جہاں گشت
وہ برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے دانش وروں کی طرح آدھا ادھورا نہیں، پُورا سچ بیان کرتا ہے۔
قسط نمبر79
فقیر آپ کو اپنے آس پاس کی جیون کتھائیں سنائے جارہا ہے، کیوں ۔۔۔۔۔۔ ! نہ جانے کیوں! شاید اس لیے کہ یہ جیون کتھائیں بھی کیا انوکھی داستاں ہیں، ایسی کہ بندہ بشر دنگ رہ جائے۔ صرف اپنے ہی نہیں بل کہ اپنے آس پاس کے انسانوں کے حالات دیکھے اور اگر اسے سوچ بچار کے کچھ لمحات غنیمت ہوں تب پھر اس پر کُھلتا ہے کہ کیسے دل سوز سچ اور کیسے اولوالعزم کردار ہمارے اردگِرر بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں ہماری کور چشمی دیکھ نہیں پاتی، سوچنا تو رہی دُور کی بات۔ اس انسان سے تو چرند پرند اچھے ہیں جو اپنے جیسوں کے حالات پر فکرمند رہتے اور ان کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تُلے رہتے ہیں۔
دیکھ لیجیے ہاتھی، بھیڑیے جیسے کئی اور قوی الجثہ جانوروں کو اور کوّے، چڑیا جیسی مخلوق کو، خود مشاہدہ کیجیے اور اگر فرصت نہ ہو ان کے متعلق پڑھ ہی لیجیے کہ وہ کیسے اپنے جیسوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اک ہم ہیں، کیا بات کریں، صرف اپنا رونا ہی روتے ہیں، کسی اور اشک بار کو تو دیکھتے ہی نہیں تو سوچیں کیسے بھلا، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کا سوچتے ہی نہیں بل کہ ان کے بھی حالات بدلنے کی تگ و دو کرتے ہیں، بس وہی ہیں اصیل اور انسان کہلانے لائق۔ چلیے کیا بات کریں کہ یہ تو کبھی کامل نہیں ہوگی۔ تو بس اپنی آنکھیں اور کان کُھلے رکھیے کہ دیکھ اور سُن سکیں۔
زندگی ریشم و کمخواب ہی نہیں اے دوست! زندگی کوئی بھی موڑ مڑتے تلخ ہوسکتی ناں جی۔ لیکن سنیے ناں! صرف اندھیرا ہی نہیں روشنی بھی ہے جیون، جیون کی تاریک سرنگ سے آپ آزردہ گزرتے رہیے لیکن حوصلے کے ساتھ تو پھر دیکھیے کہ اچانک ہی سرنگ ختم ہوئی اور تاریکی بھی اور آپ روشنی میں آن کھڑے ہوئے، پھر کچھ دیر سوچتے ہیں کہ ہیں یہ کیا دُکھ درد دُور ہوئے، اندھیرا ہُوا رسوا اور ہم تو روشنی میں آگئے ہیں جی، جیون کی مرجھائی شاخ سبز ہوگئی، واہ جی واہ! ہاں پھر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ہماری چشم برس جاتی ہیں، نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا ہے فقیر اور نہ جانے کیا سمجھ رہے ہیں آپ زیرک و دانا۔ رہے نام اﷲ کا!
بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیر کو بہت عرصے تک اُس کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ جفاکش، محنتی، سادہ لوح اور خُود دار نذیر ملک کا انتظار۔ وہ سمندر کا سینہ چِیر کر اپنا رزق نکالتا ہے، اپنا ہی نہیں اپنے جیسے دوسروں کا بھی، جی ہم جیسوں کا بھی۔ اس کی زندگی سمندر کے سنگ بسر ہو رہی ہے۔ اس پُرخطر، مشکل و دشوار جیون نے اس کے چہرے پر اپنی خراشیں یوں کندہ کر ڈالی ہیں جیسے کوئی مصوّر اپنا شاہ کار کینوس پر اتار دیتا ہے اور پھر وہ کسی گیلری میں لٹکا دیکھنے والوں کی نظروں اور تبصروں کو سہتا رہتا ہے۔
اُسے بھی سمندر نے مصوّر کرکے جیون گیلری میں لٹکا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے دیکھنے والوں سے داد اور تحقیر دونوں وصولتا رہتا ہے۔ جفاکش، صابر، شاکر و ایثار کیش نذیر ملک، اس کی ساری زندگی سخت محنت و مشکلات میں گزر رہی ہے اور دُور تک بھی بہ ظاہر تو اس کے آثار نظر نہیں آرہے کہ وہ کبھی سُکھی بھی ہوگا، لیکن وہ یقین کامل سے کہتا ہے کہ وہ دن آئیں گے اور ضرور وہ یہ دن دیکھے گا۔ اس کی عمر صرف بتّیس برس ہی ہے مگر وہ جب بھی بات کرتا ہے تو یہی کہتا ہے میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ اس کے اندر بَلا کا تحمّل ہے، صبر، بُرد باری، ایثار، جفاکشی، خلوص و وفا کی خوش بُو میں رچا بسا نذیر ملک، اس سے مل کرکے خوشی ہی نہیں سُکون بھی ملتا ہے۔ منافق رویّوں، جُھوٹ اور عیّار، مکّار اور بناوٹی دنیا سے لاکھوں کوس پَرے سخت کوش نذیر ملک۔ وہ روایتی، برساتی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے دانش وروں کی طرح آدھا ادھورا نہیں پُورا سچ بیان کرتا ہے، خود پر بیتی دُہراتا ہے، اس لیے نہیں کہ اس پر ترس کھایا جائے، بل کہ اس لیے کہ آپ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر آپ اس سے ہم دردی جتانے لگیں، اس پر ترس کھانے لگیں تو اس شعر کی مجسم تصویر بن جاتا ہے
مرے صبر پر کوئی اجَر کیا، مری دوپہر پہ یہ ابَر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیّتیں، مری عادتیں نہ خراب کر
مجھے پڑھنے کا شوق ہی نہیں تھا، کیسے ہوتا اتنے افلاس میں جب انسان کا پیٹ ہی خالی ہو تو کیا پڑھے گا کوئی۔ رُلتے کُھلتے بارہ سال کا ہوگیا تھا میں، تو مزدوری کرنے لگا۔ ایک شیٹرنگ کے ٹھیکے دار کے ساتھ میں ہیلپر بن گیا۔ بس یہی چھوٹا موٹا کام کرتا تھا، چائے لا دیتا تھا، پانی پلا دیتا تھا، سیمنٹ کی خالی تھیلیاں جو ہوتی ہیں انھیں جمع کردیتا تھا، بس یہی چھوٹے موٹے کام۔ میں جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں بہت سارے لوگ مچھیرے ہیں، وہ لانچوں پر ہی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوگیا کہ میں بھی یہی کام کروں گا۔ میری عمر سولہ برس تھی جب میں نے مچھلی پکڑنے والوں کے ساتھ لانچ پر کام کرنا شروع کیا۔ وہاں بھی ابتداء میں بس چھوٹے موٹے کام تھے، برتن دھونا، پانی پلانا، جال صحیح کرنا پھر آہستہ آہستہ میں بھی دوسرے مچھیروں کی طرح کام میں ماہر ہوگیا، بس سمجھو میری نوکری پکّی ہوگئی۔ اب بھی مزدوری ہی ہے بل کہ کام بڑھ گیا ہے۔
جال ڈالنا، نکالنا، لانچ آہستہ آہستہ چلتی ہے تو ہم جال ڈال دیتے ہیں، پھر جال لانچ کے ساتھ باندھ کر سوجاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر جال نکالتے ہیں اور مچھلی اسٹور کرتے ہیں، بعض مچھلیوں کو نمک لگا کر رکھتے ہیں۔ مچھلی کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں انہیں علاحدہ بھی کرنا پڑتا ہے، کوئی برف میں صحیح رہتی ہے، کوئی نمک کے ذریعے محفوظ رہتی ہے۔ ہم لانچ میں صبح چار بجے جاگ جاتے ہیں اور شام چھے بجے تک کام کرتے ہیں، بہت سے کام ہوتے ہیں اکثر جال پھٹ جاتا ہے تو اسے بھی سینا پڑتا ہے، جال پر سے کوئی جہاز یا لانچ گزر جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے بس مجبوری ہے تو کرنا پڑتا ہے، کوئی اور نوکری ملتی نہیں ہے، اسے چھوڑ کر کیا کروں گا۔
میں تو بہت تنگ ہوں اس کام سے، غصہ بہت آتا ہے عجیب زندگی ہے آدم بے زار لیکن اس کے ساتھ مجھ میں صبر بھی پیدا ہُوا ہے کیوں کہ یہ بہت صبر آزما کام ہے، ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ ہم تو لانچ پر رات آٹھ بجے سوجاتے ہیں کیوں کہ صبح چار بجے پھر اٹھنا پڑتا ہے۔ بس کام کرو، جان ماری کرو، مچھلی پکڑو اور سوجاؤ، کوئی سہولت نہیں ہے، زندگی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ مچھلیوں سے بھرا ہوا سمندر جس میں دھوتر، سارم، گور، سرمئی، سووا، سولی، شارک، ڈاون، دوڑ، چونگ، گھوڑا مچھلی۔ اگر قسمت اچھی ہو، شکار لگ جائے اور ہم اپنا اسٹور بھرلیں تو 15،20 دن تک لگ جاتے ہیں۔ اگر قسمت میں خواری ہو تو پھر دو مہینے بھی لگ جاتے ہیں اور بہت مایوسی ہوتی ہے۔
ایسے میں بیوی بچے یاد آتے ہیں، بہت یاد آتے ہیں۔ انہیں کون بُھول سکتا ہے انہی کے لیے تو اتنی جان ماری کر رہے ہیں ورنہ اگر اکیلا پیٹ ہو تو پھر یہ خوار کام کیوں کریں۔ یہ سب محنت انہی کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ دنیا میں جھوٹ، دھوکا، فریب سب کچھ بیوی، بچوں اور گھر والوں کے لیے تو دیتے ہیں۔ وہاں وہ یاد بھی بہت آتے ہیں، لیکن بس صبر شُکر کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اور اداس ہوجائیں اور وہ تو ہوتے ہی ہیں تو سب لوگ آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں، کوئی گانا سناتا ہے، کوئی کچھ سناتا ہے، بس جس کو جو یاد آتا ہے وہ سناتا ہے اس طرح وقت پاس ہوجاتا ہے۔
کبھی لانچ اپنی حدود چھوڑ کر دوسروں کی حدود میں چلی جاتی ہے اس کی بھی وجہ ہوتی ہے۔ کبھی لانچ کا انجن خراب ہوجاتا ہے، لنگر انداز صحیح طریقے سے نہیں ہوتی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے دوسروں کی حدود میں نکل جاتی ہے، اور پھر زندگی ہی بدل جاتی ہے کہ کسی اور کی قید میں چلے جاتے ہیں اور پھر دُور تک تاریکی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اک آس امید کا دیا بھی جلتا رہتا ہے، ہمارے کئی مچھیرے انڈیا کی قید میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں اور ان سے زیادہ ان کے گھر والے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہاں شکار نہیں لگا تو دوسروں کی حدود میں چلے گئے لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی اطلاع نہیں مل سکتی اور نہ ہی ہم اپنی اطلاع کسی کو دے سکتے ہیں۔
یہ بہت بڑی خرابی ہے لیکن میں نے کہا ناں کہ یہ بہت مجبوری کا کام ہے۔ ہمارا ہر دن وہی پرانا گزرا ہوا دن ہے بل کہ اس سے بھی زیادہ اذیّت ناک، عید کیا، تہوار کیا وہ بھی ہمارے لیے ایک عام دن ہی ہیں۔ اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے اور آمدن بہت ہی کم۔ اگر شکار لگ جائے تو گزر بسر ہوجاتی ہیں اور اگر شکار نہ لگے تو بہت مشکل ہوتی ہے جناب! اکثر ادھار لینا پڑتا ہے اور آپ کو پتا ہے آج کل کون دیتا ہے ادھار۔ ہر آدمی اپنے غم اور مسائل میں ڈوبا ہوا ہے ہم تو بہت مشکل میں ہیں، اگر ہم کام کریں تو معاوضہ کم ہے اور نہ کریں تو بچے بھوکے رہیں گے۔ نہ اب ہم اس کام کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی خوشی سے کرسکتے ہیں۔ بچوں کو بھی پتا ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی چُپ ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کیا ہے اور انہیں بھی یہی کہتا ہوں کہ پڑھو، تمہارے کام آئے گا، وہ محنت بھی کرتے ہیں اور میری خواہش بھی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں، تاکہ زندگی کچھ تو آسان ہوجائے۔ صاحب! بڑا آدمی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس پیسا ہو، نوٹ ہوں، ابھی کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کی جیب بھری ہوئی ہو، میری تو جیب خالی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی جیب بھری رہے۔
ادھر اگر پیسے نہ ہوں تو انسان کو جانور بھی نہیں سمجھتے۔ پیسے ہیں تو جاہل کو بھی بہت عزت دیتے اور اس کی بکواس کو بھی دھیان سے سنتے ہیں۔ مجھے خود پر بہت افسوس ہوتا ہے، بہت دُکھ پہنچتا ہے، پَر وقت ہاتھ سے مچھلی کی طرح پھسل گیا ہے، اب افسوس کرنے سے کیا ہوتا ہے، بس اب خواہش ہے کہ بچے پڑھ جائیں۔ لوگوں کو سمندر اچھا لگتا ہے لیکن ہم جیسوں کو تو زہر لگتا ہے، لیکن ہمیں سمندر سے محبّت بھی بہت ہے، اسی لیے ہم سمندر کو سمندر بادشاہ کہتے ہیں، اس سے ہم کو روزی ملتی ہے۔ اگر ہمیں ناخدا کہے کہ آج ہی چلنا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک دو دن اور ٹھہر جائیں لیکن پھر جانا ہی پڑتا ہے۔ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارا آخری وقت آگیا ہے، ہماری لانچ جھولا بن جاتی ہے اور ہم اسے وہیں لنگرانداز کردیتے ہیں اور طوفان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
طوفان میں ہَوا بہت تیزی چلنے لگتی ہے، اس کی وجہ سے لہریں بڑی اور وحشی ہوجاتی ہیں، پورا سمندر غصے میں بھر جاتا ہے جیسے آدمی کو غصہ آجائے تو قابو میں نہیں رہتا اسی طرح سمندر کو بھی غصہ آجاتا ہے۔ ادھر سمندر میں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں۔ بڑی مچھلی، چھوٹی کو کھا جاتی ہے ابھی جیسے انسان بھی ایسا ہی ہوگیا ہے کہ اپنے سے چھوٹے کو کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر بڑا چھوٹے کا حق دبا کر بیٹھ گیا ہے، اس لیے کہ اس کے پاس دولت ہے، اور دولت سے تو آدمی انسانوں کو بھی خرید لیتا ہے، ہمارے تمہارے جیسا ان کے سامنے کیا بیچتا ہے۔ وہ تو قانون و انصاف کو کھلے عام منہ مانگے دام خرید لیتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف ابھی آواز کیا اٹھائیں، پیٹ میں روٹی نہیں ہو، بچے بھوکے ہوں تو آواز بھی ختم ہوجاتی ہے، کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے لیے وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، وہ بھی اس کو پاگل کہتے ہیں، جن کے لیے اس نے آواز اٹھائی ہو، پھر جس بڑے کے خلاف آواز اٹھاؤ وہ دوسرے دن اس کو غائب کرا دیتا ہے اور دوسرے اس کا انجام دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
میں کیا بولوں ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو، ہر غلط آدمی کی عزت ہے جو لوگوں کو لڑائے وہ عزت دار، فن کار کہلاتا ہے اور جو واقعی عزت والے ہیں ان کی لوگ بے عزتی کرتے ہیں۔ ہم ادھر لانچ پر سب مل جل کر رہتے ہیں مگر سب اتحاد سے رہتے ہیں اور لانچ کا حفاظت کرتے ہیں۔ ابھی دیکھو اپنا ملک بھی لانچ ہے سب اس میں رہتے ہیں اگر کوئی سوراخ کرتا ہے تو اس کو منع کرنا چاہیے کیوں کہ اگر سوراخ ہوگیا تو ہم سب ڈوب جائیں گے۔
فقیر اس کا دکھ بھرا جیون اور اس کی دانش بھری باتوں کو دھیان سے دیکھ اور سُن رہا تھا۔ وہ خاموش ہُوا تو سامنے یہ روشن ہُوا
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
لیکن کیا کیجیے کہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرّت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھیے، خود جیون رس ضرور پیجیے لیکن دوسروں کو بھی اس میں سے پلائیے، خود سُکھی رہیے اور دوسروں میں بھی سُکھ بانٹیے۔ فقیر کی حاضری قبول اب رخصت۔
فقیر آپ کو اپنے آس پاس کی جیون کتھائیں سنائے جارہا ہے، کیوں ۔۔۔۔۔۔ ! نہ جانے کیوں! شاید اس لیے کہ یہ جیون کتھائیں بھی کیا انوکھی داستاں ہیں، ایسی کہ بندہ بشر دنگ رہ جائے۔ صرف اپنے ہی نہیں بل کہ اپنے آس پاس کے انسانوں کے حالات دیکھے اور اگر اسے سوچ بچار کے کچھ لمحات غنیمت ہوں تب پھر اس پر کُھلتا ہے کہ کیسے دل سوز سچ اور کیسے اولوالعزم کردار ہمارے اردگِرر بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں ہماری کور چشمی دیکھ نہیں پاتی، سوچنا تو رہی دُور کی بات۔ اس انسان سے تو چرند پرند اچھے ہیں جو اپنے جیسوں کے حالات پر فکرمند رہتے اور ان کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تُلے رہتے ہیں۔
دیکھ لیجیے ہاتھی، بھیڑیے جیسے کئی اور قوی الجثہ جانوروں کو اور کوّے، چڑیا جیسی مخلوق کو، خود مشاہدہ کیجیے اور اگر فرصت نہ ہو ان کے متعلق پڑھ ہی لیجیے کہ وہ کیسے اپنے جیسوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اک ہم ہیں، کیا بات کریں، صرف اپنا رونا ہی روتے ہیں، کسی اور اشک بار کو تو دیکھتے ہی نہیں تو سوچیں کیسے بھلا، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کا سوچتے ہی نہیں بل کہ ان کے بھی حالات بدلنے کی تگ و دو کرتے ہیں، بس وہی ہیں اصیل اور انسان کہلانے لائق۔ چلیے کیا بات کریں کہ یہ تو کبھی کامل نہیں ہوگی۔ تو بس اپنی آنکھیں اور کان کُھلے رکھیے کہ دیکھ اور سُن سکیں۔
زندگی ریشم و کمخواب ہی نہیں اے دوست! زندگی کوئی بھی موڑ مڑتے تلخ ہوسکتی ناں جی۔ لیکن سنیے ناں! صرف اندھیرا ہی نہیں روشنی بھی ہے جیون، جیون کی تاریک سرنگ سے آپ آزردہ گزرتے رہیے لیکن حوصلے کے ساتھ تو پھر دیکھیے کہ اچانک ہی سرنگ ختم ہوئی اور تاریکی بھی اور آپ روشنی میں آن کھڑے ہوئے، پھر کچھ دیر سوچتے ہیں کہ ہیں یہ کیا دُکھ درد دُور ہوئے، اندھیرا ہُوا رسوا اور ہم تو روشنی میں آگئے ہیں جی، جیون کی مرجھائی شاخ سبز ہوگئی، واہ جی واہ! ہاں پھر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ہماری چشم برس جاتی ہیں، نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا ہے فقیر اور نہ جانے کیا سمجھ رہے ہیں آپ زیرک و دانا۔ رہے نام اﷲ کا!
بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیر کو بہت عرصے تک اُس کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ جفاکش، محنتی، سادہ لوح اور خُود دار نذیر ملک کا انتظار۔ وہ سمندر کا سینہ چِیر کر اپنا رزق نکالتا ہے، اپنا ہی نہیں اپنے جیسے دوسروں کا بھی، جی ہم جیسوں کا بھی۔ اس کی زندگی سمندر کے سنگ بسر ہو رہی ہے۔ اس پُرخطر، مشکل و دشوار جیون نے اس کے چہرے پر اپنی خراشیں یوں کندہ کر ڈالی ہیں جیسے کوئی مصوّر اپنا شاہ کار کینوس پر اتار دیتا ہے اور پھر وہ کسی گیلری میں لٹکا دیکھنے والوں کی نظروں اور تبصروں کو سہتا رہتا ہے۔
اُسے بھی سمندر نے مصوّر کرکے جیون گیلری میں لٹکا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے دیکھنے والوں سے داد اور تحقیر دونوں وصولتا رہتا ہے۔ جفاکش، صابر، شاکر و ایثار کیش نذیر ملک، اس کی ساری زندگی سخت محنت و مشکلات میں گزر رہی ہے اور دُور تک بھی بہ ظاہر تو اس کے آثار نظر نہیں آرہے کہ وہ کبھی سُکھی بھی ہوگا، لیکن وہ یقین کامل سے کہتا ہے کہ وہ دن آئیں گے اور ضرور وہ یہ دن دیکھے گا۔ اس کی عمر صرف بتّیس برس ہی ہے مگر وہ جب بھی بات کرتا ہے تو یہی کہتا ہے میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ اس کے اندر بَلا کا تحمّل ہے، صبر، بُرد باری، ایثار، جفاکشی، خلوص و وفا کی خوش بُو میں رچا بسا نذیر ملک، اس سے مل کرکے خوشی ہی نہیں سُکون بھی ملتا ہے۔ منافق رویّوں، جُھوٹ اور عیّار، مکّار اور بناوٹی دنیا سے لاکھوں کوس پَرے سخت کوش نذیر ملک۔ وہ روایتی، برساتی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے دانش وروں کی طرح آدھا ادھورا نہیں پُورا سچ بیان کرتا ہے، خود پر بیتی دُہراتا ہے، اس لیے نہیں کہ اس پر ترس کھایا جائے، بل کہ اس لیے کہ آپ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر آپ اس سے ہم دردی جتانے لگیں، اس پر ترس کھانے لگیں تو اس شعر کی مجسم تصویر بن جاتا ہے
مرے صبر پر کوئی اجَر کیا، مری دوپہر پہ یہ ابَر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیّتیں، مری عادتیں نہ خراب کر
مجھے پڑھنے کا شوق ہی نہیں تھا، کیسے ہوتا اتنے افلاس میں جب انسان کا پیٹ ہی خالی ہو تو کیا پڑھے گا کوئی۔ رُلتے کُھلتے بارہ سال کا ہوگیا تھا میں، تو مزدوری کرنے لگا۔ ایک شیٹرنگ کے ٹھیکے دار کے ساتھ میں ہیلپر بن گیا۔ بس یہی چھوٹا موٹا کام کرتا تھا، چائے لا دیتا تھا، پانی پلا دیتا تھا، سیمنٹ کی خالی تھیلیاں جو ہوتی ہیں انھیں جمع کردیتا تھا، بس یہی چھوٹے موٹے کام۔ میں جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں بہت سارے لوگ مچھیرے ہیں، وہ لانچوں پر ہی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوگیا کہ میں بھی یہی کام کروں گا۔ میری عمر سولہ برس تھی جب میں نے مچھلی پکڑنے والوں کے ساتھ لانچ پر کام کرنا شروع کیا۔ وہاں بھی ابتداء میں بس چھوٹے موٹے کام تھے، برتن دھونا، پانی پلانا، جال صحیح کرنا پھر آہستہ آہستہ میں بھی دوسرے مچھیروں کی طرح کام میں ماہر ہوگیا، بس سمجھو میری نوکری پکّی ہوگئی۔ اب بھی مزدوری ہی ہے بل کہ کام بڑھ گیا ہے۔
جال ڈالنا، نکالنا، لانچ آہستہ آہستہ چلتی ہے تو ہم جال ڈال دیتے ہیں، پھر جال لانچ کے ساتھ باندھ کر سوجاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر جال نکالتے ہیں اور مچھلی اسٹور کرتے ہیں، بعض مچھلیوں کو نمک لگا کر رکھتے ہیں۔ مچھلی کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں انہیں علاحدہ بھی کرنا پڑتا ہے، کوئی برف میں صحیح رہتی ہے، کوئی نمک کے ذریعے محفوظ رہتی ہے۔ ہم لانچ میں صبح چار بجے جاگ جاتے ہیں اور شام چھے بجے تک کام کرتے ہیں، بہت سے کام ہوتے ہیں اکثر جال پھٹ جاتا ہے تو اسے بھی سینا پڑتا ہے، جال پر سے کوئی جہاز یا لانچ گزر جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے بس مجبوری ہے تو کرنا پڑتا ہے، کوئی اور نوکری ملتی نہیں ہے، اسے چھوڑ کر کیا کروں گا۔
میں تو بہت تنگ ہوں اس کام سے، غصہ بہت آتا ہے عجیب زندگی ہے آدم بے زار لیکن اس کے ساتھ مجھ میں صبر بھی پیدا ہُوا ہے کیوں کہ یہ بہت صبر آزما کام ہے، ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ ہم تو لانچ پر رات آٹھ بجے سوجاتے ہیں کیوں کہ صبح چار بجے پھر اٹھنا پڑتا ہے۔ بس کام کرو، جان ماری کرو، مچھلی پکڑو اور سوجاؤ، کوئی سہولت نہیں ہے، زندگی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ مچھلیوں سے بھرا ہوا سمندر جس میں دھوتر، سارم، گور، سرمئی، سووا، سولی، شارک، ڈاون، دوڑ، چونگ، گھوڑا مچھلی۔ اگر قسمت اچھی ہو، شکار لگ جائے اور ہم اپنا اسٹور بھرلیں تو 15،20 دن تک لگ جاتے ہیں۔ اگر قسمت میں خواری ہو تو پھر دو مہینے بھی لگ جاتے ہیں اور بہت مایوسی ہوتی ہے۔
ایسے میں بیوی بچے یاد آتے ہیں، بہت یاد آتے ہیں۔ انہیں کون بُھول سکتا ہے انہی کے لیے تو اتنی جان ماری کر رہے ہیں ورنہ اگر اکیلا پیٹ ہو تو پھر یہ خوار کام کیوں کریں۔ یہ سب محنت انہی کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ دنیا میں جھوٹ، دھوکا، فریب سب کچھ بیوی، بچوں اور گھر والوں کے لیے تو دیتے ہیں۔ وہاں وہ یاد بھی بہت آتے ہیں، لیکن بس صبر شُکر کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اور اداس ہوجائیں اور وہ تو ہوتے ہی ہیں تو سب لوگ آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں، کوئی گانا سناتا ہے، کوئی کچھ سناتا ہے، بس جس کو جو یاد آتا ہے وہ سناتا ہے اس طرح وقت پاس ہوجاتا ہے۔
کبھی لانچ اپنی حدود چھوڑ کر دوسروں کی حدود میں چلی جاتی ہے اس کی بھی وجہ ہوتی ہے۔ کبھی لانچ کا انجن خراب ہوجاتا ہے، لنگر انداز صحیح طریقے سے نہیں ہوتی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے دوسروں کی حدود میں نکل جاتی ہے، اور پھر زندگی ہی بدل جاتی ہے کہ کسی اور کی قید میں چلے جاتے ہیں اور پھر دُور تک تاریکی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اک آس امید کا دیا بھی جلتا رہتا ہے، ہمارے کئی مچھیرے انڈیا کی قید میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں اور ان سے زیادہ ان کے گھر والے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہاں شکار نہیں لگا تو دوسروں کی حدود میں چلے گئے لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی اطلاع نہیں مل سکتی اور نہ ہی ہم اپنی اطلاع کسی کو دے سکتے ہیں۔
یہ بہت بڑی خرابی ہے لیکن میں نے کہا ناں کہ یہ بہت مجبوری کا کام ہے۔ ہمارا ہر دن وہی پرانا گزرا ہوا دن ہے بل کہ اس سے بھی زیادہ اذیّت ناک، عید کیا، تہوار کیا وہ بھی ہمارے لیے ایک عام دن ہی ہیں۔ اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے اور آمدن بہت ہی کم۔ اگر شکار لگ جائے تو گزر بسر ہوجاتی ہیں اور اگر شکار نہ لگے تو بہت مشکل ہوتی ہے جناب! اکثر ادھار لینا پڑتا ہے اور آپ کو پتا ہے آج کل کون دیتا ہے ادھار۔ ہر آدمی اپنے غم اور مسائل میں ڈوبا ہوا ہے ہم تو بہت مشکل میں ہیں، اگر ہم کام کریں تو معاوضہ کم ہے اور نہ کریں تو بچے بھوکے رہیں گے۔ نہ اب ہم اس کام کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی خوشی سے کرسکتے ہیں۔ بچوں کو بھی پتا ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی چُپ ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کیا ہے اور انہیں بھی یہی کہتا ہوں کہ پڑھو، تمہارے کام آئے گا، وہ محنت بھی کرتے ہیں اور میری خواہش بھی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں، تاکہ زندگی کچھ تو آسان ہوجائے۔ صاحب! بڑا آدمی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس پیسا ہو، نوٹ ہوں، ابھی کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کی جیب بھری ہوئی ہو، میری تو جیب خالی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی جیب بھری رہے۔
ادھر اگر پیسے نہ ہوں تو انسان کو جانور بھی نہیں سمجھتے۔ پیسے ہیں تو جاہل کو بھی بہت عزت دیتے اور اس کی بکواس کو بھی دھیان سے سنتے ہیں۔ مجھے خود پر بہت افسوس ہوتا ہے، بہت دُکھ پہنچتا ہے، پَر وقت ہاتھ سے مچھلی کی طرح پھسل گیا ہے، اب افسوس کرنے سے کیا ہوتا ہے، بس اب خواہش ہے کہ بچے پڑھ جائیں۔ لوگوں کو سمندر اچھا لگتا ہے لیکن ہم جیسوں کو تو زہر لگتا ہے، لیکن ہمیں سمندر سے محبّت بھی بہت ہے، اسی لیے ہم سمندر کو سمندر بادشاہ کہتے ہیں، اس سے ہم کو روزی ملتی ہے۔ اگر ہمیں ناخدا کہے کہ آج ہی چلنا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک دو دن اور ٹھہر جائیں لیکن پھر جانا ہی پڑتا ہے۔ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارا آخری وقت آگیا ہے، ہماری لانچ جھولا بن جاتی ہے اور ہم اسے وہیں لنگرانداز کردیتے ہیں اور طوفان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
طوفان میں ہَوا بہت تیزی چلنے لگتی ہے، اس کی وجہ سے لہریں بڑی اور وحشی ہوجاتی ہیں، پورا سمندر غصے میں بھر جاتا ہے جیسے آدمی کو غصہ آجائے تو قابو میں نہیں رہتا اسی طرح سمندر کو بھی غصہ آجاتا ہے۔ ادھر سمندر میں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں۔ بڑی مچھلی، چھوٹی کو کھا جاتی ہے ابھی جیسے انسان بھی ایسا ہی ہوگیا ہے کہ اپنے سے چھوٹے کو کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر بڑا چھوٹے کا حق دبا کر بیٹھ گیا ہے، اس لیے کہ اس کے پاس دولت ہے، اور دولت سے تو آدمی انسانوں کو بھی خرید لیتا ہے، ہمارے تمہارے جیسا ان کے سامنے کیا بیچتا ہے۔ وہ تو قانون و انصاف کو کھلے عام منہ مانگے دام خرید لیتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف ابھی آواز کیا اٹھائیں، پیٹ میں روٹی نہیں ہو، بچے بھوکے ہوں تو آواز بھی ختم ہوجاتی ہے، کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے لیے وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، وہ بھی اس کو پاگل کہتے ہیں، جن کے لیے اس نے آواز اٹھائی ہو، پھر جس بڑے کے خلاف آواز اٹھاؤ وہ دوسرے دن اس کو غائب کرا دیتا ہے اور دوسرے اس کا انجام دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
میں کیا بولوں ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو، ہر غلط آدمی کی عزت ہے جو لوگوں کو لڑائے وہ عزت دار، فن کار کہلاتا ہے اور جو واقعی عزت والے ہیں ان کی لوگ بے عزتی کرتے ہیں۔ ہم ادھر لانچ پر سب مل جل کر رہتے ہیں مگر سب اتحاد سے رہتے ہیں اور لانچ کا حفاظت کرتے ہیں۔ ابھی دیکھو اپنا ملک بھی لانچ ہے سب اس میں رہتے ہیں اگر کوئی سوراخ کرتا ہے تو اس کو منع کرنا چاہیے کیوں کہ اگر سوراخ ہوگیا تو ہم سب ڈوب جائیں گے۔
فقیر اس کا دکھ بھرا جیون اور اس کی دانش بھری باتوں کو دھیان سے دیکھ اور سُن رہا تھا۔ وہ خاموش ہُوا تو سامنے یہ روشن ہُوا
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
لیکن کیا کیجیے کہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرّت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھیے، خود جیون رس ضرور پیجیے لیکن دوسروں کو بھی اس میں سے پلائیے، خود سُکھی رہیے اور دوسروں میں بھی سُکھ بانٹیے۔ فقیر کی حاضری قبول اب رخصت۔