سماجی اضطراب کے ادراک کی ضرورت
چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے ملک بھر میں بجلی کے ناقص نظام کے ہاتھوں مجبور عوام کے۔۔۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے ملک بھر میں بجلی کے ناقص نظام کے ہاتھوں مجبور عوام کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے جو درد انگیز ریمارکس دیے ہیں وہ ارباب اختیار اور توانائی کے بحران کے ذمے داروں کے ضمیر پر ایک تازیانہ سے کم نہیں، ''کوئی ضمیر کا لہجہ کوئی اصول کی بات'' کا ورد کرنے والے جمہوری رہنماؤں کو اس امر کا اب ادراک کر ہی لینا چاہیے کہ عوام کو درپیش روزمرہ مسائل کا گراں بار ملبہ بیوروکریسی کی بے نیازی، نا اہلی اور سنگ دلی کے باعث عدلیہ کی دہلیز پر جمع ہو گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں، وزراء کی فوج ظفر موج اور متعلقہ محکموں کا عوام کے مصائب اور ان سے پیدا ہونے والی ذہنی اذیتوں سے کوئی سروکار نہیں، چیف جسٹس الگ فریاد کناں نظر آئے یہ ریمارکس دیتے ہوئے کہ عوام 18 روپے فی یونٹ بھی دینے کو تیار ہیں مگر بجلی تو دی جائے۔ صرف عوام سے قربانی نہیں مانگی جائے، حکومت پہلے خود قربانی دے۔
اس تلخ صورتحال میں عدلیہ کا یہ گلہ بھی قابل غور اور چشم کشا ہے کہ نیپرا ریاست کا ادارہ ہے، اسے عوام کے فائدے کا سوچنا چاہیے، چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور لوڈشیڈنگ کے خلاف مقدمے کی سماعت کی اور سی این جی کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے درست قرار دیا کہ قانون دہرے ٹیکس کی اجازت نہیں دیتا ، پارلیمنٹ عدلیہ کا فیصلہ ختم نہیں کر سکتی، تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ نیپرا کے وکیل نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک بار پھر دفاع کیا اور یہ دلیل پیش کی کہ سبسڈی واپس لینے سے قیمتیں بڑھ گئیں۔ یہ وہی سبسڈی ہے جس کی واپسی کے فیصلے پر بھی عدالت عظمیٰ اپنی برہمی ظاہر کر چکی ہے۔ جہاں تک توانائی کے وسائل کی تلاش و جستجو کا تعلق ہے بلاشبہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے دعوے بیشمار ہیں، اس سمت میں کیا کام ہو رہا ہے اور کب عوام کو حقیقی معنوں میں لوڈ شیڈنگ سے نجات ملے گی کوئی اس راز سے پردہ اٹھانے کو تیار نہیں، تھر کا صحرا منتظر ہے کہ 20 ہزار میگا واٹ بجلی مہیا کرنے والے اس امکانی وسیلہ کا آخر کیا بنا، حکومت سندھ صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے کب بجلی پیدا کرنے کی خوشخبری قوم کو دے گی۔
ملک کے ایک معتبر سائنسدان کی عملی و تکنیکی کوششوں اور اس ضمن میں دل سوزی پر مبنی معروضات کا کسی کے دل پر اثر ہوا بھی یا نہیں۔ یہ المیہ ہے کہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی عوام کے لیے ایک عذاب بن گئی ہے، اس کا مطلب ہے اچھے وہی رہے جو کنڈے لگا کر یا مک مکا کر کے لاکھوں سادہ لوح اور قانون پسند صارفین کا حق توانائی چھین لیتے ہیں۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اوپر سے نرخ بھی بڑھا دیے جاتے ہیں، جب کہ یہ استدلال اصولی ہے کہ جو بل دیتا ہے اس کے لیے لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے، جو کنڈا ڈالے اسے بجلی نہ دی جائے، پالیسی بنانا نیپرا کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عوام کا استحصال ہو رہا ہے، اگر نیپرا اپنی ذمے داری نہیں نبھا سکتا تو اسے ختم کر دینا چاہیے، صنعتیں بند ہو گئی ہیں، لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ سادہ سی حقیقت ہے کہ عوام کو بنیادی ضرورت کی تمام اشیا کی فراہمی کا ایک نظام ہونا چاہیے جس کی مانیٹرنگ اور طلب و رسد کے میکنزم کو شفاف ہونا چاہیے، تا کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام پر ستم ڈھانے کی مزید جرات نہ ہو۔
چنانچہ دیکھ لیجیے، دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر پنجاب میں روٹی اسکیم کی بحالی کا حکم دے دیا، عدلیہ کے علم میں لایا گیا کہ سستی روٹی اسکیم بند ہونے سے غریبوں کا نقصان ہوا، مکینیکل تنور ناکارہ ہو گئے، ادھر پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ہمارے ملک کے بااثر افراد بیرونی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر ان دوروں پر کسی قسم کا ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا، اس طرح بیرونی تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں اور اس آمدنی کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے، وسائل سے بھرے اس ملک میں ہم کشکول لیے گھوم رہے ہیں، غریب عوام پر کبھی پٹرول بم، کبھی ٹماٹر بم اور کبھی بجلی بم گرایا جاتا ہے۔ اس اندوہ ناک صورتحال میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کا بیان خوش آیند ہے کہ حکومت وزیر اعظم کے عوام سے کیے وعدے کے مطابق کم آمدنی والے طبقات کے لیے کم لاگت کے مکانات تعمیر کرے گی۔
اپنا گھر لمیٹڈ کوئی خیراتی پروجیکٹ نہیں بلکہ ایک نان لسٹڈ کمپنی ہو گی جو ایک ہزار کالونیاں تعمیر کرے گی اور ہر کالونی میں500 مکانات ہوں گے، اسکیم کے تحت کم آمدنی والے طبقات کو 50 ہزار مکانات فراہم کیے جائیں گے۔ قصہ مختصر، عوام کو ملکی معیشت کے ثمرات اور حکومت کی طرف سے ہمہ جہتی ریلیف کا ملنا اب ناگزیر ہو گیا ہے، حکمراں دہشت گردی، بدامنی، جرائم کے طوفان، کرپشن کے سیلاب اور اشرافیہ کے مغل اعظم جیسے لائف اسٹائل کے مقابلہ میں غربت اور بدحالی سے پیدا ہونے والے سماجی اضطراب کا احساس کریں، معاشرہ میں غربت اور بیروزگاری سے احساس محرومی جنم لیتا ہے، اس لیے اقتصادی اور معاشی ثمرات کا رخ عوامی طبقات کی طرف کیجیے، یہی سب کے مفاد میں ہے۔