خطے کی سلامتی کے لیے حتمی معاہدہ
نئے بدلتے عالمی تناظر اور خطے کی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا جائے تو افغانستان سے...
نئے بدلتے عالمی تناظر اور خطے کی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا جائے تو افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا اگلے برس ہو رہا ہے، لیکن امریکا اپنے مقاصد و عزائم کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا، اس کی عملی شکل میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی معاہدے کی تشکیل کی صورت میں نظر آئی ہے، اس معاہدے کے مجوزہ نکات کے مطابق امریکی افواج 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گی۔ بی بی سی کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے افغانستان اور امریکا کے درمیان باہمی سلامتی کے معاہدے کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ جان کیری نے ایک خط بھیجنے کی پیشکش کی ہے جس میں وہ امریکا کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو تسلیم کریں گے اور اس خط کو افغان عمائدین کے جرگے کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سیکیورٹی معاہدے کے حوالے سے دو متضاد آراء ہیں، اول یہ ہے کہ امریکا ہر حال میں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے، اسی پس منظر میں سیکڑوں افغان طلبا نے جلال آباد میں امریکا کے ساتھ ہونیوالے ممکنہ معاہدے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
دوم یہ کہ امریکی افواج کی مزید موجودگی افغانستان اور پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گی کیونکہ باغی اور دہشت گردہ گروہوں کو قابو میں رکھنا دونوں ممالک کے لیے مشکل ہو گا۔ خطے میں نیٹوافواج کے انخلا کے بعد امن و امان کی بحالی سب سے بڑا مسئلہ ہے ایک امکان یہ بھی ہے کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ اس حوالے سے سیکیورٹی معاہدے کے نکات جو کہ افغان عمائدین کے جرگے کے سامنے پیش کیے جائیں گے اس کے فیصلے کا انتظار سب کو کرنا پڑے گا، امریکا افغان سیکیورٹی معاہدہ جہاں باہمی سلامتی کے حوالے سے اہم ہے وہیں یہ پاکستان کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ افغانستان کی صورتحال سے براہ راست متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ دہشتگردی کی عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا صلہ ہمیں انکل سام کیا دیتا ہے کیونکہ افغانستان کے گروہ بالخصوص طالبان پاکستان کے خلاف ہیں، ایک ایسا سہ فریقی معاہدہ پاکستان، افغانستان اور امریکا کے درمیان بھی تشکیل دیا جائے تو وہ خطے کی سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
دوم یہ کہ امریکی افواج کی مزید موجودگی افغانستان اور پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گی کیونکہ باغی اور دہشت گردہ گروہوں کو قابو میں رکھنا دونوں ممالک کے لیے مشکل ہو گا۔ خطے میں نیٹوافواج کے انخلا کے بعد امن و امان کی بحالی سب سے بڑا مسئلہ ہے ایک امکان یہ بھی ہے کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ اس حوالے سے سیکیورٹی معاہدے کے نکات جو کہ افغان عمائدین کے جرگے کے سامنے پیش کیے جائیں گے اس کے فیصلے کا انتظار سب کو کرنا پڑے گا، امریکا افغان سیکیورٹی معاہدہ جہاں باہمی سلامتی کے حوالے سے اہم ہے وہیں یہ پاکستان کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ افغانستان کی صورتحال سے براہ راست متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ دہشتگردی کی عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا صلہ ہمیں انکل سام کیا دیتا ہے کیونکہ افغانستان کے گروہ بالخصوص طالبان پاکستان کے خلاف ہیں، ایک ایسا سہ فریقی معاہدہ پاکستان، افغانستان اور امریکا کے درمیان بھی تشکیل دیا جائے تو وہ خطے کی سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔