سخت سردی کا تیس سالہ دور
سورج آگ کا ایک گولہ ہے جس کے مرکز میں ہائیڈروجن جل کر ہیلیم میں مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔
زمین ایک ایسے دور میں داخل ہونے جارہی ہے جہاں سورج اپنی تمازت،اپنی تپش اور اپنی توانائی کی کم ترین سطح پر ہو گا۔ یہ دور ہمارے ستارے سورج کے لیے ایک ایسا Dormant دور ہو گا جب اس کی ایکٹیویٹی Activity) ( تقریباً نہ ہونے کے برابر اور اس کی شعائیں ہماری طرف بہت کم توانائی اور تپش لیے ہوئے آئیں گی۔
سورج آگ کا ایک گولہ ہے جس کے مرکز میں ہائیڈروجن جل کر ہیلیم میں مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چھ سو ملین ٹن ہائیڈروجن ہر ایک سیکنڈ میں جل کر ہیلیم گیس بنا رہی ہے۔جب سورج کا مرکز ہیلیم سے بھر جاتا ہے تو وہ سکڑتا ہے۔
سکڑنے سے نیوکلر فیوین ری ایکشن عمل بہت تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سورج سے زیادہ توانائی، گرمی اور تپش کا اخراج ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم انتباہ کر رہے ہیں، چتاونی دے رہے ہیں کہ سورج کے اوپر ہائیڈروجن جلنے کی ایکٹیویٹی اپنے کم ترین سطح پر ہونے جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ قوی امکان ہے کہ ہم زمین کے باسی ایک بہت چھوٹے پیمانے پر برفانی دور سے گزریں۔ اس دور میں زمین کے بہت سارے خطے سخت سرد طوفانوں کی زد میں آ جائیں گے، سردیوں کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے اور یہ سلسلہ کم و بیش 30 سال پر محیط ہو گا۔
امریکا کے مشہور خلائی ادارے ناسا نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اس سال2020سے سورج کے معمول کے عمل میں اتنی کمی واقع ہو نی شروع ہو جائے گی کہ پچھلے دو سو سال کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ سورج جب اپنے قدرتی Hibernation دور میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ اب اس سال سے داخل ہوا ہے تو زمین سخت سردیوں کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ زمین پر پائی جانے والی تمام نباتات، جمادات اور حیوانات کو سورج کی توانائی کی ایک کم سے کم مقدار ضرور ملتی رہنی چاہیے ورنہ نشو ونما ماند پڑ جاتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں یا تو کاشت ہی نہیں ہو سکتیں یا پھر ان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔
زمین پر انسانی آبادی میں روز افزوں بڑھوتی ہوتی جا رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ زیادہ خوراک کی طلب ہے۔ ایسے میں یہ موسمیاتی تغیر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس موسمیاتی تغیر سے زمین کا عمومی درجہٗ حرارت ایک ڈگری یا اس کے لگ بھگ گِر جائے گا۔ 2020سے ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بظاہر تو اتنا فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن پورے سال اگر درجہ حرارت یوں ہی ایک ڈگری معمول سے کم رہے تو اس کا خاصا اثر پڑتا ہے۔ ناسا کے مطابق 2020میں شروع ہونے والا یہ عمل 2025 میں اپنی انتہائی شدت اختیار کر سکتا ہے۔ 2025میں سورج کی حدت اپنی معمول کی حدت سے 30 فیصد کم ہونے کی توقع ہے۔
یہ کم ترین ایکٹیویٹی، سورج کی قدرتی زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر یہ عمل ہر گیارہ سال بعد دہرایا جاتا ہے۔ ہمارے اس موجودہ سال سے وہ وقت شروع ہو جائے گا جسے سائنسدان گرینڈ سولر مِنی مم Grand solar Minimum) (کا نام دے رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران سورج کی شعائیں خاصی ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں۔ سورج سے زمین تک پہنچنے والی تپش اور توانائی معمول سے گر جاتی ہے۔ یہ گرینڈ سولر منی مم تقریباً ہر چار سو سال کے بعد ہوتا ہے۔ نارتھمبریا یونیورسٹی کی ماہر زر کووا ویلنشیا نے اس سلسلے میں ایک گفتگو کے دوران بتایا کہ یہ چھوٹا سا برفانی دور ہو گا جس کے دوران سردیوں کا دورانیہ لمبا ہو گا۔
زمین کے اکثر خطوں میں بھرپور بارشیں متوقع ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سرد دور 2053 کے آس پاس جا کر ختم ہو گا جب سورج اپنی معمول کی ایکٹیویٹی پھر سے شروع کرنے کے قابل ہو گا۔ اس خاتون ماہر نے مزید بتایا کہ یہ بہت ہی چھوٹا برفانی دور پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور کینیڈا و آئس لینڈ میں اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم یخ بستہ ہواؤں اور جما دینے والی سردی سے دوچار ہوں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آخری گرینڈ سولر منی مم جس کو معانڈر منی مم Muander minimum) (بھی کہتے ہیں وہ 1645 سے شروع ہو کر 1715تک جاری رہا یعنی چار سو سال پہلے یہ کوئی ستر سال پر محیط تھا۔
گرینڈ سولر مِنی مم ریسرچ کی قیادت ارینانے کی جو جو ناسا کے کیلیفورنیا انوائرنمنٹ انسٹیٹیوٹ میں کام کرتی ہیں۔ اس ریسرچ میں ناسا کے دو مشنز کے ذریعے حاصل ہونے والے مشاہدات سے استفادہ کیا گیا۔ اس ریسرچ میں 1976 سے ابتک امریکا کی قومی شمسی رسدگاہ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو بھی کام میں لایا گیا ہے۔ ان کارروائیوں اور عوامل کو ماپنے اور ناپنے کے لیے اضافی عوامل کا سہارا لیا جاتا تھا جیسے سورج کے اوپر نظر آنے والے سن اسپاٹس یا دھبے۔ ارنیا کا کام کرنے کا طریقہ کار سورج کی ایکٹیویٹی جانچنے اور پیش گوئی کرنے کے پہلے طریقوں سے مختلف رہا ہے۔
پہلے ان اسپاٹس کی تعداد سے سورج کی مقناطیسی فیلڈ کا اندازہ لگایا جاتا تھا جب کہ نئے طریقہ کار میں سورج کی مقناطیسی فیلڈ کا براہِ راست مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2008 میں پہلی بار اس طریقے سے سورج کی ایکٹیویٹی کی پیشین گوئی کی گئی، یوں بیش بہا قیمتی معلومات حاصل ہوئیں جنھوں نے پچھلے دس سال میں بالکل ٹھیک موسمیاتی اندازے لگانے میں مدد کی۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ نیا طریقہ بہت کارآمد ہے۔ سورج کی کم ترین کارروائی معلوم ہو جانے کا سائنس دانوں کو ایک براہِ راست فائدہ یہ ہو گا کہ وہ سولر سسٹم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجے جانے والے اسپیس مشنز کو پلان کر سکیں گے کیونکہ کم ترین حدت کے دور میں سورج کی اندرونی ماہیت جانچنے کا نادر موقع ہو گا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے1790 سے 1830 کے درمیان ڈالٹن منی مم نے عالمی سطح پر معمول سے کافی کم درجہ حرارت ریکارڈ کروائے۔ مختلف جرمن شہروں میں درجہ حرارت مسلسل 20 سال تک دو ڈگری کم رہا۔ ڈالٹن کے دور میں زلزلوں اور سونامیوں کی وجہ سے انڈونیشیا میں کئی ہزار اموات ہوئیں۔ یورپ میں جن دنوں یوں تباہی پھیل رہی تھی انھی دنوں نیپولین کی جنگوں کی وجہ سے یورپ اور امریکا کے لوگوں کا دھیان ان جنگوں کی طرف ہو گیا ۔ ورجینیا کے ایک شہری نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ جون میں نئے سرے سے برف باری ہوئی۔ 4جولائی کو پانی جم گیا اور ایک بار پھر برف باری ہوئی۔
پنسلوینیا اور نیو انگلینڈ کے تالابوں اور جھیلوں میں جولائی اگست کے مہینوں میں پانی جم جانے کا ریکارڈ ملتا ہے۔ اس دوران وہ فصلیں جو پیدا ہو گئی تھیں فراسٹ کی وجہ سے مر گئیں۔ فصلیں دوبارہ بوئی گئیں مگر وہ سر ہی نہ نکال سکیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ آئرلینڈ میں آلو کی فصل زمین کے اندر ہی گل سڑ گئی۔ چین میں لاکھوں لوگ لقمہٗ اجل بنے۔ ایشیا میں موسلادھار بارشوں سے سیلاب آ گئے، ہیضہ پھیل گیا۔ قارئینِ کرام یہ سب سائنسی ڈیٹا مستقبل کی پلاننگ میں بہت ممدو معاون ہو سکتا ہے۔ خدا کرے ہم اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔
سورج آگ کا ایک گولہ ہے جس کے مرکز میں ہائیڈروجن جل کر ہیلیم میں مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چھ سو ملین ٹن ہائیڈروجن ہر ایک سیکنڈ میں جل کر ہیلیم گیس بنا رہی ہے۔جب سورج کا مرکز ہیلیم سے بھر جاتا ہے تو وہ سکڑتا ہے۔
سکڑنے سے نیوکلر فیوین ری ایکشن عمل بہت تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سورج سے زیادہ توانائی، گرمی اور تپش کا اخراج ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم انتباہ کر رہے ہیں، چتاونی دے رہے ہیں کہ سورج کے اوپر ہائیڈروجن جلنے کی ایکٹیویٹی اپنے کم ترین سطح پر ہونے جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ قوی امکان ہے کہ ہم زمین کے باسی ایک بہت چھوٹے پیمانے پر برفانی دور سے گزریں۔ اس دور میں زمین کے بہت سارے خطے سخت سرد طوفانوں کی زد میں آ جائیں گے، سردیوں کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے اور یہ سلسلہ کم و بیش 30 سال پر محیط ہو گا۔
امریکا کے مشہور خلائی ادارے ناسا نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اس سال2020سے سورج کے معمول کے عمل میں اتنی کمی واقع ہو نی شروع ہو جائے گی کہ پچھلے دو سو سال کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ سورج جب اپنے قدرتی Hibernation دور میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ اب اس سال سے داخل ہوا ہے تو زمین سخت سردیوں کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ زمین پر پائی جانے والی تمام نباتات، جمادات اور حیوانات کو سورج کی توانائی کی ایک کم سے کم مقدار ضرور ملتی رہنی چاہیے ورنہ نشو ونما ماند پڑ جاتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں یا تو کاشت ہی نہیں ہو سکتیں یا پھر ان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔
زمین پر انسانی آبادی میں روز افزوں بڑھوتی ہوتی جا رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ زیادہ خوراک کی طلب ہے۔ ایسے میں یہ موسمیاتی تغیر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس موسمیاتی تغیر سے زمین کا عمومی درجہٗ حرارت ایک ڈگری یا اس کے لگ بھگ گِر جائے گا۔ 2020سے ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بظاہر تو اتنا فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن پورے سال اگر درجہ حرارت یوں ہی ایک ڈگری معمول سے کم رہے تو اس کا خاصا اثر پڑتا ہے۔ ناسا کے مطابق 2020میں شروع ہونے والا یہ عمل 2025 میں اپنی انتہائی شدت اختیار کر سکتا ہے۔ 2025میں سورج کی حدت اپنی معمول کی حدت سے 30 فیصد کم ہونے کی توقع ہے۔
یہ کم ترین ایکٹیویٹی، سورج کی قدرتی زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر یہ عمل ہر گیارہ سال بعد دہرایا جاتا ہے۔ ہمارے اس موجودہ سال سے وہ وقت شروع ہو جائے گا جسے سائنسدان گرینڈ سولر مِنی مم Grand solar Minimum) (کا نام دے رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران سورج کی شعائیں خاصی ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں۔ سورج سے زمین تک پہنچنے والی تپش اور توانائی معمول سے گر جاتی ہے۔ یہ گرینڈ سولر منی مم تقریباً ہر چار سو سال کے بعد ہوتا ہے۔ نارتھمبریا یونیورسٹی کی ماہر زر کووا ویلنشیا نے اس سلسلے میں ایک گفتگو کے دوران بتایا کہ یہ چھوٹا سا برفانی دور ہو گا جس کے دوران سردیوں کا دورانیہ لمبا ہو گا۔
زمین کے اکثر خطوں میں بھرپور بارشیں متوقع ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سرد دور 2053 کے آس پاس جا کر ختم ہو گا جب سورج اپنی معمول کی ایکٹیویٹی پھر سے شروع کرنے کے قابل ہو گا۔ اس خاتون ماہر نے مزید بتایا کہ یہ بہت ہی چھوٹا برفانی دور پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور کینیڈا و آئس لینڈ میں اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم یخ بستہ ہواؤں اور جما دینے والی سردی سے دوچار ہوں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آخری گرینڈ سولر منی مم جس کو معانڈر منی مم Muander minimum) (بھی کہتے ہیں وہ 1645 سے شروع ہو کر 1715تک جاری رہا یعنی چار سو سال پہلے یہ کوئی ستر سال پر محیط تھا۔
گرینڈ سولر مِنی مم ریسرچ کی قیادت ارینانے کی جو جو ناسا کے کیلیفورنیا انوائرنمنٹ انسٹیٹیوٹ میں کام کرتی ہیں۔ اس ریسرچ میں ناسا کے دو مشنز کے ذریعے حاصل ہونے والے مشاہدات سے استفادہ کیا گیا۔ اس ریسرچ میں 1976 سے ابتک امریکا کی قومی شمسی رسدگاہ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو بھی کام میں لایا گیا ہے۔ ان کارروائیوں اور عوامل کو ماپنے اور ناپنے کے لیے اضافی عوامل کا سہارا لیا جاتا تھا جیسے سورج کے اوپر نظر آنے والے سن اسپاٹس یا دھبے۔ ارنیا کا کام کرنے کا طریقہ کار سورج کی ایکٹیویٹی جانچنے اور پیش گوئی کرنے کے پہلے طریقوں سے مختلف رہا ہے۔
پہلے ان اسپاٹس کی تعداد سے سورج کی مقناطیسی فیلڈ کا اندازہ لگایا جاتا تھا جب کہ نئے طریقہ کار میں سورج کی مقناطیسی فیلڈ کا براہِ راست مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2008 میں پہلی بار اس طریقے سے سورج کی ایکٹیویٹی کی پیشین گوئی کی گئی، یوں بیش بہا قیمتی معلومات حاصل ہوئیں جنھوں نے پچھلے دس سال میں بالکل ٹھیک موسمیاتی اندازے لگانے میں مدد کی۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ نیا طریقہ بہت کارآمد ہے۔ سورج کی کم ترین کارروائی معلوم ہو جانے کا سائنس دانوں کو ایک براہِ راست فائدہ یہ ہو گا کہ وہ سولر سسٹم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجے جانے والے اسپیس مشنز کو پلان کر سکیں گے کیونکہ کم ترین حدت کے دور میں سورج کی اندرونی ماہیت جانچنے کا نادر موقع ہو گا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے1790 سے 1830 کے درمیان ڈالٹن منی مم نے عالمی سطح پر معمول سے کافی کم درجہ حرارت ریکارڈ کروائے۔ مختلف جرمن شہروں میں درجہ حرارت مسلسل 20 سال تک دو ڈگری کم رہا۔ ڈالٹن کے دور میں زلزلوں اور سونامیوں کی وجہ سے انڈونیشیا میں کئی ہزار اموات ہوئیں۔ یورپ میں جن دنوں یوں تباہی پھیل رہی تھی انھی دنوں نیپولین کی جنگوں کی وجہ سے یورپ اور امریکا کے لوگوں کا دھیان ان جنگوں کی طرف ہو گیا ۔ ورجینیا کے ایک شہری نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ جون میں نئے سرے سے برف باری ہوئی۔ 4جولائی کو پانی جم گیا اور ایک بار پھر برف باری ہوئی۔
پنسلوینیا اور نیو انگلینڈ کے تالابوں اور جھیلوں میں جولائی اگست کے مہینوں میں پانی جم جانے کا ریکارڈ ملتا ہے۔ اس دوران وہ فصلیں جو پیدا ہو گئی تھیں فراسٹ کی وجہ سے مر گئیں۔ فصلیں دوبارہ بوئی گئیں مگر وہ سر ہی نہ نکال سکیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ آئرلینڈ میں آلو کی فصل زمین کے اندر ہی گل سڑ گئی۔ چین میں لاکھوں لوگ لقمہٗ اجل بنے۔ ایشیا میں موسلادھار بارشوں سے سیلاب آ گئے، ہیضہ پھیل گیا۔ قارئینِ کرام یہ سب سائنسی ڈیٹا مستقبل کی پلاننگ میں بہت ممدو معاون ہو سکتا ہے۔ خدا کرے ہم اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔