آلودگی سے پاک ٹریفک نظام
کثیر آبادیاتی شہر کراچی کی آبادی میں تیز رفتار اضافے کے سبب شہر میں بلند و بالا رہائشی اور تجارتی...
کثیر آبادیاتی شہر کراچی کی آبادی میں تیز رفتار اضافے کے سبب شہر میں بلند و بالا رہائشی اور تجارتی عمارتوں کی تعمیر نے جنم لیا۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ حکومت کی طرف سے عوامی مسائل کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ اگر کسی شہر کی ترقی دیکھنی ہو تو وہاں کے ٹریفک کا نظام دیکھ لیں۔ دوسری جانب پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ یقینا عام صارف کی محدود آمدنی پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔ پٹرول کے نعم البدل سی این جی کی ہفتے میں تین دن بند ش کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنز پر لگنے والا بے پناہ رش دیکھنے کو ملتا ہے جو بلاشبہ غیر انسانی فعل سے کم نہیں۔ بعض کاروباری مراکز کے باہر مقامی انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے پتھارے داروں کا ہجوم اور غلط پارکنگ نظام نے ٹریفک کی روانی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ٹریفک کا طویل وقت کے لیے جام رہنا ظاہر ہے صارف کو مالی خسارے کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
حالانکہ کراچی کے مصروف ترین بعض مقامات پر شہری اداروں کی کوششوں سے فلائی اوورز بھی تعمیر کر دیے گئے ہیں جن میں کچھ ابھی زیر تعمیر ہیں جو نامعلوم وجوہات کی بناء پر تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں شارع پاکستان اور لیاقت آباد کے فلائی اوورز کی تعمیر نہایت سست روی سے جاری ہے مگر ان کوششوں کے باوجود ٹریفک کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ بدقسمتی سے بلدیاتی انتخابات میں مرکزی حکومت کی تاخیر کی وجہ سے بلدیاتی شہری اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ شہر کے پارکس، باغات اجڑ چکے ہیں اور شہر میں جگہ جگہ سڑتے ہوئے کچرے کے ڈھیر اور ابلتی ہوئی گٹر لائنوں نے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت ملک میں فوری بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروائے تا کہ عوام کو سُکھ کا سانس مل سکے۔ اگر ہم ترقیاتی کاموں کا موازنہ صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ پچھلے برسوں میں لاہور کی آبادی میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے مگر اس سلسلے میں پنجاب کی حکومت آلودگی سے پاک تیز رفتار اور آرام دہ محفوظ سفری سہولیات کا ایسا نظام متعارف کروا رہی ہے جو اس سے پہلے پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہیں۔
اس نظام کے تحت حالیہ تعمیر شدہ میٹرو بس سروس پروجیکٹ جو گجومتہ اور شاہدرہ کے درمیان بیس ارب روپے کی لاگت سے تیار کیا جانے والا 27 کلومیٹر طویل تیز رفتار میٹرو بس ٹریک (corridor) یوریشین سرزمین ترکی اور پاکستان کے شاندار سفارتی تعلقات کی گواہی دیتا ہے۔ کار، موٹر سائیکل پارکنگ، جدید ٹکٹنگ نظام، صاف ستھرے بیت الخلاء، الیکٹرانک سیڑھیاں (Escalator) کی سہولیات سے مزین اس ٹریک کا باقاعدہ آغاز چین سے درآمد شدہ 45 لگژری بسوں کی ایک کھیپ کے ساتھ ترکی کے نائب وزیر اعظم (بیکر بوزدگ) اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی معاونت سے 13 فروری 2013 ء کے افتتاح سے ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 60 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ شہری بغیر کسی طویل قطار کے قلیل سی رقم بیس روپے کی ادائیگی کے عوض دو طرفہ ٹریک پر قائم 29 ٹرمینل اسٹیشنز کے ذریعے شہر کے دور اُفتادہ مقامات تک بآسانی اور آرام دہ رسائی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس ٹریک کا بیشتر حصہ فیروز پور روڈ سے منسلک ہے۔
یاد رہے فیروز پور روڈ لاہور کی طویل ترین شاہراہ ہے جو پنجابی زبان کے صوفی شاعر بابا بُلھے شاہ کے شہر ''قصور'' سے ہوتی ہوئی ہندوستان کی سرحد گنڈہ سنگھ والا بارڈر سے جا ملتی ہے۔ ہندوستان کے سرحدی شہر فیروز پور سے یہ طویل سڑک موسو م ہے۔ پانچ سے دس منٹ کے مختصر وقفہ سے ملنے والی اس بس کی خاص بات یہ ہے ان کی لمبائی 18میٹر ہے جو عام بسوں سے 6 میٹر لمبی ہے۔ کنڈیکٹر فری اس بس سروس کے E-Ticket نظام کے ذریعے اسمارٹ کارڈ یا کوپن کے ذریعے کرائے کی ادائیگی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ پورے ٹریک کو مضبوط فلائی اوورز اور لوہے کی بائونڈری سے محفوظ کیا گیا ہے۔ مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ فیروز پور روڈ پر میٹرو بس کو عام چوراہوں کے سگنل کا سہارا لینا اس عظیم عوامی فلاحی پروجیکٹ کی افادیت اور شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے اس پر بھی صوبائی حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے۔
لاہور کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پنجاب حکومت کی ترجیحی بنیادوں پر ٹریفک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو درست سمت میں کامیاب کاوشیں یقینا لائقِ تحسین ہیں۔ ظاہر ہے کام پر جانے والوں کی بیشتر تعداد کے لیے اپنی گاڑی کا نعم البدل میٹرو بس کا بر وقت اور آرام دہ سفر ہے جو سڑکوں پر ٹریفک کے دبائو میں کمی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ میٹرو بس سروس جیسے ہی کامیاب پروجیکٹس شہر کو آلودگی اور ناگہاں ٹریفک حادثات سے پاک ماحول مہیا کر سکتے ہیں گو کہ اس پروجیکٹ کی لاہور والوں کی نظر میں اتنی اہمیت نہ ہو مگر ہم سمجھتے ہیں ایسے عوامی فلاحی پروجیکٹس کی تعمیر کراچی جیسے مصروف ترین شہر میں اشد ضرورت ہے جو کراچی کے شہریوں کے لیے ایک سہانا خواب ہی ہو سکتا ہے جس کی تعبیر کراچی میں موجود طاقتور مافیا کے مکمل خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ کراچی میں چڑھتے اُترتے ہوئے فلائی اوورز ٹریفک کی روانی میں تعطل دور کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔