کراچی تا پشاور نیا ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا خواجہ سعد رفیق
300 ارب روپے کی سرمایہ کاری کیلیے ترک کمپنی سے بات چیت جاری ہے۔
وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو کسی بھی سیاسی رکاوٹ کا حصہ بننے نہیں دیا جائیگا، کراچی سرکلرریلوے کا منصوبہ اولین ترجیح ہے جس کیلیے جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) سے دوبارہ رجوع اور ریلوے کی تمام اراضیوں پرقبضے ختم کرائے جائیں گے۔
یہ بات انہوں نے وفاقی وزیربندرگاہ و جہازرانی کامران مائیکل کے ہمراہ بدھ کوکراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروںوصنعتکاروں سے خطاب کے دوران کہی، اس موقع پر بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی، وائس چیئرمین ہارون فاروقی ،زبیرموتی والا، اے کیو خلیل، کراچی چیمبر کے صدرعبداللہ ذکی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے جائیکا کی 2.5 ارب روپے فنڈنگ کی پیشکش خطرے میں پڑگئی ہے تاہم بحیثیت وزیرریلوے جائیکا سے اس ضمن میں رابطہ استوار کررکھا ہے، کراچی سرکلرریلوے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلیے سندھ حکومت، ایم کیوایم، پی ٹی آئی اور اے این پی کے ساتھ ملک کام کریں گے، پاکستان ریلوے کو سیاسی مفادات کے تابع نہیں لایا جائے گا، ریلوے میں اب نہ بدعنوانی چلے گی اور نہ ہی ریلوے کے واجبات چھوڑے جائیں گے، بعض سیاسی اور بااثرافراد کے سی این جی پمپس شاہراہ فیصل سے متصل ریلوے اراضی پرقائم ہونے کا انکشاف ہوا ہے جنہیں ختم کرنے اور ریلوے اراضی واہ گزار کرنے کیلیے قانونی مشاورت کی جارہی ہے۔
سعد رفیق نے بتایا کہ بڑے بڑے ارب پتیوں نے ریلوے اراضیاں کوڑیوں کے مول حاصل کی ہوئی ہیں، ماضی میں ریلوے کا نظام صرف ایک وزیراورایک ڈی ایم جی کا بیوروکریٹ چلاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے پاکستان ریلوے کے کہنہ مشق اور ایماندار افسروں کو ریلوے کے نظام میں بہتری لانے کیلیے آن بورڈ لیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت کے مقررہ ہدف سے زائد یعنی25 ارب روپے کا ریونیو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ٹرینیں ٹرین منیجرزکے بغیرآپریٹ ہورہی تھیں لیکن اب حکومت نے12 ٹرین منیجرز کی تقرریاں کی ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنایا گیا ہے جبکہ آئندہ سال چین سے58 لوکوموٹیوز درآمد کیے جارہے ہیں جن میں 60 فیصد لوکوموٹیوز کوصرف کارگوٹرینوں میں استعمال کیا جائے گا، پشاور تا کراچی نیا ریلوے ٹریک بچھانے کیلیے300 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس کیلیے ترکی ایک کمپنی سے بات چیت ہورہی ہے۔
ایک سوال پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سابق صدرضیاء الحق نے این ایل سی قائم کرکے پاکستان ریلوے کی تباہی کی بنیاد رکھی تھی لہٰذا پاکستان ریلوے کا این ایل سی کے ساتھ شراکت داری کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اگر ریلوے کو ٹھیک نہ کرسکا تو 5 سال وزارت سے چمٹے رہنے کے بجائے مستعفی ہوجاؤں گا، پاکستان ریلوے کی نجکاری مسئلے کا حل نہیں ہے، جب ریلوے میں بتدریج بہتری رونما ہورہی ہے تو اس قومی ادارے کی نج کاری کیوں کی جائے بلکہ اسے منافع بخش بنایا جائے گا، پاکستان ریلوے میں کوئی سیاسی مداخلت ہے نہ سیاسی تقرریاں ہورہی ہیں، سفارشیں بھی قبول نہیں کی جارہیں بلکہ مسلم لیگ ن کو بھی ریلوے ہیڈکوارٹرز سے باہر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کو روڈ ٹرانسپورٹ کے ساتھ مسابقت کے طور پر آپریٹ کیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ریلوے کے کرائے کم کیے گئے تو5 لاکھ مسافر ریلوے کے سسٹم میں داخل ہوئے اور ادارے کو72 کروڑ روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، ریلوے میں لوٹ مار کے 14 کیسزنیب کے سردخانے میں تھے جو اب متحرک کردیے گئے ہیں اور کرپش کے16 کیسز کی عدالت میں سماعت ہوگی۔
یہ بات انہوں نے وفاقی وزیربندرگاہ و جہازرانی کامران مائیکل کے ہمراہ بدھ کوکراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروںوصنعتکاروں سے خطاب کے دوران کہی، اس موقع پر بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی، وائس چیئرمین ہارون فاروقی ،زبیرموتی والا، اے کیو خلیل، کراچی چیمبر کے صدرعبداللہ ذکی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے جائیکا کی 2.5 ارب روپے فنڈنگ کی پیشکش خطرے میں پڑگئی ہے تاہم بحیثیت وزیرریلوے جائیکا سے اس ضمن میں رابطہ استوار کررکھا ہے، کراچی سرکلرریلوے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلیے سندھ حکومت، ایم کیوایم، پی ٹی آئی اور اے این پی کے ساتھ ملک کام کریں گے، پاکستان ریلوے کو سیاسی مفادات کے تابع نہیں لایا جائے گا، ریلوے میں اب نہ بدعنوانی چلے گی اور نہ ہی ریلوے کے واجبات چھوڑے جائیں گے، بعض سیاسی اور بااثرافراد کے سی این جی پمپس شاہراہ فیصل سے متصل ریلوے اراضی پرقائم ہونے کا انکشاف ہوا ہے جنہیں ختم کرنے اور ریلوے اراضی واہ گزار کرنے کیلیے قانونی مشاورت کی جارہی ہے۔
سعد رفیق نے بتایا کہ بڑے بڑے ارب پتیوں نے ریلوے اراضیاں کوڑیوں کے مول حاصل کی ہوئی ہیں، ماضی میں ریلوے کا نظام صرف ایک وزیراورایک ڈی ایم جی کا بیوروکریٹ چلاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے پاکستان ریلوے کے کہنہ مشق اور ایماندار افسروں کو ریلوے کے نظام میں بہتری لانے کیلیے آن بورڈ لیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت کے مقررہ ہدف سے زائد یعنی25 ارب روپے کا ریونیو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ٹرینیں ٹرین منیجرزکے بغیرآپریٹ ہورہی تھیں لیکن اب حکومت نے12 ٹرین منیجرز کی تقرریاں کی ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنایا گیا ہے جبکہ آئندہ سال چین سے58 لوکوموٹیوز درآمد کیے جارہے ہیں جن میں 60 فیصد لوکوموٹیوز کوصرف کارگوٹرینوں میں استعمال کیا جائے گا، پشاور تا کراچی نیا ریلوے ٹریک بچھانے کیلیے300 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس کیلیے ترکی ایک کمپنی سے بات چیت ہورہی ہے۔
ایک سوال پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سابق صدرضیاء الحق نے این ایل سی قائم کرکے پاکستان ریلوے کی تباہی کی بنیاد رکھی تھی لہٰذا پاکستان ریلوے کا این ایل سی کے ساتھ شراکت داری کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اگر ریلوے کو ٹھیک نہ کرسکا تو 5 سال وزارت سے چمٹے رہنے کے بجائے مستعفی ہوجاؤں گا، پاکستان ریلوے کی نجکاری مسئلے کا حل نہیں ہے، جب ریلوے میں بتدریج بہتری رونما ہورہی ہے تو اس قومی ادارے کی نج کاری کیوں کی جائے بلکہ اسے منافع بخش بنایا جائے گا، پاکستان ریلوے میں کوئی سیاسی مداخلت ہے نہ سیاسی تقرریاں ہورہی ہیں، سفارشیں بھی قبول نہیں کی جارہیں بلکہ مسلم لیگ ن کو بھی ریلوے ہیڈکوارٹرز سے باہر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کو روڈ ٹرانسپورٹ کے ساتھ مسابقت کے طور پر آپریٹ کیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ریلوے کے کرائے کم کیے گئے تو5 لاکھ مسافر ریلوے کے سسٹم میں داخل ہوئے اور ادارے کو72 کروڑ روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، ریلوے میں لوٹ مار کے 14 کیسزنیب کے سردخانے میں تھے جو اب متحرک کردیے گئے ہیں اور کرپش کے16 کیسز کی عدالت میں سماعت ہوگی۔