کون کہتا ہے قوم متحد نہیں

ہمیں متحد رکھنے کا سہرا ہندوستان کے سر ہے۔ پہلے جہاد کشمیر، پھر 1965ء کی اور اس کے بعد...


ظفرالحق میمن November 20, 2013

ہمیں متحد رکھنے کا سہرا ہندوستان کے سر ہے۔ پہلے جہاد کشمیر، پھر 1965ء کی اور اس کے بعد 1971ء کی جنگ۔ اس کے علاوہ ہم ننگ دھڑنگ آزاد ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ سطور لکھنے سے چند منٹ پہلے میں فیس بک پر ایک پنڈت کا ایک اجتماع کو خطاب دیکھ رہا تھا، جس میں وہ آنحضورؐ کی ذات اقدس کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا تھا۔ لیکن ابتدا میں اس نے ایک نہایت افسوسناک واقعے کا بھی ذکر کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے کسی مسلمان دوست سے ملنے گیا۔ وہ مسلمانوں کا محلہ تھا۔ وہ اپنے اسی پنڈتوں والے لباس میں تھا۔ اتنے میں اوپر کی منزل کے گھر سے کسی نے اس پر پان کی پیک پھینکی۔ اس نے کہا پہلے تو مجھے بہت غصہ آیا کہ کیا یہ مسلمان اتنے تنگ دل ہیں کہ میرا ان کی گلی سے گزرنا بھی گوارا نہیں تھا، کیا یہی اسلام ہے، لیکن بعد میں مجھے یاد آیا کہ اِن مسلمانوں کا نبی تو وہ تھا جس پر ایک عورت کوڑا پھینکتی تھی اور جس دن اس نے نہیں پھینکا تو وہ اس کی عیادت کرنے چلے گئے ۔ لہٰذا اسلام تو اتنا برا نہیں ہو سکتا۔

پاکستان بنتے ہی ہم ایک دم یہ بھول گئے کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا تھا۔ ہمارے لیڈروں نے تو ہمیں بڑے اسلامی خواب دکھائے تھے، کہ انگریز کا قانون ختم کر کے اسلامی نظام قائم کریں گے، جہاں مساوات محمدی ہو گی، قانون امیر اور غریب سب کے لیے یکساں ہو گا، سزائیں بھی اسلامی قانون کے تحت ہوں گی۔ لیکن کیا ہوا، یہ سب آپ کو معلوم ہے، مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف قرارداد مقاصد پاس کر کے ہم مبرا ہو گئے۔ اس پر کسی نے کوئی عمل نہیں کرایا۔ البتہ چوری میرا پیشہ ہے، نماز میرا فرض ہے والی قرارداد پر خوب عمل ہونا شروع ہوا اور آج تک ہو رہا ہے۔ قارئین! ہم میں سے کچھ کو شاید پاکستانی فلم سازی کے ابتدا کے زمانے والی فلم (غالباً) ''سرفروش'' یا د ہو گی، جس میں ہیرو سنتوش کمار رات کے پچھلے پہر چوری کرنے کی نیت سے کسی گھر میں گھسا۔ اتفاقاً ہیروئن (آج والی افغانستان سے تحفے میں آنے والی نہیں)، صبیحہ خانم کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے چور کو للکارا۔ حسن اتفاق سے اسی وقت اذان کی آواز آ گئی، تو چور صاحب نے مالکن سے جائے نماز مانگی۔ ہیروئن نے اس سے کہا کہ تم چوری بھی کر رہے ہو اور نماز بھی پڑھتے ہو، تو اس چور نے بڑا تاریخی ڈائیلاگ بولا، جس کو ہماری قوم نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل بنا دیا، یعنی ''چوری میرا پیشہ ہے، نماز میرا فرض'' (شاید اسی ڈائیلاگ پر صبیحہ خانم سنتوش کو اپنا دل دے بیٹھیں اور ان سے شادی کر لی)۔ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور رشوتیں بھی لیتے ہیں، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کر کے کھانے پینے کی اشیاء رمضان المبارک کے مہینے میں مہنگے داموں بیچتے ہیں، جب کہ جن کو ہم کافر کہتے ہیں، وہ نہ صرف اپنے ایسٹر یا کرسمس میں چیزیں سستی کرتے ہیں بلکہ اب تو مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام، جو ان کے ممالک میں رہتی ہیں، ان کے تہواروں پر بھی وہ سستی چیزوں کے الگ اسٹال لگاتے ہیں۔

ابھی ہی کی مثال لے لیجیے ۔ راولپنڈی میں کرفیو لگا، وقفے میں جب لوگ بازاروں میں اشیائے خورونوش خریدنے کے لیے نکلے تو ان کی قیمتیں سن کر نہ صر ف ان کے ہاتھوں کے طوطے بلکہ کوّے، فاختائیں سب ہی اڑ گئیں، جب انھوں نے دیکھا کہ قیمتیں دو دن پہلے کے مقابلے میں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ بیوپاریوں نے کہا، جی مال کی قلت ہے ۔ مانا کہ مال کی قلت تھی، لیکن در حقیقت وہ مال تو ان بیوپاریوں کو اس سے پہلے والے داموں پر ملا تھا نا؟ لیکن نہیں، چوری میرا پیشہ ہے، نماز میرا فرض ہے۔

ایک سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں۔ میرے ایک عزیز سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو رہے تھے۔ وہ اپنے پنشن کے کاغذات بنوانے کے لیے متعلقہ دفتر گئے۔ متعلقہ افسر نے رشوت مانگی۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ میرا وہ عزیز ایماندار آدمی تھا، اس نے کبھی بھی رشوت نہیں لی تھی، لیکن اب وہ دینے کے لیے مجبور تھا۔ ابھی بھاؤ تاؤ ہو رہا تھا کہ اس افسر کو یاد آیا کہ نماز چاشت کا وقت ہو گیا ہے ۔ اس نے معذرت کی اور کرسی کا رخ قبلہ رو کر کے، نماز ادا کی اور فارغ ہو کر، رشوت کی رقم بھی فائنل کی۔ اس طرح اس نے سنتوش کمار والے ڈائیلاگ پر من و عن عمل کر کے دکھایا۔ یہ عمل ہمارے ہر شعبے میں رائج ہے، چاہے سیاستدان ہو، چاہے بیوپاری ہو، چاہے سرکاری عملدار ہو، چاہے رکشہ، ٹیکسی والا ہو۔

جہاں ہم رشوت خوری، چور بازاری میں متحد ہیں، وہاں ہم اپنے گلی محلوں کو گندہ رکھنے میں بھی متحد ہیں۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن ہم گندگی کو بھی ایمان کا (باقی) نصف ایمان سمجھ کر قومی سطح پر حفظان صحت کا خیال نہیں رکھتے۔ گھر میں تو اگلدان رکھے ہوئے ہیں، لیکن گلیوں، بازاروں، سرکاری دفاتر کی دیواروں کو ہم پان کی پیکوں سے مزین کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری حکومت کے قانون کے مطابق گٹکے کی فروخت جرم ہے، لیکن کیا ہم اس کی پیداوار یا بننے کی جگہوں پر چھاپے مار کے اس کی پیداوار کو ختم نہیں کر سکتے؟ لیکن کیا کر یں کہ وہاں بھی وہ رہنما اصول، چوری پیشہ اور نماز فرض، آڑے آ جاتا ہے۔ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہے، تمباکو نوشی مضر ِصحت ہے۔ در حقیقت وہ خواہ دیگر نشہ آور چیزیں تو ایک آہستہ آہستہ زہر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پان، گٹکے اور سگریٹ کے ساتھ ایک ایسی ڈبیہ بھی رکھی جائے جس میں زہر بھی رکھا ہو اور خریدار سے کہا جائے کہ چٹکی بھر زہر بھی ساتھ ساتھ کھا لیا کرو، زندگی آرام سے ختم ہو جائے گی۔ ڈاکٹر حضرات خواہ حکومت کی طرف سے میڈیا پر لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے سرطان کی بیماری ہوتی ہے، لیکن ہم اس بات پر متحد ہیں کہ ہم تو یہ چیزیں استعمال کریں گے ہی، چاہے کچھ بھی کہتے رہو۔

موٹر سائیکل خواہ دیگر گاڑیاں چلاتے وقت موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے، لیکن جی، ہم تو استعمال کریں گے بلکہ موٹر سائیکل چلانے والوں کی گردنیں تو مڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ان کی آیندہ پیدا ہونے والی اولاد بھی مڑی ہوئی گردنوں والی نا ہو۔ پھر بھی اس بات پر متحد ہیں کہ، ہم تو ایسا کریں گے '' جو کننا ہے کللو'' (جو کرنا ہے، کر لو)۔

بیچ سڑک کیلے کا چھِلکا پھینکنے والے، غلط موٹر سائیکل یا گاڑی پارک کرنے والے کو بھی اسلامی نظام قائم نہ کرنے کا شکوہ ہے۔ کچھ سال پہلے ٹی وی پر ایک نصیحت آموز ڈاکومنٹری دکھائی جاتی تھی، جس میں ایک آدمی بلڈ بینک کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کر کے، اپنے کسی پیارے کے لیے خون کی بوتل لے کر باہر نکلتا ہے، تو اس کی گاڑی کے بالکل پیچھے کوئی صاحب اپنی گاڑی اس طرح کھڑی کر کے چلا جاتا ہے، کہ وہ آدمی اپنی گاڑی نکال نہیں سکتا۔ نتیجے میں اس کا پیارا اسپتال میں اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم اس بات پر متحد ہیں کہ ہم تو اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی غلط پارک کریں گے ہی ''جو کرنا ہے کر لو۔''

اب آئیے ہماری معیشت پر۔۔۔۔۔ ہم نے پہلا ہی دن سادگی اور اپنے وسائل پر انحصار کرنے سے شروع نہیں کیا۔ ہم نے کہیں سے تیل کی خیرات، کہیں سے گندم کی خیرات لے کر زندگی گزارنا شروع کی۔ اپنی گلیوں کے گٹر صاف کرنے کے لیے بھی ہمیں بیرونی امداد کی ضرورت ہے۔ اور پھر اس بیرونی امداد کا کتنا فی صد ان کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور کتنا فی صد رشوت کی نذر ہو جاتا ہے، یہ بھی ہمیں انھی ممالک کی حکومتوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے، جو اعداد و شمار وہ ہی وقتاً فوقتاً جاری کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ان ممالک کو معلوم ہے کہ ان کا دیا ہوا پیسہ صحیح طور پر استعمال نہیں ہو رہا ہے، تو وہ دیتے ہی کیوں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں