، جس کی وہ حق دار تھیں۔ ''کئی ایسی عورتیں ہیں، جنھوں نے عملی جدوجہد کی، مگر آج اُنھیں کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں 52 فی صد خواتین ہیں۔ درس گاہوں میں بھی طالبات کی تعداد زیادہ ہے، مگر حصول ملازمت میں اُنھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملازمت مل بھی جائے، تو وہ حقوق نہیں ملتے۔ دیکھیں، جب تک ہمارے ملک میں حق دار کو اُس کا حق نہیں ملے گا، تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ تمام کام ہمیں مل کر کرنے ہوںگے۔ خواتین سے متعلق عوام کی سوچ بدلنی ہوگی۔ ''
قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی شخصیت اور افکار نے عذرا صاحبہ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ خواہش ہے کہ ہم اپنے ان عظیم قائدین کے افکار کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنائیں۔ ''اگر ہم اپنے ملک کو اپنے قائدین کے افکار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ اِس کے بعد ہی ہم دیگر شعبوں میں ترقی کرسکتے ہیں۔ یورپی ممالک نے تعلیم کے طفیل ترقی کی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس جانب توجہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے ہم زوال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔''
پسند ناپسند زیر بحث آئی، تو بتانے لگیں کہ اُنھیں میٹھا بہت پسند ہے۔ بریانی من پسند ڈش ہے۔ سردی کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتی ہیں۔ کہتی ہیں،''ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں سال کے آٹھ ماہ شدید گرمی پڑی ہے۔ ساتھ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، لوگوں کا برا حال ہوجاتا ہے۔ تو گرمیوں میں مَیں سردی کے موسم کی دعا کرتی رہتی ہوں۔''
کالج کے زمانے میں انھوں نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بیڈ منٹن کی بہترین کھلاڑی تھیں۔ شکایت ہے کہ ہماری درس گاہوں میں اسپورٹس کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث باصلاحیت لڑکیاں مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ خواہش ہے کہ خواتین کے لیے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جائے۔ ''اِس ضلعے کی لڑکیاں بہت باصلاحیت ہیں، جو کھیل کے میدان میں ملک و قوم کا نام روشن کرسکتی ہیں۔ انھیں چانس ملنا چاہیے۔''معمولات زندگی کچھ یوں ہیں کہ صبح نو بجے کورٹ پہنچتی ہیں۔ کیسز نمٹا کر گھرلوٹتی ہیں، جہاں ذمے داریاں منتظر ہوتی ہیں۔ شام کے اوقات میں تدریسی مصروفیات گھیر لیتی ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔
لتا کی گائیکی اور محسن نقوی کی شاعری کی وہ گرویدہ ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں شعر و شاعری کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں۔ فارغ وقت میسر ہو، تو گائیکی سے محظوظ ہوتی ہیں۔ ''جب موقع ملتا ہے، اچھی شاعری پڑھتی ہوں، لتا منگیشکر اور نیرہ نور کو سنتی ہوں۔''
ایسا معاشرہ جہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہو، کسی عورت کا وکالت کے میدان میں قدم رکھنا، وکالت، جسے خالصتاً مردوں کا پیشہ تصور کیا جاتا ہے، کسی کارنامے سے کم نہیں۔
عذرا غزل صدیقی سکھر کی اُن گنی چنی خواتین میں سے ہیں، جنھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ وہ ایک قابل تقلید مثال ہیں۔ یہ مقام اُنھوں نے اپنی انتھک محنت اور والدین کی حوصلہ افزائی کے طفیل حاصل کیا۔ عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد اُنھوں نے خواتین کو فوری انصاف دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کورٹ روم میں قدم رکھا۔ خوش قسمتی سے بیش تر کیسز میں کام یاب رہیں۔ غریب خواتین سے وہ فیس لینے کی قائل نہیں۔ مظلوم کی دعا کو سب سے اچھی ''فیس'' تصور کرتی ہیں۔ کہتی ہیں،''میں خدا کی ممنون ہوں، جس نے مجھے مظلوموں کے لیے لڑنے کا حوصلہ دیا۔ بس خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی یہ کام جاری رکھوں۔ ساتھ ہی چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اِس پیشے میں آئیں۔''
سکھر کی خواتین کے لیے مشعل راہ، عذرا صدیقی پریکٹس کے ساتھ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔ گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج میں وہ بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمے داریاں نبھا رہی ہیں۔ اس پلیٹ فورم سے وہ وکلا خواتین کی ایک کھیپ تیار کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے 25 دسمبر 1978 کو سکھر کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، اسرار احمد صدیقی پیشہ تجارت سے وابستہ ہیں۔ چھے بہن بھائیوں میں وہ بڑی ہیں۔ چھوٹے بھائی، محمد رضوان ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہیں۔ اُس کے بعد مہوش اسرار ہیں۔ چوتھے نمبر پر بینش اسرار اور پانچویں پر عروج اسرار ہیں۔ محمد کامران صدیقی سب سے چھوٹے ہیں۔ یوں تو بہن بھائیوں کے درمیان دوستانہ روابط ہیں، مگر اِس رشتے میں احترام کا عنصر بھی شامل ہے۔ بچپن میں وہ بہت شرارتی ہوا کرتی تھیں۔ محلے داروں کے گھروں کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتیں۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں،''آج بھی اپنی سہیلیوں اور محلے داروں کے گھر کی گھنٹی بجا کر پرانی یادیں تازہ کرتی ہوں۔''
عذرا کی شخصیت پر اُن کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔ اِس بابت کہتی ہیں،''میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ ہمارے وسائل محدود تھے، اِس کے باوجود والد صاحب نے ہمیں اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُن کی محنت اور تربیت کے طفیل آج تمام بہن بھائی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دراصل وہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ رشتے داروں سے یہی کہتے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔ جب عزیزواقارب کے ہاں جاتے، تو سب سے پہلے گھرانے کے بچوں سے اُن کی تعلیم سے متعلق پوچھتے۔ اِس طرح اُنھوں نے ہم پر تعلیم کی اہمیت اجاگر کی۔''
شمار اُن کا قابل طالبات میں ہوا کرتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ماڈرن ہائی اسکول، سکھر سے حاصل کی۔ 1994 میں اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک کا مرحلہ طے کیا۔ اسکول کے دن یاد کرتے ہوئے اپنے استاد، احمد شاہ رضوی کا بہ طور خاص ذکر کرتی ہیں، جو لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیا کرتے، اور بچوں کے والدین کو نصیحت کرتے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں، تاکہ وہ عملی زندگی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
دسویں کے بعد وہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کا حصہ بن گئیں۔ کالج کے زمانے میں خاصی متحرک رہیں۔ کھیلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1998 میں اُنھوں نے بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدا سے خواہش تھی کہ عورتوں کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ کریں۔ جوں جوں یہ فکر پختہ ہوتی گئی، مستقبل کا خاکہ واضح ہوتا گیا۔ اِس کام کے لیے وکالت کا پیشہ مناسب لگا۔ گو کچھ لوگوں نے مخالفت کی، مگر اُنھوں نے گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج میں داخلہ لے لیا۔ اگلے تین سال بے حد مصروف گزرے۔ جم کر پڑھائی کی۔ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں نے بھی باندھے رکھا۔
ڈگری مکمل کرتے ہی عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ نام وَر وکیل، ڈیوڈ لارنس کی فرم سے وہ منسلک ہوگئیں۔ اپنے مضمون میں مزید گرفت کی خواہش نے کراچی یونیورسٹی کا حصہ بنا دیا، جہاں سے انھوں نے نمایاں نمبروں کے ساتھ ایل ایل ایم کیا۔ وہ انتہائی پُرمسرت لمحہ تھا۔
پریکٹس نے جلد ہی شناخت عطا کر دی۔ جب پہچان بنا لی، تو اپنے خواب کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ مظلوم خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی کا مقصد سامنے رکھا، اور کام شروع کر دیا۔ اچھے لوگوں کا ساتھ میسر آیا، یوں کارواں بنتا گیا۔ اِس ضمن میں کہتی ہیں،''میں خاندان کی پہلی خاتون وکیل ہوں۔ عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوا کہ خواتین کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پھر مجھے یہ ادراک ہوا کہ وکالت کے شعبے میں خواتین بہت کم ہیں۔
میری خواہش ہے کہ مردوں کے ساتھ خواتین بھی اِس شعبے میں آئیں۔ جتنی زیادہ خاتون وکلا ہوں گی، مظلوم خواتین کو انصاف کی فراہمی کا عمل اتنا سہل ہوجائے گا۔ اسی خیال کے تحت میں نے ایل ایل ایم کے بعد سکھر کے ایک نجی کالج میں پڑھانا شروع کردیا۔'' چار سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 2012 میں گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج سے بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر منسلک ہوگئیں۔ تدریس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
عذرا کے مطابق اُن کی کام یابی والدین کی سرپرستی کے مرہون منت ہے۔ ''والدین نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی۔ انھوں نے ایک دوست کی طرح میرا ساتھ دیا۔ ہر موڑ پر مجھے مفید مشوروں سے نوازا۔ حوصلہ افزائی کی، تاکہ میں اچھی وکیل بن سکوں۔ جب پہلی بار کالا کوٹ پہن کر عدالت میں قدم رکھا، تو لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ خواتین اس شعبے میں خود کو نہیں منوا سکتیں، تاہم چند ہی دنوں میں مَیں نے ثابت کردیا کہ عورتیں مردوں سے کسی طرح کم تر نہیں۔''
سیاست سے وہ بے زار ہیں۔ کہتی ہیں،''جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہی دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست سے دل اچاٹ ہوگیا ہے۔'' اُن کے مطابق ملک میں جاری پانی، بجلی، گیس کے بحران، بڑھتی منہگائی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے لوگ شدید اذیت میں مبتلا ہیں، جب کہ حکم راں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ''اگر یہی حالات رہے، تو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ صورت حال بگڑ بھی سکتی ہے۔'' سیاست دانوں کے قبیلے سے تو زیادہ امید نہیں، البتہ مصطفیٰ کمال کی صلاحیتوں اور کاوشوں کو سراہتی ہیں۔ بہ قول اُن کے،''کراچی کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے والے مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کی اِس ملک کو اشد ضرورت ہے۔''
عذرا کے مطابق ملکی حالات، مسائل کا انبار اور عوام کی پریشانی دیکھ کر اُنھیں ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ ''سوچتی ہوں، اگر اﷲ تعالی نے مجھے صدر یا وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا، تو میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اور جامع اقدامات کروں گی۔ اگر ہم مشکلات میں گھرے افراد کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سکھر سمیت ملک بھر میں یہی صورت حال ہے۔ سیاست دانوں کو اس طبقے کی جانب توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ سچا پاکستانی بن کرکام کرنا ہوگا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں، مگر ہم پستی کی جانب گام زن ہیں، اور یہ صورت حال افسوس ناک ہے۔''
سکھر سمیت ملک بھر میں آج سیکڑوں این جی اوز سرگرم ہیں۔ چند موثر انصاف کی فراہمی کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر عذرا صاحبہ اُن سے مطمئن نہیں۔ کہتی ہیں،''آج تک ہم نے این جی اوز کو عملی کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عملی اقدامات کم، نمایشی کام زیادہ ہے۔ این جی اوز کے آنے سے بعض لوگوں کو اچھا روزگار تو ملا، مگر اِن کے اصل ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ ہاں، چند ایک ایسے ادارے ہیں، جو خدمت خلق کے لیے کام کر رہے ہیں، مگر ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ باقی اپنے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔''
اُنھیں دکھ ہے کہ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی خواتین کو وہ مقام نہیں ملا، جس کی وہ حق دار تھیں۔ ''کئی ایسی عورتیں ہیں، جنھوں نے عملی جدوجہد کی، مگر آج اُنھیں کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں 52 فی صد خواتین ہیں۔ درس گاہوں میں بھی طالبات کی تعداد زیادہ ہے، مگر حصول ملازمت میں اُنھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملازمت مل بھی جائے، تو وہ حقوق نہیں ملتے۔ دیکھیں، جب تک ہمارے ملک میں حق دار کو اُس کا حق نہیں ملے گا، تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ تمام کام ہمیں مل کر کرنے ہوںگے۔ خواتین سے متعلق عوام کی سوچ بدلنی ہوگی۔ ''
قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی شخصیت اور افکار نے عذرا صاحبہ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ خواہش ہے کہ ہم اپنے ان عظیم قائدین کے افکار کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنائیں۔ ''اگر ہم اپنے ملک کو اپنے قائدین کے افکار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ اِس کے بعد ہی ہم دیگر شعبوں میں ترقی کرسکتے ہیں۔ یورپی ممالک نے تعلیم کے طفیل ترقی کی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس جانب توجہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے ہم زوال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔''
پسند ناپسند زیر بحث آئی، تو بتانے لگیں کہ اُنھیں میٹھا بہت پسند ہے۔ بریانی من پسند ڈش ہے۔ سردی کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتی ہیں۔ کہتی ہیں،''ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں سال کے آٹھ ماہ شدید گرمی پڑی ہے۔ ساتھ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، لوگوں کا برا حال ہوجاتا ہے۔ تو گرمیوں میں مَیں سردی کے موسم کی دعا کرتی رہتی ہوں۔''
کالج کے زمانے میں انھوں نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بیڈ منٹن کی بہترین کھلاڑی تھیں۔ شکایت ہے کہ ہماری درس گاہوں میں اسپورٹس کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث باصلاحیت لڑکیاں مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ خواہش ہے کہ خواتین کے لیے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جائے۔ ''اِس ضلعے کی لڑکیاں بہت باصلاحیت ہیں، جو کھیل کے میدان میں ملک و قوم کا نام روشن کرسکتی ہیں۔ انھیں چانس ملنا چاہیے۔''معمولات زندگی کچھ یوں ہیں کہ صبح نو بجے کورٹ پہنچتی ہیں۔ کیسز نمٹا کر گھرلوٹتی ہیں، جہاں ذمے داریاں منتظر ہوتی ہیں۔ شام کے اوقات میں تدریسی مصروفیات گھیر لیتی ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔
لتا کی گائیکی اور محسن نقوی کی شاعری کی وہ گرویدہ ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں شعر و شاعری کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں۔ فارغ وقت میسر ہو، تو گائیکی سے محظوظ ہوتی ہیں۔ ''جب موقع ملتا ہے، اچھی شاعری پڑھتی ہوں، لتا منگیشکر اور نیرہ نور کو سنتی ہوں۔''