لائنز ایریا میں کچی آبادیاں نہیں تھیں، بلکہ حکومت کی کالونیاں تھیں،جابجا تجاوزات کر کے زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا،عدالت
سندھ ہائی کورٹ نے لائنز ایریا ری ڈیولپمنٹ پراجیکٹ سے متعلق 1980 کا ماسٹر پلان آئندہ سماعت پر ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس ذوالفقار احمد خان پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو لائنز ایریا ری ڈویولپمنٹ پراجیکٹ سے متعلق سماعت ہوئی، درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ 1980 میں لائنز ایریا کے لیے ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا، اس پلان کو کے ڈی اے کے حوالے کیا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے، کے ڈی اے سے واپس لے کر اسے حکومت سندھ کے ماتحت کیا جائے، اس پراجیکٹ پر فوری عملدرآمد کے احکامات دیے جائیں، لائنز ایریا سے کچی آبادی اور تجاوزات ختم کر کے ازسر نو پلان کیا جائے، صدر شہر کا مرکزی حصہ ہے، جسے تجاوزات کر کے برباد کیا گیا ہے، عدالت نے کے ڈی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پورا علاقہ برباد کر کے اس کا نقشہ بگاڑ دیا ہے۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لائنز ایریا کی حالت دیکھی ہے؟ لائنز ایریا کو رابن ہوڈ کا جنگل بنادیا، یہ کچی آبادیاں نہیں تھیں، بلکہ حکومت کی کالونیاں تھیں، جٹ لائن،جیکب لائن، لائنز ایریا یہ تو بلوچ رجمنٹ کے خوبصورت علاقے تھے،آپ نے ان علاقوں کو کچی آبادیاں بنا دیا، ان چیزوں کی پلاننگ ایسے نہیں کی جاتی، جھگیوں بنا کر اور جابجا تجاوزات کر کے زمینوں پر قبضہ کر لیا،عدالت نے 1980 کا ماسٹر پلان آئندہ سماعت پر ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔