جی ایم بلوچ گورکھ ہل کے بچے
گورکھ ہل پر ثقافتی اور سماجی طور پر بلوچ ثقافت کا غلبہ ہے، مگرانتظامی طور پر یہ بلند ترین مقام صوبہ سندھ میں شامل ہے۔
LONDON:
گورکھ ہل سندھ کا سب سے بلند مقام ہے۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق گورکھ ہل سطح سمندر سے 5689 ہزار فٹ بلند ہے۔ گورکھ ہل جغرافیائی طور پر بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے۔ کھیرتھر پہاڑی سلسلہ کی یہ بلند ترین چوٹی ایک طرف بلوچستان کے علاقے جھلاوان اور خضدار سے اور دوسری طرف دادو ڈسٹرکٹ سے منسلک ہے، اس علاقے میں بلوچوں کے بزدار اور الخانی قبائل آباد ہیں۔
گورکھ ہل پر ثقافتی اور سماجی طور پر بلوچ ثقافت کا غلبہ ہے، مگر انتظامی طور پر یہ بلند ترین مقام صوبہ سندھ میں شامل ہے۔ اس علاقہ میں زمین غیر ہموار ہے، یوں پانی کی قلت ہے، بارش کے پانی سے زراعت ہوتی ہے اور آبادی کا بیشتر حصہ غلہ بانی کے شعبے سے منسلک ہے۔ گورکھ ہل کی سب سے بلند چوٹی پر 500 گھر موجود ہیں، آبادی 2 سے 3ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ صدیوں سے گورکھ ہل سندھ کا پسماندہ ترین علاقہ رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے اس علاقے کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ یہ سندھ کا واحد علاقہ ہے جہاں سردی کے موسم میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات برف باری بھی ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پہاڑی علاقے کو ترقی دینے کے لیے گورکھ ہل کا ترقیاتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ نے گورکھ ہل کو سیہون سے ملانے والی سڑک تعمیرکی اور سیاحوں کے قیام کے لیے ریزورٹ قائم کیے، گورکھ ہل میں بجلی آئی اور نجی شعبہ نے بھی سیاحوں کے لیے ریزورٹ قائم کیے۔ ایک اندازہ کے مطابق اب ملک کے مختلف علاقوں کے غیر ملکی سیاحوں نے بھی گورکھ ہل آنا شروع کیا۔
ہر ہفتے تقریباً 600 کے قریب سیاح گورکھ ہل آتے ہیں۔ یہاں ایک رات کا کرایہ 2 ہزار روپے سے 5 ہزار روپے تک ہے، بجلی کی سہولت موجود ہے مگر مقامی افراد بجلی سے محروم ہیں۔ مقامی لوگ اب بھی لالٹین کی روشنی سے کام لیتے ہیں، کچھ لوگوں نے سولر سسٹم سے فائدہ حاصل کرنا شروع کیا ہے۔یہاں مقامی افراد کے پاس موبائل ٹیلی فون ہیں جو عمومی طور پر سگنل نہ ملنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں اور سیلولر بینک کے ذریعے موبائل فون چارج کرتے ہیں۔ گورکھ ہل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس علاقہ میں ایک مسجد تعمیر کی ہے جس کے پیش امام 10 میل دور سے سفر کر کے آتے ہیں مگر اس پورے علاقے میں نہ کوئی اسکول ہے نہ کوئی اسپتال ہے۔
لوگ جب شہروں کو جاتے ہیں تو دوائیاں خرید کر لے آتے ہیں۔ اگر کسی مریض کو اسپتال منتقل کرنا ہو تو مریض کو بلوچستان کے شہر خضدار، دادو کے پسماندہ علاقہ والی پاندی لے جانا پڑتا ہے۔ خضدار کا فاصلہ جیپ کے ذریعے تقریباً ڈھائی گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اسی طرح والی پاندی پہنچنے میں 50-60 منٹ لگتے ہیں۔ موسم خراب ہو تو یہ مدت بڑھ جاتی ہے۔
گل محمد بلوچ جو جی ایم بلوچ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، 39 سال کے ہوگئے ہیں۔ لیاری میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ صحافت کے شعبہ میں طبع آزمائی کی، اخبارات اور چینلز میں کام کیا اور میڈیا کے حالیہ بحران میں بے روزگار ہوگئے۔ گزشتہ سال ان کے ایک دوست نے گورکھ ہل میں ریزورٹ تعمیر کیا ۔ جی ایم بلوچ بے روزگاری کی مایوسی کا شکار تھے۔ انھیں ایک ریزورٹ کے مینیجر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔
یوں جی ایم بلوچ گورکھ ہل پہنچ گئے۔ جی ایم بلوچ نے جلد ہی اپنے کام کے اسرار و رموز سمجھے اور انھیں خاصا وقت ملنے لگا۔ بلوچ نے اپنا وقت کتب بینی میں گزارا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اس علاقے میں کوئی اسکول موجود نہیں ہے۔ جی ایم بلوچ نے علاقے کے باسیوں سے تبادلہ خیال کیا تو پتہ چلا کہ نہ تو کبھی اسکول قائم ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اسکول کے قیام کا امکان ہے۔ یہی صورتحال اسپتال کی ہے۔ جی ایم بلو چ کو لڑکے سارا دن علاقہ میں گھومتے پھرتے نظر آتے اور لڑکیاں گھروں میں ماں باپ، بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کی خدمت میں زندگی گزاردیتی ہیں۔
جی ایم بلوچ نے مقامی لوگوں سے کچہریاں کیں تو یہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ تعلیم حاصل کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی لیتے ہیں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کم نہیں ہے، مگر اسکول نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خواہش پوری نہیں کرپاتے۔ کچھ لوگوں نے اپنے لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف شہروں میں بھیجا ہے مگر یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان مقامی افراد کی زندگی کا معیار نیچے کی طرف سفر کر رہا ہے۔
جی ایم بلوچ اپنے ساتھ ایک شامیانہ لے کر آئے تھے۔ وہ اس شامیانے کو کچہری کرنے اور مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جی ایم بلوچ نے بوڑھے ، جوانوں اور بچوں سے بات چیت کی تو انھیں اندازہ ہوا کہ سب بچوں کو تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جی ایم بلوچ نے لیاری میں اسٹریٹ اسکول کو دیکھا تھا۔ اس بناء پر انھوں نے سوچا کہ ایک اسکول قائم کیا جائے۔
اس طرح شامیانے میں اسکول قائم ہوا۔ انھوں نے کوشش کی اور مسلسل کوششیں کرتے رہے تو پہلے 2بچے اس شامیانہ اسکول آئے، پھر ان کی تعداد 16تک ہوگئی۔ جی ایم بلوچ نے انگریزی گرامر اور انگریزی الفاظ لکھنے اور بولنے کی کلاسیں لینا شروع کیں، یوں طلبہ کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جی ایم بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے طلبہ کے لیے باقاعدہ یونیفارم،بستے، کتابیں، کاپیاں اور پنسلوں کا بندوست کیا۔ وہ روزانہ صبح 9بجے سے 12 بجے تک بنیادی مضامین کی کلاس لیتے۔ پھر 12 بجے سے کھیل شروع ہوجاتے۔ جی ایم بلوچ نے گورکھ ہل میں فٹ بال اور کرکٹ کے کھیل شروع کرائے۔ اسکول میں ایک 19 سالہ باپ اور اس کے ساڑھے تین سال کے لیے داخلہ لیا، یوں استاد جی ایم بلوچ کی کوششوں سے بچے بنیادی الفاظ کی ادائیگی سے آشنا ہوئے۔ اب وہ آنے والے سیاحوں سے تھینک یو وغیرہ کے الفاظ باقاعدہ ادا کرنے لگے۔
اس دوران مساجد میں بھی مدرسہ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں صرف 25 بچے تعلیم حاصل کرنے آتے۔ جی ایم بلوچ تنہا گورکھ ہل گئے تھے، جی ایم بلوچ کی کوشش تھی کہ بلوچ قبائل کی لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں مگر فرسودہ قبائلی روایات آڑے آئیں اور لڑکیوں کو تعلیم کا حق نہیں ملا۔ بلوچ صاحب بتاتے ہیں کہ گورکھ ہل میں آباد دونوں قبائل کے گھروں میں صرف ان کے قبیلے کے قریبی رشتہ دار جاسکتے ہیں۔ دوسرا کوئی شخص گھر میں پڑھانے کے لیے بھی مدعو نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ لڑکے شا میانے کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ گھر جا کر اپنی بہنوں کو پڑھائیں۔ جی ایم بلوچ گورکھ ہل میں تنہا تھے تو ان کی اہلیہ اور بچے کراچی میں تھے تو ان کی غیر موجودگی میں اہلیہ بیمار پڑگئیں اور بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا۔ جی ایم بلوچ کو اپنی ملازمت چھوڑ کر کراچی آنا پڑا، اس طرح شامیانہ اسکول بند ہوگیا۔
سندھ میں گزشتہ 12 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد سے قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC)کے تحت صوبے کو ملنے والی گرانٹ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر خاطر خواہ رقم خرچ کررہی ہے مگر سندھ میں تعلیم اور صحت کے شعبہ کا برا حال ہے۔ محکمہ تعلیم اور صحت کا محکمہ بد ترین طرز حکومت کا شکار ہے۔ رشوت اور سفارش کے بغیر کسی کام کا مکمل ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت بار بار یہ دعوے کرتی ہے کہ دیہی علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں مگر گورکھ ہل اور اطراف کے گوٹھوں کی صورتحال سے حکومت کے دعوؤں کی تردید ہوتی ہے۔ سندھ حکومت کی صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد تعلیم کا وزیر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اب کراچی ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکن سعید غنی کو تعلیم کا محکمہ تفویض ہوا ہے۔
سعید غنی نے آتے ہی اعلان کیا ہے کہ اب کالجوں میں بھی صبح اسمبلی ہوا کرے گی اور اسکولوں کی طرح کالجوں میں بھی اساتذہ اور دیگر عملہ سرکاری اوقات کار کے دوران موجود رہے گا، مگر یہ بہت معمولی اقدامات ہیں۔ ان سے محکمہ تعلیم میں بڑی اصلاحات کی توقع ہے۔ یہ ماہ بجٹ کی تیاری کے ہیں۔ سعید غنی کو فوری طور پر گورکھ ہل سمیت سندھ کے ان تمام گوٹھوں میں جہاں اسکول نہیں ہیں فوری طور پر اسکولوں کے قیام کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے۔ انھیں ذاتی طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جی ایم بلوچ نے شامیانہ اسکول میں طلبہ کی تدریس کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ فوری طور پر بحال ہو جائے۔
اسی طرح سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہوکو فوری طور پر گورکھ ہل میں اسپتال کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ جن کا تعلق ضلع دادو سے ہے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ جی ایم بلوچ نے ایک بہترین روایت کا آغاز کیا ہے۔ ان کی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس روایت کو مستحکم کرے۔
گورکھ ہل سندھ کا سب سے بلند مقام ہے۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق گورکھ ہل سطح سمندر سے 5689 ہزار فٹ بلند ہے۔ گورکھ ہل جغرافیائی طور پر بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے۔ کھیرتھر پہاڑی سلسلہ کی یہ بلند ترین چوٹی ایک طرف بلوچستان کے علاقے جھلاوان اور خضدار سے اور دوسری طرف دادو ڈسٹرکٹ سے منسلک ہے، اس علاقے میں بلوچوں کے بزدار اور الخانی قبائل آباد ہیں۔
گورکھ ہل پر ثقافتی اور سماجی طور پر بلوچ ثقافت کا غلبہ ہے، مگر انتظامی طور پر یہ بلند ترین مقام صوبہ سندھ میں شامل ہے۔ اس علاقہ میں زمین غیر ہموار ہے، یوں پانی کی قلت ہے، بارش کے پانی سے زراعت ہوتی ہے اور آبادی کا بیشتر حصہ غلہ بانی کے شعبے سے منسلک ہے۔ گورکھ ہل کی سب سے بلند چوٹی پر 500 گھر موجود ہیں، آبادی 2 سے 3ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ صدیوں سے گورکھ ہل سندھ کا پسماندہ ترین علاقہ رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے اس علاقے کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ یہ سندھ کا واحد علاقہ ہے جہاں سردی کے موسم میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات برف باری بھی ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پہاڑی علاقے کو ترقی دینے کے لیے گورکھ ہل کا ترقیاتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ نے گورکھ ہل کو سیہون سے ملانے والی سڑک تعمیرکی اور سیاحوں کے قیام کے لیے ریزورٹ قائم کیے، گورکھ ہل میں بجلی آئی اور نجی شعبہ نے بھی سیاحوں کے لیے ریزورٹ قائم کیے۔ ایک اندازہ کے مطابق اب ملک کے مختلف علاقوں کے غیر ملکی سیاحوں نے بھی گورکھ ہل آنا شروع کیا۔
ہر ہفتے تقریباً 600 کے قریب سیاح گورکھ ہل آتے ہیں۔ یہاں ایک رات کا کرایہ 2 ہزار روپے سے 5 ہزار روپے تک ہے، بجلی کی سہولت موجود ہے مگر مقامی افراد بجلی سے محروم ہیں۔ مقامی لوگ اب بھی لالٹین کی روشنی سے کام لیتے ہیں، کچھ لوگوں نے سولر سسٹم سے فائدہ حاصل کرنا شروع کیا ہے۔یہاں مقامی افراد کے پاس موبائل ٹیلی فون ہیں جو عمومی طور پر سگنل نہ ملنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں اور سیلولر بینک کے ذریعے موبائل فون چارج کرتے ہیں۔ گورکھ ہل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس علاقہ میں ایک مسجد تعمیر کی ہے جس کے پیش امام 10 میل دور سے سفر کر کے آتے ہیں مگر اس پورے علاقے میں نہ کوئی اسکول ہے نہ کوئی اسپتال ہے۔
لوگ جب شہروں کو جاتے ہیں تو دوائیاں خرید کر لے آتے ہیں۔ اگر کسی مریض کو اسپتال منتقل کرنا ہو تو مریض کو بلوچستان کے شہر خضدار، دادو کے پسماندہ علاقہ والی پاندی لے جانا پڑتا ہے۔ خضدار کا فاصلہ جیپ کے ذریعے تقریباً ڈھائی گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اسی طرح والی پاندی پہنچنے میں 50-60 منٹ لگتے ہیں۔ موسم خراب ہو تو یہ مدت بڑھ جاتی ہے۔
گل محمد بلوچ جو جی ایم بلوچ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، 39 سال کے ہوگئے ہیں۔ لیاری میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ صحافت کے شعبہ میں طبع آزمائی کی، اخبارات اور چینلز میں کام کیا اور میڈیا کے حالیہ بحران میں بے روزگار ہوگئے۔ گزشتہ سال ان کے ایک دوست نے گورکھ ہل میں ریزورٹ تعمیر کیا ۔ جی ایم بلوچ بے روزگاری کی مایوسی کا شکار تھے۔ انھیں ایک ریزورٹ کے مینیجر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔
یوں جی ایم بلوچ گورکھ ہل پہنچ گئے۔ جی ایم بلوچ نے جلد ہی اپنے کام کے اسرار و رموز سمجھے اور انھیں خاصا وقت ملنے لگا۔ بلوچ نے اپنا وقت کتب بینی میں گزارا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اس علاقے میں کوئی اسکول موجود نہیں ہے۔ جی ایم بلوچ نے علاقے کے باسیوں سے تبادلہ خیال کیا تو پتہ چلا کہ نہ تو کبھی اسکول قائم ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اسکول کے قیام کا امکان ہے۔ یہی صورتحال اسپتال کی ہے۔ جی ایم بلو چ کو لڑکے سارا دن علاقہ میں گھومتے پھرتے نظر آتے اور لڑکیاں گھروں میں ماں باپ، بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کی خدمت میں زندگی گزاردیتی ہیں۔
جی ایم بلوچ نے مقامی لوگوں سے کچہریاں کیں تو یہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ تعلیم حاصل کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی لیتے ہیں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کم نہیں ہے، مگر اسکول نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خواہش پوری نہیں کرپاتے۔ کچھ لوگوں نے اپنے لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف شہروں میں بھیجا ہے مگر یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان مقامی افراد کی زندگی کا معیار نیچے کی طرف سفر کر رہا ہے۔
جی ایم بلوچ اپنے ساتھ ایک شامیانہ لے کر آئے تھے۔ وہ اس شامیانے کو کچہری کرنے اور مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جی ایم بلوچ نے بوڑھے ، جوانوں اور بچوں سے بات چیت کی تو انھیں اندازہ ہوا کہ سب بچوں کو تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جی ایم بلوچ نے لیاری میں اسٹریٹ اسکول کو دیکھا تھا۔ اس بناء پر انھوں نے سوچا کہ ایک اسکول قائم کیا جائے۔
اس طرح شامیانے میں اسکول قائم ہوا۔ انھوں نے کوشش کی اور مسلسل کوششیں کرتے رہے تو پہلے 2بچے اس شامیانہ اسکول آئے، پھر ان کی تعداد 16تک ہوگئی۔ جی ایم بلوچ نے انگریزی گرامر اور انگریزی الفاظ لکھنے اور بولنے کی کلاسیں لینا شروع کیں، یوں طلبہ کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جی ایم بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے طلبہ کے لیے باقاعدہ یونیفارم،بستے، کتابیں، کاپیاں اور پنسلوں کا بندوست کیا۔ وہ روزانہ صبح 9بجے سے 12 بجے تک بنیادی مضامین کی کلاس لیتے۔ پھر 12 بجے سے کھیل شروع ہوجاتے۔ جی ایم بلوچ نے گورکھ ہل میں فٹ بال اور کرکٹ کے کھیل شروع کرائے۔ اسکول میں ایک 19 سالہ باپ اور اس کے ساڑھے تین سال کے لیے داخلہ لیا، یوں استاد جی ایم بلوچ کی کوششوں سے بچے بنیادی الفاظ کی ادائیگی سے آشنا ہوئے۔ اب وہ آنے والے سیاحوں سے تھینک یو وغیرہ کے الفاظ باقاعدہ ادا کرنے لگے۔
اس دوران مساجد میں بھی مدرسہ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں صرف 25 بچے تعلیم حاصل کرنے آتے۔ جی ایم بلوچ تنہا گورکھ ہل گئے تھے، جی ایم بلوچ کی کوشش تھی کہ بلوچ قبائل کی لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں مگر فرسودہ قبائلی روایات آڑے آئیں اور لڑکیوں کو تعلیم کا حق نہیں ملا۔ بلوچ صاحب بتاتے ہیں کہ گورکھ ہل میں آباد دونوں قبائل کے گھروں میں صرف ان کے قبیلے کے قریبی رشتہ دار جاسکتے ہیں۔ دوسرا کوئی شخص گھر میں پڑھانے کے لیے بھی مدعو نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ لڑکے شا میانے کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ گھر جا کر اپنی بہنوں کو پڑھائیں۔ جی ایم بلوچ گورکھ ہل میں تنہا تھے تو ان کی اہلیہ اور بچے کراچی میں تھے تو ان کی غیر موجودگی میں اہلیہ بیمار پڑگئیں اور بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا۔ جی ایم بلوچ کو اپنی ملازمت چھوڑ کر کراچی آنا پڑا، اس طرح شامیانہ اسکول بند ہوگیا۔
سندھ میں گزشتہ 12 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد سے قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC)کے تحت صوبے کو ملنے والی گرانٹ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر خاطر خواہ رقم خرچ کررہی ہے مگر سندھ میں تعلیم اور صحت کے شعبہ کا برا حال ہے۔ محکمہ تعلیم اور صحت کا محکمہ بد ترین طرز حکومت کا شکار ہے۔ رشوت اور سفارش کے بغیر کسی کام کا مکمل ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت بار بار یہ دعوے کرتی ہے کہ دیہی علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں مگر گورکھ ہل اور اطراف کے گوٹھوں کی صورتحال سے حکومت کے دعوؤں کی تردید ہوتی ہے۔ سندھ حکومت کی صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد تعلیم کا وزیر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اب کراچی ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکن سعید غنی کو تعلیم کا محکمہ تفویض ہوا ہے۔
سعید غنی نے آتے ہی اعلان کیا ہے کہ اب کالجوں میں بھی صبح اسمبلی ہوا کرے گی اور اسکولوں کی طرح کالجوں میں بھی اساتذہ اور دیگر عملہ سرکاری اوقات کار کے دوران موجود رہے گا، مگر یہ بہت معمولی اقدامات ہیں۔ ان سے محکمہ تعلیم میں بڑی اصلاحات کی توقع ہے۔ یہ ماہ بجٹ کی تیاری کے ہیں۔ سعید غنی کو فوری طور پر گورکھ ہل سمیت سندھ کے ان تمام گوٹھوں میں جہاں اسکول نہیں ہیں فوری طور پر اسکولوں کے قیام کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے۔ انھیں ذاتی طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جی ایم بلوچ نے شامیانہ اسکول میں طلبہ کی تدریس کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ فوری طور پر بحال ہو جائے۔
اسی طرح سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہوکو فوری طور پر گورکھ ہل میں اسپتال کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ جن کا تعلق ضلع دادو سے ہے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ جی ایم بلوچ نے ایک بہترین روایت کا آغاز کیا ہے۔ ان کی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس روایت کو مستحکم کرے۔