حلیفوں کا ساتھ آسان نہیں

اب تک تو ایسا نہیں ہوا کہ حلیفوں کے چھوڑ جانے پرکوئی وفاقی حکومت ختم ہوئی ہو۔

دنیا بھر میں مخلوط حکومتیں قائم ہوتی ہیں اور اصولوں پر چلتے ہوئے اپنی مدت پوری کرتی ہیں ، یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی مخلوط حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں اور اب تک تو ایسا نہیں ہوا کہ حلیفوں کے چھوڑ جانے پرکوئی وفاقی حکومت ختم ہوئی ہو، البتہ ملک میں متعدد صوبائی حکومتیں ضرور ختم ہوتی آئی ہیں مگر یہ صوبائی تبدیلی ہمیشہ اوپرکے اشاروں پر ہی ہوتی آئی ہے جب کہ ملک میں وزیر اعظم کے خلاف کبھی کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی جس کی اہم وجہ وفاقی حکومت کا مضبوط ہونے کے ساتھ وسائل پر قبضہ بھی ہے۔

اہم محکمے وفاق کے پاس ہوتے ہیں اور صدر مملکت ہمیشہ سے پاک فوج کا سپریم کمانڈر بھی رہا ہے۔ ہر وفاقی حکومت میں وزیر دفاع بھی مقرر ہوتا آیا ہے جس سے طاقتور سیکریٹری دفاع کوکہا جاتا ہے جو 22 گریڈ تک کا افسر تو ہوتا ہے۔ عدلیہ اور دیگر اداروں کے اپنے اپنے معاملات ہیں جو ترقی کرتے کرتے ان اداروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرتے ہیں۔ صوبوں میں اکیس بائیس گریڈ کے افسر وفاق صوبوں کو بھیجتا ہے اور ان کے تبادلے وتقرریوں کا اختیار رکھتا ہے،اس لیے وفاق مضبوط ہوتا ہے۔

ملک میں حلیفوں کے ذریعے ماضی میں بھی حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں اور بہت کم ہی کسی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوتی ہے، جو مضبوط ہوتی ہیں اور موجودہ حکومتوں میں سندھ کی حکومت اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ مضبوط حکومت ہے۔ گزشتہ ساڑھے چھ سالوں میں سندھ حکومت کوکسی حلیف کی ضرورت نہیں رہی مگر پھر بھی پی پی کے چیئرمین نے ایم کیو ایم کو دوبار سندھ میں حلیف بننے کی مشروط پیش کش کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو چھوڑ دے مگر ایم کیو ایم کا حال یہ ہے کہ وہ مجبوری میں اسی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں شامل ہے جس کے ذریعے کراچی میں ایم کیو ایم کو شکست دلا کر حیرت انگیز طور پر ایم کو ایم کے مضبوط حلقوں بلکہ گڑھ نائن زیرو سے بھی پی ٹی آئی کو کامیاب کرایا گیا۔

جس پی ٹی آئی کو کراچی میں ایم کیو ایم پر بالاتری دلائی گئی تھی اسی اپنی مخالف حریف کی وفاقی حکومت میں ایم کیو ایم اپنی ایک وزارت چھوڑ کر بھی شامل رہنے پر مجبور ہے اور مسلم لیگ (ق) اور بی این پی مینگل کی طرح کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار بھی نہیں کرسکتی۔ مسلم لیگ (ق) کے پاس صرف پنجاب میں اور بی این پی کے پاس صرف بلوچستان میں نشستیں ہیں اور ایم کیو ایم کے پاس صرف شہری سندھ کی نشستیں ہیں۔ اندرون سندھ سے واضح اکثریت کے بل بوتے پر سندھ حکومت کو کسی اور حلیف کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اسے ماضی میں ایم کیو ایم کو اپنا حلیف بنانے کا تلخ تجربہ بھی ہے۔ ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ مسلم لیگ (ق) اور اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی حلیف بھی رہی اور اس نے بعض وجوہ پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومتوں کو چھوڑا تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی صدارت میں وفاق کے علاوہ پنجاب ، بلوچستان اور سندھ میں کامیاب مخلوط حکومتوں سے پہلی بار مدت مکمل کرائی تھی جب کہ دوسری میں آصف زرداری نے وفاق کے علاوہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی مخلوط حکومتیں قائم کرائیں جو پانچ سال برقرار رہیں ۔ ابتدا ہی میں مسلم لیگ (ن) کے وفاق چھوڑ جانے کے بعد بھی اپنی فراست سے مزید حلیف ملاکر پی پی حکومت سے مدت پوری کرائی اور پانچ سال خود بھی صدر مملکت رہے۔


مخلوط حکومتوں میں ہمیشہ سیاسی مفادات دیکھے جاتے ہیں اور کوئی اصول نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومتی حلیف بھی اپنے مفادات مد نظر رکھتے ہیں۔ حلیفوں کو ساتھ رکھنے کی صلاحیت جنرل پرویزکے بعد آصف زرداری میں دیکھی گئی جب کہ نواز شریف اور عمران خان میں تو حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ نواز شریف کی وفاقی حکومت جے یو آئی کی اور حمایتیوں کی مدد سے مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ پنجاب میں شہباز شریف نے حلیفوں کی شکایات کے باوجود پنجاب میں دس سال حکومت کی۔

کے پی کے میں عمران خان نے مخلوط حکومت بنائی تھی مگر یہ صلاحیت پرویز خٹک میں تھی کہ انھوں نے جماعت اسلامی کو ساتھ رکھا۔ ان کی حکومت میں آفتاب شیر پاؤ کی پارٹی کو پہلے فارغ کیا گیا پھر مفاد کے لیے دوبارہ شامل کرکے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا تھا مگر مدت ضرور مکمل کرلی تھی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں حلیفوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر مالک کی ڈھائی سالہ مدت تو پوری کرا دی تھی مگر بعد میں اپنے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کی مدت پوری نہ کراسکی تھی اور وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت ہوتے ہوئے اس کے حلیف منحرف ہوگئے تھے اور وزیر اعلیٰ کو قبل از وقت مستعفی ہونا پڑا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے پہلی بار بلوچستان میں اپنے حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی تھی جسے آصف زرداری نے پی ٹی آئی کی ملی بھگت سے کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔

آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہیں مگر اقتدار میں آکر عمران خان نے آصف زرداری سے خاموش مفاہمت ختم کردی ، جس کے بعد آصف زرداری جس چیئرمین سینیٹ کو لائے تھے وہ گزشتہ جولائی میں انھیں ہٹانے میں ناکام رہے اور پیپلز پارٹی کو مجبوراً مسلم لیگ (ن) کے قریب جانا پڑا تھا اور مفاہمت کنگ پر عمران خان بھاری پڑگئے۔ عمران خان کے وعدے پورے نہ کیے جانے پر ان کے تین اہم حلیف (ق) لیگ ، ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل ناراض ہیں مگر تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف ان سے چالاکیاں کر رہی ہے اور وزیر اعظم کا حلیفوں کے ساتھ رویہ متکبرانہ ہے اور وہ خود چوہدریوں، اختر مینگل کے پاس جانا چاہتے ہیں نہ نفیس قرار دیے گئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے پاس بہادر آباد آنا انھیں گوارا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی مفاہمتی کمیٹیاں مذاکرات کر تو رہی ہیں مگر کامیاب نہیں ہو رہے۔

مسلم لیگ (ق) کے واحد وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہمارے ذریعے اقتدار میں آکر اب حکومتی حلیفوں کو اہمیت نہیں دے رہے اور اتحادی حلیفوں کو ایک ایک وزارت دے کر مطمئن ہیں اور حلیفوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے پر بالکل توجہ نہیں دے رہے حالانکہ ان کی حلیف پارٹیوں نے بھی عوام سے ووٹ لیے ہیں اور ان کے بھی اپنے عوام سے کچھ وعدے تھے جنھیں پورا نہیں کیا جا رہا جس سے حکومتی حلیف مطمئن نہیں ہیں۔

وفاقی وزیرکا کہنا درست لگتا ہے وفاقی کابینہ میں 25 وفاقی وزیر ، چار وزیر مملکت ، 5 مشیر اور 13 معاونین خصوصی ہیں اور صرف تین غیر اہم وزارتیں حلیفوں کو دے کر 47 رکنی بڑی کابینہ بنا کر اپنے پارٹی رہنماؤں اور دوستوں کو حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ اسد عمر اور فواد چوہدری جیسے لوگوں کے ناکام ہونے کے بعد وزیر اعظم کو پی پی کے سابق وزیروں کو اہم عہدے دینے پڑے ہیں۔

حلیفوں کا ساتھ آسان واقعی نہیں ہوتا مگر اقتدار ملنے کے بعد اپنے حلیفوں کو اس طرح ناراض اور نظرانداز نہیں کیا جاتا کہ وہ ڈیڑھ سال ہی میں بیزار ہوکر مخالفانہ بیان بازی شروع کر دیں۔ موجودہ حلیفوں سے وعدے پورے نہ کر کے ان سے زیادتی کی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی ان کے مطالبات پر توجہ دینے کے بجائے ان سیسیاسی چال بازیاں کر رہی ہے جس سے حلیف وفاق میں تبدیلی لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
Load Next Story