قائد و اقبال کا پیغام
بڑی بڑی شخصیات کا یوم پیدائش و وفات عقیدت و محبت کے ساتھ پابندی سے منایا جاتا ہے...
لاہور:
بڑی بڑی شخصیات کا یوم پیدائش و وفات عقیدت و محبت کے ساتھ پابندی سے منایا جاتا ہے اس حوالے سے سیمینار و ورکس شاپ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اس طرح کے ایام کو منانا پوری دنیا کی ریت ہے، ہمارے ملک میں بھی اس روایت کو قائم رکھا گیا ہے، لیکن وہ جوش و جذبہ اب ماضی کے دنوں جیسا نہیں رہا، گئے دنوں میں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے اداروں اور تعلیمی درسگاہوں میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ولادت اور وصال کو خصوصی طور پر نہ کہ یاد رکھا جاتا تھا بلکہ باقاعدہ پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ قومی و ملی سطح پر بھی تقاریب ہوا کرتی تھیں، لیکن افسوس اب ایسا نہیں ہے، اسکول و کالج ویران رہتے ہیں۔ بہت کم اسکولوں میں نابغہ روزگار ہستیوں کو یاد کیا جاتا ہے ورنہ زیادہ تر تعلیمی درسگاہیں بند رہتی ہیں۔ ان خاص جگہوں پر ایک سناٹے اور ہو کا عالم رہتا ہے۔ اب تو حالات و واقعات اس قدر بدل گئے ہیں کہ فادر ڈے، مدر ڈے اور ویلنٹائن ڈے کی اہمیت باقی رہ گئی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر تو تمام بڑے شہروں میں رونق لگ جاتی ہے اور لوگ جوش و خروش سے مناتے ہیں اتنا جوش تو یوم آزادی و یوم دفاع اور دوسری کامیابیوں کے مواقعے پر بھی نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک خاص وجہ کہ لوگوں کے دلوں میں وطن اور بانی وطن سے ذرا محبت کم کم ہو گئی ہے۔ دوسرے آئے دن فائرنگ اور خودکش و ڈرون حملوں نے ماحول کو ناخوشگوار کر دیا ہے۔ باہر نکلتے وقت اور بچوں کو اسکول و کالج بھیجنے کے بعد ہر لمحہ اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں اللہ نہ کرے حالات نہ خراب ہو جائیں، کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خوف و ہراس نے یادگار دنوں کو منانے کا عزم بچوں اور بڑوں سے چھین لیا ہے۔ کل ہی کی تو بات ہے جب 9 نومبر آیا اور گزر گیا، بہت کم لوگوں کو یاد رہا کہ یہ دن شاعر مشرق علامہ اقبال کی پیدائش کا دن ہے، اس دن کا جشن اس طرح کسی نے نہیں منایا، جس طرح کہ اس کے منانے کا حق تھا، سوائے ایک دو چینلز پر کچھ معلومات اور یادداشتیں دکھا دی گئیں۔ علامہ اقبال کے فرزند جناب جسٹس جاوید اقبال کا نہ کہ دیدار کرایا گیا بلکہ ان کی گفتگو بھی سنوائی گئی جسے ناظرین نے عقیدت اور توجہ سے سنا۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کے افکار و خیال اور ان کی دین و ملت سے محبت سے ہر شخص واقف اور متاثر ہے۔
جسٹس جاوید اقبال کو دیکھ کر علامہ اقبال کے وہ اشعار بھی یاد آ گئے جو علامہ نے اپنے صاحبزادے کے لیے اس وقت کہے تھے جب لندن میں علامہ کو ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط موصول ہوا تھا۔ ان اشعار میں علامہ اقبال نے اپنے لخت جگر، نور نظر کو کس انداز میں درس دیا ہے۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ' غریبی میں نام پیدا کر
اقبال ہی وہ پہلے اور عظیم شخص تھے جنہوں نے پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا اس کے لیے انھوں نے جدوجہد بھی کی اور اس حوالے سے وہ 1926ء میں سیاسی میدان میں داخل ہو گئے۔ 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کی صدارت کی اور یہ علامہ اقبال کے لیے سب سے بڑا قومی اعزاز تھا کہ مسلمانوں نے ان کا انتخاب کیا۔
علامہ نے اس اجلاس میں فلسفیانہ اور معنی آفرین خطبہ پڑھا اور اس کے ٹھیک 10 برس بعد 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس لاہور کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح کی تحریک پر پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی اور اسی سال یوم پاکستان نہایت جوش کے ساتھ منایا گیا۔
1931ء میں علامہ نے بھی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی جو کہ لندن میں ہوئی تھی۔ واپسی پر فرانس میں آپ نے مشہور فلسفی ہنری برگساں (Henri Bergson) سے ملاقات کی، دوران گفتگو علامہ نے انسانی معاشرے کی حرکی اور فلاحی نوعیت کے متعلق اسلامی تصور سے آشنا کیا۔ علامہ کی ملاقات روم میں اطالیہ (اٹلی) کے ڈکٹیٹر مسولینی سے بھی ہوئی، مسولینی علامہ اقبال کی مثنوی ''اسرار خودی'' سے بہت محظوظ ہوا تھا۔ اس نے اطالیہ کے نوجوانوں کو کوئی پیغام دینے کی درخواست کی۔ اس درخواست کو علامہ نے قبول کر لیا اور اطالیہ کے نوجوانوں کو ہمت و جرأت اور ترقی کرنے کا پیغام دیا۔
اقبال نے مسولینی کو یہ بھی بتایا کہ جن حالات سے اطالیہ گزر رہا ہے اس طرح کے حالات سے ظہور اسلام سے پہلے ایران کو بھی گزرنا پڑا تھا جب ایران میں تہذیب و تمدن زوال پذیر تھا تو عرب کی محنت کش قوم نے ایرانیوں کو نیا خون مہیا کر کے تہذیب و تمدن کے ساکن و جامد چشمے میں تموج پیدا کیا، اٹلی کو بھی نئی زندگی اور حیات تازہ پانے کے لیے ایسی ہی نئی امنگ اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا اور خودی کی تعلیم دی۔ علامہ نے خودی کے بارے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ خودی تین حالتوں سے گزرنے کا نام ہے۔
مشیت الٰہیہ کے سامنے جھکنا۔ گویا اطاعت خداوندی دوسری حالت اپنی ذات پر قابو پانا، یعنی ضبط نفس اور تیسرا یہ کہ دنیا میں اللہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے فرائض ادا کرنا اور اس کے ساتھ فطرت اور تمام نوع انسان کے حالات کو سمجھنا ، انا یا خودی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہر چیز ہے محو خود نمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
خودی کیا ہے؟ راز دروں حیات
خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات
شروع شروع میں اقبال نے جو بھی نظمیں نذر سامعین کیں وہ تحت اللفظ میں تھیں لیکن حاضرین و عاشقین اقبال کی فرمائش اور بے حد اسرار پر علامہ نے ترنم سے پڑھیں لوگ مشاعرے میں اقبال کا ترنم سن کر جھومنے لگے۔ جلسہ حمایت الاسلام لاہور میں جب بھی اقبال اپنی نظم پڑھتے تو اس موقعے پر ہزاروں سامعین و قدردان جمع ہو جاتے اور جب تک علامہ اپنا کلام سناتے، مجمع پر سناٹا چھایا رہتا، لوگ دم بخود ہو کر سنتے رہتے۔
فارسی میں جو علامہ کی کتابیں ہیں وہ ہیں ''اسرار خودی''، ''رموز بے خودی'' اور ''پیام مشرق''۔ فارسی کے ذریعے اقبال کی شاعری تمام اسلامی دنیا میں پہنچ گئی اسی وسیلے سے یورپ اور امریکا والے اس عظیم شاعر سے متعارف ہوئے۔ اکثر اخبارات و جرائد میں ڈاکٹر محمد اقبال کو ترجمان حقیقت سے یاد کیا جاتا ہے۔
آج علامہ اقبال کی شاعری، شخصیت اور خیال و افکار کی پوری دنیا میں دھوم ہے ان کے انتقال کے موقعے پر ان کے استاد ڈاکٹر سر طامس آرنلڈ نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور استفادہ بہت وسیع تھا وہ خود ایک عظیم مفکر تھے، نوبل پرائز یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی خراج تحسین پیش کیا اور بھی بہت سے مفکرین و معلمین نے ان کی قابل قدر صلاحیتوں کا اعتراف خلوص دل کے ساتھ کیا کہ ان کا کام اور نام اس ہی قابل تھا۔ کاش ہم سب ان کے پیغام کو سمجھیں اور ان کا پیغام اسلام کا ہی پیغام ہے۔
بڑی بڑی شخصیات کا یوم پیدائش و وفات عقیدت و محبت کے ساتھ پابندی سے منایا جاتا ہے اس حوالے سے سیمینار و ورکس شاپ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اس طرح کے ایام کو منانا پوری دنیا کی ریت ہے، ہمارے ملک میں بھی اس روایت کو قائم رکھا گیا ہے، لیکن وہ جوش و جذبہ اب ماضی کے دنوں جیسا نہیں رہا، گئے دنوں میں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے اداروں اور تعلیمی درسگاہوں میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ولادت اور وصال کو خصوصی طور پر نہ کہ یاد رکھا جاتا تھا بلکہ باقاعدہ پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ قومی و ملی سطح پر بھی تقاریب ہوا کرتی تھیں، لیکن افسوس اب ایسا نہیں ہے، اسکول و کالج ویران رہتے ہیں۔ بہت کم اسکولوں میں نابغہ روزگار ہستیوں کو یاد کیا جاتا ہے ورنہ زیادہ تر تعلیمی درسگاہیں بند رہتی ہیں۔ ان خاص جگہوں پر ایک سناٹے اور ہو کا عالم رہتا ہے۔ اب تو حالات و واقعات اس قدر بدل گئے ہیں کہ فادر ڈے، مدر ڈے اور ویلنٹائن ڈے کی اہمیت باقی رہ گئی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر تو تمام بڑے شہروں میں رونق لگ جاتی ہے اور لوگ جوش و خروش سے مناتے ہیں اتنا جوش تو یوم آزادی و یوم دفاع اور دوسری کامیابیوں کے مواقعے پر بھی نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک خاص وجہ کہ لوگوں کے دلوں میں وطن اور بانی وطن سے ذرا محبت کم کم ہو گئی ہے۔ دوسرے آئے دن فائرنگ اور خودکش و ڈرون حملوں نے ماحول کو ناخوشگوار کر دیا ہے۔ باہر نکلتے وقت اور بچوں کو اسکول و کالج بھیجنے کے بعد ہر لمحہ اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں اللہ نہ کرے حالات نہ خراب ہو جائیں، کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خوف و ہراس نے یادگار دنوں کو منانے کا عزم بچوں اور بڑوں سے چھین لیا ہے۔ کل ہی کی تو بات ہے جب 9 نومبر آیا اور گزر گیا، بہت کم لوگوں کو یاد رہا کہ یہ دن شاعر مشرق علامہ اقبال کی پیدائش کا دن ہے، اس دن کا جشن اس طرح کسی نے نہیں منایا، جس طرح کہ اس کے منانے کا حق تھا، سوائے ایک دو چینلز پر کچھ معلومات اور یادداشتیں دکھا دی گئیں۔ علامہ اقبال کے فرزند جناب جسٹس جاوید اقبال کا نہ کہ دیدار کرایا گیا بلکہ ان کی گفتگو بھی سنوائی گئی جسے ناظرین نے عقیدت اور توجہ سے سنا۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کے افکار و خیال اور ان کی دین و ملت سے محبت سے ہر شخص واقف اور متاثر ہے۔
جسٹس جاوید اقبال کو دیکھ کر علامہ اقبال کے وہ اشعار بھی یاد آ گئے جو علامہ نے اپنے صاحبزادے کے لیے اس وقت کہے تھے جب لندن میں علامہ کو ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط موصول ہوا تھا۔ ان اشعار میں علامہ اقبال نے اپنے لخت جگر، نور نظر کو کس انداز میں درس دیا ہے۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ' غریبی میں نام پیدا کر
اقبال ہی وہ پہلے اور عظیم شخص تھے جنہوں نے پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا اس کے لیے انھوں نے جدوجہد بھی کی اور اس حوالے سے وہ 1926ء میں سیاسی میدان میں داخل ہو گئے۔ 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کی صدارت کی اور یہ علامہ اقبال کے لیے سب سے بڑا قومی اعزاز تھا کہ مسلمانوں نے ان کا انتخاب کیا۔
علامہ نے اس اجلاس میں فلسفیانہ اور معنی آفرین خطبہ پڑھا اور اس کے ٹھیک 10 برس بعد 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس لاہور کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح کی تحریک پر پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی اور اسی سال یوم پاکستان نہایت جوش کے ساتھ منایا گیا۔
1931ء میں علامہ نے بھی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی جو کہ لندن میں ہوئی تھی۔ واپسی پر فرانس میں آپ نے مشہور فلسفی ہنری برگساں (Henri Bergson) سے ملاقات کی، دوران گفتگو علامہ نے انسانی معاشرے کی حرکی اور فلاحی نوعیت کے متعلق اسلامی تصور سے آشنا کیا۔ علامہ کی ملاقات روم میں اطالیہ (اٹلی) کے ڈکٹیٹر مسولینی سے بھی ہوئی، مسولینی علامہ اقبال کی مثنوی ''اسرار خودی'' سے بہت محظوظ ہوا تھا۔ اس نے اطالیہ کے نوجوانوں کو کوئی پیغام دینے کی درخواست کی۔ اس درخواست کو علامہ نے قبول کر لیا اور اطالیہ کے نوجوانوں کو ہمت و جرأت اور ترقی کرنے کا پیغام دیا۔
اقبال نے مسولینی کو یہ بھی بتایا کہ جن حالات سے اطالیہ گزر رہا ہے اس طرح کے حالات سے ظہور اسلام سے پہلے ایران کو بھی گزرنا پڑا تھا جب ایران میں تہذیب و تمدن زوال پذیر تھا تو عرب کی محنت کش قوم نے ایرانیوں کو نیا خون مہیا کر کے تہذیب و تمدن کے ساکن و جامد چشمے میں تموج پیدا کیا، اٹلی کو بھی نئی زندگی اور حیات تازہ پانے کے لیے ایسی ہی نئی امنگ اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا اور خودی کی تعلیم دی۔ علامہ نے خودی کے بارے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ خودی تین حالتوں سے گزرنے کا نام ہے۔
مشیت الٰہیہ کے سامنے جھکنا۔ گویا اطاعت خداوندی دوسری حالت اپنی ذات پر قابو پانا، یعنی ضبط نفس اور تیسرا یہ کہ دنیا میں اللہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے فرائض ادا کرنا اور اس کے ساتھ فطرت اور تمام نوع انسان کے حالات کو سمجھنا ، انا یا خودی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہر چیز ہے محو خود نمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
خودی کیا ہے؟ راز دروں حیات
خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات
شروع شروع میں اقبال نے جو بھی نظمیں نذر سامعین کیں وہ تحت اللفظ میں تھیں لیکن حاضرین و عاشقین اقبال کی فرمائش اور بے حد اسرار پر علامہ نے ترنم سے پڑھیں لوگ مشاعرے میں اقبال کا ترنم سن کر جھومنے لگے۔ جلسہ حمایت الاسلام لاہور میں جب بھی اقبال اپنی نظم پڑھتے تو اس موقعے پر ہزاروں سامعین و قدردان جمع ہو جاتے اور جب تک علامہ اپنا کلام سناتے، مجمع پر سناٹا چھایا رہتا، لوگ دم بخود ہو کر سنتے رہتے۔
فارسی میں جو علامہ کی کتابیں ہیں وہ ہیں ''اسرار خودی''، ''رموز بے خودی'' اور ''پیام مشرق''۔ فارسی کے ذریعے اقبال کی شاعری تمام اسلامی دنیا میں پہنچ گئی اسی وسیلے سے یورپ اور امریکا والے اس عظیم شاعر سے متعارف ہوئے۔ اکثر اخبارات و جرائد میں ڈاکٹر محمد اقبال کو ترجمان حقیقت سے یاد کیا جاتا ہے۔
آج علامہ اقبال کی شاعری، شخصیت اور خیال و افکار کی پوری دنیا میں دھوم ہے ان کے انتقال کے موقعے پر ان کے استاد ڈاکٹر سر طامس آرنلڈ نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور استفادہ بہت وسیع تھا وہ خود ایک عظیم مفکر تھے، نوبل پرائز یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی خراج تحسین پیش کیا اور بھی بہت سے مفکرین و معلمین نے ان کی قابل قدر صلاحیتوں کا اعتراف خلوص دل کے ساتھ کیا کہ ان کا کام اور نام اس ہی قابل تھا۔ کاش ہم سب ان کے پیغام کو سمجھیں اور ان کا پیغام اسلام کا ہی پیغام ہے۔