اقوام متحدہ کے 75 سال
دو عالمی جنگوں میں 10کروڑ ہلاکتوں کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا
( قسط نمبر 1)
2020ء ہماری تاریخ کا وہ سال ہے جب نیویارک میں اقوم متحدہ کے ہیڈ کوارٹر سمیت پوری دنیا میں 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ منانے کی تیاریاں جاری ہیں یہ بہت حد تک اقوام متحدہ کی کامیابی ہے کہ اس عالمی ادارے نے دوسری عالمی جنگ کے بعد 75 برسوں تک ایسی کسی بڑی جنگ سے دنیا کو بچائے رکھا، دنیا کی آبادی 1914ء سے 1918ء کے درمیان ایک ارب 65 کروڑ تک رہی اور اس آبادی کا 2% سے زیادہ حصہ یعنی تین سے چار کروڑ انسان پہلی عالمی جنگ میں چار برسوں میں مارے گئے۔
یہ جنگ نوآبادیاتی نظام کے عروج پر پہنچنے اور پھر اس گراف کے نیچے آنے کا نقطہ ثابت ہوئی تھی، نوآبادیا تی نظام سولہویں صدی میں دنیاکا پورا نقشہ معلوم ہو جانے کے بعد یورپی اقوام کی جانب سے دنیا کے ملکوں پر قبضہ کر کے تجارتی، اقتصادی فائدے حاصل کرنے کی جد وجہد سے شروع ہوا، امریکہ اور دوسرے خطوں کی دریافت کے ساتھ ایشیا، افریقہ، امریکہ سمیت ملکوں پر قبضے جاری رہے، اِن یورپی نوآبادیاتی قوتوں یا ملکوں میں برطانیہ، فرانس ، نیدر لینڈ، پرتگال، سوئیڈن، روس،اسپین، ناروے ،جرمنی، اٹلی ڈنمارک اور چند چھوٹے یورپی ملک بھی شامل تھے۔
اِن کی فتوحات اس لیے اہم تھیں کہ تحریک احیائے علوم سے اِن ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً صنعت اور اس زمانے کے اعتبار سے اسلحہ اور بحری جہازسازی میں ترقی ہوئی اور اس جدت کی وجہ سے یہ ممالک اپنے سے کم علم اور کم ترقی یافتہ قوموں کو شکستیں دے کر اِن کے ملکوں کو فتح کرتے رہے۔ پھر یہی نو آبادیاتی یورپی ملک ایک دوسرے کی نوآبادیات حاصل کرنے کے لیے آپس میں بھی الجھے اور یوں یورپ میں بھی جنگیں ہوئیں، نوآبادیاتی نظام میں ایک موڑ تب آیا جب امریکہ دریافت ہوا جہاں کی مقامی آبادی کو کرسٹوفر کولمبس نے اس لیے ریڈ انڈین کا نام دیا تھا کہ وہ ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کر نے نکلا تھا اور اُسے اُس وقت کی دنیا کی آنکھوں سے چھپی یہ سر زمین مل گئی اور یہاں مقامی طور پر اُسے جو لوگ نظر آئے وہ سرخ رنگت والے تھے، پھر اِن یورپی اقوام نے اِن مقامی لوگوں کو مار مار کر تقریباً ختم کر دیا اور آج اِن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے، البتہ یہی فاتح یورپی یہاں اپنی جاگیروں کو آباد کر نے کے لیے اُس وقت افر یقہ سے سیاہ فاموں کو پکڑ کر جہاز کے جہاز بھر کر یہاں لاتے رہے، وہ اب یہاں ایک بڑی تعداد میں سفید فاموں کی طر ح مقامی امریکی تسلیم کئے جاتے ہیں۔
نو آبادیا تی دور میں سب سے بڑی قوت برطانیہ تھا جس کی نوآبادیات میں 1945 تک سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور دنیا کے تقریباً 24% رقبے اور 25 فیصد آبادی پر برطانیہ کی حکمرانی تھی مگر چونکہ امریکہ میں وہی یورپی اقوام پندرھویں صدی کے بعد مقامی آبادی بن گئیں جنہوں نے یہاں قبضہ کیا تھا اور یہاں پر برطانیہ سمیت تمام یورپی اقوام کی جانب سے اسی مقامی یورپی آبادی کے ساتھ وہ غلامانہ سلوک نہیں کیا جاتا تھا جو ایشیا،افریقہ جیسے براعظموں کے ملکوں کے ساتھ کیا جاتا تھا، لیکن جب 1770 کے قریب برطانیہ نے یہاں بھی ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی تو پھر بوسٹن ٹی پارٹی جیسا واقعہ رونما ہوا اور چائے پر ٹیکس عائد کرنے پر بحری جہازوں سے آنے والی چائے احتجاجاً سمندر میں پھینک دی گئی اور پھر امریکیوں نے انگر یزوں کے خلاف جنگ کر کے 4 جولائی1777 میں آزادی حاصل کر لی۔
امریکہ کی شمالی ریاستوں میں جو انگریزوں کی بڑی آبادی پر مشتمل ہے یہاں برطانیہ ہی کی طر ح انیسویں صدی عیسوی تک تیزرفتار صنعتی ترقی نے سماجی، سیاسی، اقتصادی، تجارتی تقاضے بدل دیئے تھے جس کی وجہ سے 1492 میں دریافت ہو نے والا ملک امریکہ جس کی تہذیبی، ثقافتی تشکیل یورپی اقوام کے جدید ترقیاتی ارتعاش سے منعکس ہوئی تھی یہ معاشرہ کچھ زیادہ تیز رفتار ہو گیا تھا اور اس نے امریکہ کی شمالی ریاستوں کی ثقافت کو صنعتی تجارتی اعتبار سے نئے انداز سے تشکیل کیا اور غلام داری نظام کو اس لیے ختم کیا کہ یہ نظام صنعتی کارخانوں، فیکٹر یوں کے لیے موزوں نہیں تھا جب کہ باقی ریا ستوں میں بڑی بڑی جاگیروں پر ہزاروں غلاموں کو کھیتوں میں کا م کرنے پر روٹی اور کپڑا کے عوض رکھنے اور نوابین کی طرح زندگی بسر کرنے کے لطف کی بنیاد پر یہ ثقافت بڑی جاندار تھی، مگر صنعت و تجارت میں جاگیر داری اور زمینداری سے زیادہ آمدنی اور سرمایہ تھا، یوں 1861 سے 1865 تک امریکہ میں خانہ جنگی رہی جو وسیع تناظر میں صنعتی انقلاب ہی تھا جو یورپی معاشرے میں 1760میں اور پھر 1820 تا 1840 نمایاں رہا۔ اور بادشاہت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں 1789 سے 1799 کا انقلابِ فرانس تھا جس کو فکری اور نظریاتی اعتبار سے روسو اور والئٹیر نے جلا بخشی اور یہ انقلاب پھر نپولین کی آمریت تک پہنچا، دوسری جانب داس کیپٹل کے خالق کارل مار کس کے اشتراکی نظریات پر روس میں لینن اور اسٹالن 1917 میں کیمونسٹ انقلاب لے آئے۔
یہ تو مساوات، ِانسانی آزادی اور حقوق کے لیے فکری ارتقاکے ساتھ ساتھ انقلابیوں کی جدوجہد کا سفر تھا تو ساتھ ہی نو آبادیا تی نظام میں حاکمیت، حصولِ اقتدار اور نوآبادیاتی قوتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملک اور خطے حاصل کرنے کے لیے آپس کی جنگیں بھی جاری رہیں جن میں سے چند خونی جنگوں کا ذکر یہاں اقوام متحدہ کی ضرورت کے اعتبار سے ضروری ہے۔
ڈوگن بغاوت چین 1862 تا 1877، اس دوران ایک کروڑ بیس لاکھ افراد ہلا ک ہوئے۔ ایشیا میں جاپانی بادشاہت کی فتوحات 1894 تا 1945، اس دوران تین کروڑ انسان ہلاک ہوئے، روس میں اشتراکی انقلاب کے مراحل اور خانہ جنگی جو1917 سے 1923تک جاری رہی اس دوران 90 لاکھ روسی ہلاک ہوئے ، نپولین کی جنگیں یورپ بشمول روس بحرالکاہل، بحراوقیانوس اور بحر ہند کے نزدیک واقع ممالک میں 1803 تا 1815 لڑی گئیں جن میں70 لاکھ انسان ہلا ک ہوئے۔ روم کے عیسائی مقدس حکمرانوں کی 30 سالہ جنگ جو 1618 سے1648تک جاری رہی، اس میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔ جنگ کوڈیا جنوبی جنگ، پوش، لیتھونیا کامن ویلتھ 1655 تا1660، اس جنگ میں40 لاکھ افراد ہلاک ہو ئے، نڈوانڈو۔ زولوجنگ یا شاکافتوحات افریقہ 1816 تا1828 ، اس دوران 20 لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔
ڈیووین ایکسوباغیوں کی جنگ چین 1856 سے1873 دس لاکھ چینی مارے گئے، میکسیکن انقلاب 1911 تا 1920، اس دوران20 لاکھ افراد مارے گئے، یوں نوآبادیاتی نظام جنگوں، فکری تحریکوں اور انقلابات سے گزرتا ہوا آخر 1914 میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ تک پہنچا جو 1918 تک جاری رہی اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اور اتحادی تھے جن میں روس اشتراکی انقلاب1917 کے بعداس جنگ سے نکل آیا اور اس کی جگہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا، اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی اور ترکی کی خلا فتِ عثمانیہ تھی،اس جنگ کے اختتام پر دنیا اقتصادی، معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے اعتبار سے تبدیل ہو گئی، کمزور ملکوں پر قبضے کے لحاظ سے یہ نوآبادیاتی نظام کی آخری حد تھی۔ اس جنگ میں شکست کے بعد ترکی بطور ملک اپنے آپ کو بمشکل اتاترک مصطفٰی کمال پا شا کی قیادت میں بچا سکا، اس کے علاوہ دو مسلم ملک ہی آزاد و خود مختار کہے جا سکتے تھے، ایک افغانستان جو برطانوی ہند اور روس کی سنٹرل ایشیا کی نوآبادیا ت کے درمیان حائلی ریاست کے طور پر تھا، اور دوسرا ملک سعودی عرب تھا جس کو انگریزوں نے اس لیے آزاد رکھا تھا کہ مسلمان جذباتی ہو کر مشکل پید ا کر دیں گے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے فرما یا تھا
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جنگ عظیم اوّل میں جہاں تین کروڑ انسان ہلاک ہوئے تھے وہاں اس سے کچھ زیادہ زخمی اور معذور بھی ہوئے تھے، اس جنگ کے شدید سیاسی،اقتصادی، سماجی اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے، ترکی کے مرکز پر قائم وسیع سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی، زارِ روس جیسی وسیع سلطنت میں اشتراکی انقلاب آگیا اور دنیا کی سب سے وسیع اور طاقتور سلطنتِ برطانیہ پہلی عالمی جنگ جیتنے کے باوجود کمزور ہوئی اور اس کی جگہ امریکہ دنیا کی سپر پاور بن گیا، اب پوری دنیا میں اس کے مجموعی رقبے اور مجموعی آبادی کے لحاظ سے نظریاتی، فکری اعتبار سے گروہی اختلافات بھی تھے اور اتفاق بھی۔
ایک جانب دنیا میں سرمایہ دار انہ اور جاگیردارانہ نظاموں کو اشتراکی نظریات کے حامی چیلنج کر رہے تھے تو دوسری جانب سرمایہ دارنہ اور آزاد مارکیٹ کا نظام جدید جمہوری سیاسی نظام کے ساتھ امریکہ کو بنیادی قلعہ بنا کر اشتراکی نظامِ معیشت اور سیاست کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا، پھر جرمنی، جاپان اور کچھ ملکوں میں جنگ عظیم اوّل کے ردعمل میں نیشنل ازم، فاشزم کی انتہائوں کے ساتھ بڑھ رہا تھا، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ترکی ، عربوں کی جانب سے پہلی عالمی جنگ میں بغاوت اور انگریزوں کا ساتھ دینے پر غم و غصہ بھی رکھتا تھا اور شکست کے بعد صرف ترک قوم اور ترکی کو قائم رکھنے پر توجہ کئے ہوئے تھا، سعودی عرب آزاد تھا مگر یہاں بادشاہت کا اعلان ہوا تھا، اسلامی خلافت کا نہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو مرکزیت اور اتحاد فراہم نہیں کر رہا تھا اور باقی عرب ملکوں اور ریاستوں میں بھی بادشاہتیں تھیں لیکن اِن کی حیثیت نوآبادیات کی تھی، جہاں تک تعلق دنیا کے عام مسلمانوں کا تھا تو وہ خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹ جانے پر غمزدہ اور مایوس تھے،اس پر اگر کچھ جدوجہد کی تو وہ برصغیر کے مسلمانوں نے کی تھی اور وہ بھی ناکام ہو گئی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد شکست خوردہ جرمنی سے اتحادیوں نے معاہد ہ ِوارسائی پر دستخط کروائے جو جرمنی کے لیے ایک ذلت آمیز معاہدہ تھا اور بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اسی معاہدے نے دوسری جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔
28 جون 1919 کو فرانس میں پیرس کے وارسائی محل میںاس معاہدہ پر دستخط ہوئے اور اس پر عملدرآمد 10 جنوری 1920 میں ہوا۔ معاہدہ کے آرٹیکل 231 کے تحت جرمنی کو غیر مسلح کر دیا گیا اور اس پر تاوانَ جنگ کے طور پر 132 ارب جرمن مارک جو اُس زمانے میں 31.4 بلین ڈالر کے برابر تھے رکھے گئے۔ یہ معاہد ہ انگریزی اور فرانسیسی میں تحریر کیا گیا، یہاں اس کو جرمن زبان میں بھی تحر یر نہیں کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے خصوصاً برطانوی، فرانسیسی، امریکی اور روسی مفکرین اور دانشوروں نے زور دیا کہ کوئی ایسا عالمی سطح کا ادارہ ہونا چاہیے جو آئندہ دنیا کو کسی دوسری عالمی جنگ سے روک سکے، یوں ان خطوط پر جنگ عظیم اوّل کے دوران بہت کچھ لکھا اور کہا گیا اور پھر 10 جنوری1920 کو ہی اقوامِ عالم، لیگ آف نیشنز، کا ادارہ وجود میں آیا، اس ادارے کی تشکیل کا ذکر معاہدہ وارسائی میں تھا۔
1920 سے 1939 تک اس کے کل ممبران کی تعداد 63 تھی، اس دوران لیگ آف نیشنز سے رکن ممالک نکلے بھی اور کچھ ممالک داخل بھی ہوئے، امریکہ لیگ آف نیشنز کا کبھی رکن نہیں رہا۔ اسی طرح اُس زمانے میں خودمختار یا نیم خود مختار ممالک سعودی عرب، یمن، منگولیا، نیپال، بھوٹان اس کے رکن نہیں رہے اسی طرح یورپ کی چھوٹی ریا ستیںلیچینسٹین، موناکو، سن مارنیو اور ویٹکن سٹی بھی اقوام عالم کے رکن نہیں بنے۔ لیگ آف نیشنز کے سب سے زیادہ ممبر 1934 سے1935 کے دوران رہے جب اس کے کل ممبران کی تعداد 58 رہی۔ واضح رہے کہ 1930 سے1932 تک دنیا بھر میں پہلی جنگ عظیم کے اثرات عظیم عالمی کساد بازاری کی صورت میں ظاہر ہوئے اور اسی دوران جرمنی میں ہٹلر قوت پکڑنے لگا اور دوسری جانب سوویت یونین اسٹالن کی آمریت اور مضبوط حکومت کے ساتھ مستحکم ہو گیا تھا۔
جرمنی جس کو معاہدہ وارسائی کے کافی عرصے بعد 9 ستمبر1931 کو لیگ آف نیشنز میں شامل کیا گیا تھا وہ 9 اکتوبر 1933 میں لیگ آف نیشنز سے نکل آیا ، جب کہ سابق سوویت یونین نے1939 نے جب اپنی فوجیں فن لینڈ میں داخل کر کے اُس پر قبضہ کر لیا تو اسے لیگ آف نیشنز سے نکال دیا گیا، یوں اِس لیگ آف نیشنز سے نکالے جانے والا یہ واحد ملک تھا، باقی ممالک جو خود لیگ آف نیشنز کو چھوڑ گئے اِن کی تفصیلا ت یوں ہیں، برازیل 1926، جاپان 1933، ایران1934 اور پھر 1935 میں پارایاگویا، 1936 نکاراگویا، ہنڈراس، 1937 میں اٹلی، 1938 میںچلی، وینز ویلا، 1939 میںپیرو، تھائی لینڈ، اسپین، 1939 ہی میں چیکوسلواکیہ پرجرمنی نے قبضہ کر لیا، 1940 میں رومانیہ اور18 اپریل 1941 کو فرانس نکلا، لیکن فرانسیسی فوج نے اس کو تسلیم نہیں کیا، 1942 میں ہیٹی لیگ آف نیشنز سے نکل گیا، جب کہ ارجنٹائن،آسٹریلیا، بولیویا، برٹش امپائر، کینیڈا، چلی ، چین، کولمبیا،کیوبا، یوگو سلاویہ، ڈنمارک،ایلسلواڈور، فرانس، یونان،گوئٹے مالا، ہندوستان، لیبیا، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ،ناروے، پانامہ، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، جنوبی افریقہ، سویڈن، سوئزرلینڈ، لاووروگوئے، آسٹریا،بلغاریہ، فن لینڈ، لگسمبرگ،البانیہ، اسٹونیا،لیتھویا، ہنگری، دی آئریش فری اسٹیٹ، ایتھوپیا، ڈومینینا سٹیٹ ری پبلک میکسیکو، ترکی ،عراق،افغانستان، ایکواڈور ایسے ممالک تھے جو لیگ آف نیشنز کے 1946 تک جب تک یہ قائم تھی رکن رہے۔
لیگ آف نیشنز کا آئیڈیا تو بہت اچھا تھا مگر یہ نہ تو مفکرین کے تصورات کے مطابق پوری طرح تشکیل پا سکی اور نہ ہی موثر ثابت ہوئی، برطانیہ یعنی برٹش امپائر کی اس پر زیادہ مضبوط گرفت تھی کہ برطانیہ خود بھی طاقتور تھا اور پھر لیگ آف نیشنز میں شامل بعض بڑے ممالک بھی اُس کی نوآبادیا ت تھے، روس کو لیگ آف نیشنز کے اصول و ضوابط کی خلا ف ورزی پر نکال دیا گیا، جرمنی جیسی قوت جو جنگ عظیم اوّل کے 15 سال بعد جنگی قوت بنی تھی، اُسے1933 میں معاہد ہ وارسائی پر دستخط کی ذ لت یاد تھی اور لیگ آف نیشنز بھی اس میں شامل تھی، اُس نے بھی لیگ آف نیشنز کو چھوڑا اور امریکہ جو حقیقت میں دنیا کی نئی سپر پاور بن چکا تھا وہ پہلے ہی نوآبادیاتی نظام میں عالمی سطح کی اس تنظیم کے خدو خال سے اندازہ کر بیٹھا تھا کہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔ اس دوران نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس ادارے کی جانب سے عالمی امن کے لحاظ سے کوئی دیانتدارانہ اور انصاف پسندانہ انداز بھی نہیں تھا اور نہ ہی نیت صاف تھی۔
دوسری جانب سوویت یونین کے اشتراکی نظام سے بہت سے ملک خوفزدہ تھے خصوصاً وہ ممالک جہاں جنگ اور پھر عالمی کساد بازاری کی وجہ سے بھوک اور افلاس میں بہت اضافہ ہو گیا تھا یہی وجہ تھی کہ دنیا کے کچھ ملکوں میںاشتراکی نظریات کے فروغ کے ساتھ اشتراکی انقلابات کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے اور جرمنی کے معاشی اقتصادی اور دفاعی طور پر دوبارہ طاقتور ہو نے کے سبب مشرقی اور مغربی یورپ دونوں میں سرمایہ اور سرمایہ داری دونوں سہمے ہوئے تھے، اس فضا میں محفوظ، طاقتور، وسیع رقبے اور مواقع کی سرزمین امریکہ تھا جو دنیا کے سرمایہ داروں اور ذہین و فطین لوگوں کے لیے جنت بن گیا تھا۔
اِن حالات میں1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، اُس وقت دنیا کی کل آبادی 2 ارب30 کروڑ تھی، 1945 میں جب جنگ عظیم دوئم ختم ہوئی تو جنگ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات کروڑ سے ساڑھے آٹھ کروڑ کے درمیان تھی یعنی دنیا کی کل آبادی کا 3% حصّہ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
اس جنگ میں امریکہ تاخیر سے اُس وقت شامل ہوا جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر حملہ کیا، یوں 1941 کے آخر اور 1942 کے آغاز میں امریکہ اس میں شامل ہوا، جنگ کے آغاز پر روس جرمنی کے ساتھ تھا اور پھر اس کے خلاف اتحاد میں شامل ہوا، جب کہ جاپان جرمنی کے ساتھ ر ہا، اور آخر 6 اور 9 اگست 1945 کو امریکہ کی جانب سے ہیروشیما اور نا گا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، اس جنگ میں نو کروڑ سے زیادہ انسان زخمی اور معذور ہوئے پورا یورپ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا اور ساتھ ہی دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خوفناک تباہی ہوئی۔ یوں 18 اپریل 1945 کوLeage of Nation ادارہِ اقوام ِ عالم تحلیل کردیا گیا اور اس کی جگہ United Nation اقوام متحدہ کا ادارہ 25 اپریل1945 میں اُس وقت تشکیل پانے لگا جب دینا کے تقریباً 51 ملکوں کی حکومتیں سان فرانسسکو میں جمع ہوئیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے لکھنے کا کام شروع ہوا۔
Charter of United Nations اقوام متحدہ کے چارٹر کا مسودہ دنیا کی اِن حکومتوں نے 14 اگست 1945 کو مکمل کر لیا۔ اگر چہ یہ چارٹر بظاہر تقریباً چار مہینوں کی مدت میں لکھا گیا تھا لیکن اس کے پس منظر میں مفکرین اور دانشوروں کی وہ مسلسل کوششیں جو تحریروں کی شکل میں لیگ آفنیشنز سے پہلے جنگ ِعظیم اوّل سے لیکر جنگ ِ عظیم دوئم تک لکھی جاتی رہیں اِن حکومتوں اور سربراہوں کے لیے مشعل ِ راہ تھیں۔ لیگ آفنیشنز اور معاہدہ ِ وارسائی کے کمزور پہلو اور ناکامی کے اسباب بھی تھے اور پھر دوسری جنگ عظیم کی وجوہات کے ساتھ آئندہ کے لیے تجاویز بھی تھیں، اس لیے چارٹر کا یہ مسودہ یا ڈرافٹ ماضی کے ایسے مسودات سے بہت بہتر اور معیاری تھا پھر بھی اس پر نظرثانی کی گئی لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کا یہ ادارہ جو بین الاقوامی حکومتوں پر مشتمل عالمی ادارہ ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں امن اور اس کے تحفظ کو یقینی بنائے اور پوری دنیا میں اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دے تاکہ عالمی سطح پر اس مرکز ی عالمی ادارے کے تحت امن اور برداشت کے ساتھ اقوام کام کر یں۔ یوں اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے تحت 24 اکتوبر 1945 سے اقوام متحدہ نے باقاعدہ کام شروع کیا، اس کے بنیادی یا ابتدائی ممبر ملکوں کی تعداد 1945 میں 51 تھی جو 2011 تک 193 ہوگئی، اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک امریکہ میں عالمی رقبے کی بنیاد پر قائم ہے، جب کہ ذیلی دفاتر یا ادارے جنیوا، نیروبی، ویانا اور ہیگ میںہیں، اس ادارے کی دفتری زبانیں ، عربی ، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی ہیں ۔ اقوام متحد ہ کے چھ بنیادی ادارے یا تنظیمیں ہیں، نمبر 1 ۔جنرل اسمبلی، نمبر2 ۔ سیکورٹی کونسل، نمبر3 ۔اکنامک اینڈ سوشل کو نسل، نمبر 4 ۔ ٹرسٹی شپ کونسل، نمبر5 ۔انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس، نمبر6۔ یو این سیکرٹریٹ۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے نظام میں اس کی اسپیشل ایجنسیاںبھی شامل ہیں، ورلڈ بنک ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش، ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسکو اور یونیسف ہیں اور اسی طرح یواین کے ماتحت ادارے بھی ہیں۔
اقوام متحدہ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر سیکرٹری جنرل کہلاتا ہے، حالیہ سیکرٹری جنرل پرتگال کے معروف سفارت کار انٹونیوگوٹیرس Antonio Guterres ہیں، وہ یکم جنوری 2017 سے اس عہدے پر فائز ہیں، اِن کے علاوہ اقوام متحدہ کے اور بہت سے افسران ہیں۔ اگرچہ اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی اپنے رکن ممالک کی حکومتوں کے لحاظ سے بڑا ادارہ ہے لیکن اختیارات اور فرائض کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت سکیورٹی کونسل کی ہے اسی کے پاس دنیا بھر میں سکیورٹی اور امن قائم رکھنے کے اختیارات ہیں، جبکہ بشمول جنرل اسمبلی دیگر ادارے اپنی تجاویز اور رائے سکیورٹی کونسل کو دے سکتے ہیں۔ اقوام متحد ہ کے رکن ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت سیکورٹی کونسل کو فیصلے کا اختیار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ سلامتی کونسل 15 ارکان پر مشتمل ہے جن میں سے چین، فرانس، روس، امریکہ اور برطانیہ مستقل اور ویٹو پاور رکھنے والے ممبر ہیں، جب کہ باقی دس ممبران دو سال کی مدت کے لیے منتخب کئے جاتے ہیں ویٹو پاور اور مستقل رکنیت رکھنے والے یہ پانچ ممالک اختیار رکھتے ہیں کہ اگر کوئی قرارداد پیش کی جائے اور 10 مستقل ممبران اور پانچ میں سے چار ویٹو پاور ممبران بھی کسی قرارداد یا فیصلے کے حق میں ووٹ دے دیں اور ایک ویٹو پاور اسے ویٹو کر دے تو یہ قرار داد یا فیصلہ منظور نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے دنیا بھر میں اہمیت رکھتا ہے اور یہ سیکرٹری جنرل پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور عموماً دو مرتبہ منتخب ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ کے لیے انتخاب کی روایت نہیں ہے۔ گذشتہ 75 برسوں میں اقوام متحدہ کے 9 سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے، ٹریگولی Traygve Lie جن کا تعلق ناروے سے تھا، 2 فروری 1946 سے10 نومبر1952 تک سیکرٹری جنرل رہے اِن کے بعد ڈاگ ہمارسکولڈ Dog Hammarskigld جن کا تعلق سوئیڈن سے تھا 10 اپریل1953 سے18 ستمبر1961 تک سیکرٹری جنرل رہے، اقوامتحدہ کے تیسرے سیکرٹری جنرل یو تھانٹU Thant کا تعلق برما سے تھا جو 30 نومبر1961سے31 دسمبر1971 تک اپنے عہدے پر فائز رہے، پھر آسٹریلیا کے کرت والڈہمKurt Walhaim یکم جنوی1972 سے31 دسمبر1981 تک سیکرٹری جنرل رہے، پھر پیرو سے تعلق رکھنے والے جاوئز پیری ڈی کیولئر Javier Perez de Cuellar اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے، وہ اس عہدے پر یکم جنوری 1982 سے31 دسمبر1991 تک فائز رہے، ان کے بعد بطرس غالی جن کا تعلق مصر سے تھا یکم جنوری 1992 سے31 دسمبر1996 تک سیکرٹری جنرل رہے، ان کے بعدگھانا کے کوفی عنان Kofi Annan اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور یکم جنوری 1997 سے 31 دسمبر2006 تک ا س منصب پر فائز رہے۔
اِن کے بعد جنوبی کوریا کے بان کی مون Ban Kimon یکم جنوری2007 کو سیکرٹری جنرل بنے اور31 دسمبر2016 کو اپنے منصب سے فارغ ہوئے، اِن کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیوگوئیرس کا انتخاب یکم جنوری 2017 میں ہوا ہے اور وہ نویں سیکر ٹری جنرل کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے 75 سال مکمل ہونے پر ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے علاوہ اسکی کچھ ایجنسیاں بھی دنیا بھر کے ملکوں میں خدمت انجام دے رہی ہیں، اِن میں اہم ترین FAO فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن اس کا مر کزی دفتر روم اٹلی میں ہے۔
IAEA انٹرنیشنزل اٹامک انرجی ایجنسی ویانا آسٹریلیا، ICAO انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن مونٹریال کینڈا، IFDA انٹرنیشنل فنڈفارایگریکلچرڈیویلپمنٹ روم اٹلی،ILO انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جینیوا سوئزرلینڈ،IMO انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن لندن برطانیہ، IMF انٹرنیشنل مانیٹرینگ فنڈ واشنگٹن ڈی سی امریکہ، ITU انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین جنیوا سوئزرلینڈUNESCO یونائٹڈنیشنز ایجوکیشنل سائنسٹیفک اینڈ کلچر آرگنائزیشن پیرس فرانس،UNIDO یونائٹڈنیشنز انڈسٹریل ڈیویلپمنت آرگنائزیشن ویانا آسٹریلیا،UNWTO یواین ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن میڈریس اسپینUPU یونی ورسل پوسٹل یونین بیرن سوئزر لینڈ WBG ورلڈ ینگ گروپ واشنگٹن ڈی سیWFO ورلڈ فوڈ پروگرام روم اٹلی، WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جنیوا سوئئزلینڈ، WIPO ورلڈانٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن جنیوا سوئزرلینڈ، WMO ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن اس کا بھی مرکزی دفتر جنیوا سوئزرلینڈ میں ہے اس کے ساتھ ہی کچھ مزید ایجنسیاں ہیں مثلاً ورلڈ بنک گروپ کے ذیلی بنک یا ادارے IBRD انٹرنیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن ،IFC انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن اورIDA انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ ایسو یسی ایشن اسی طرح CTBT کمپر ہینسو نیوکلر ٹیسٹ بین ٹریٹی آرگنائزیشن،تارکین وطن کے حوالے سے IOM انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگر یشن، عالمی تجارت کے لحا ظ سےWTO ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، دنیا میں آبادی کے مسائل کے تناظر میں اقوام متحدہ کی ایجنسی یو نائیڈنیشنز پاپو لیشن فنڈ ہے، اسی طرح دنیا میں مہاجرین کے مسائل کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی UNHCHR یعنی ہائی کمشنر فار ریفوجیزہے۔
کسی بھی ادراے کی کارکردگی میں اُس کے فنڈز بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ بجٹ ممبران رضاکارنہ طور پردیتے ہیں مگر یہاں غریب اور پسماندہ ملکوں کا خیال رکھا جاتا ہے ، ممبران کی مالی شراکت کے لیے ہر ملک کی گنجائش کے مطابق اس کی بنیادی قومی آمدنی بیرونی قرضوں کی مطابقت اور فی کس آمدنی کو مد نظر رکھا جا تا ہے، یوں عموماً بڑے اور سرمایہ دار ممالک ہی اقوام متحدہ کے بجٹ کا زیادہ بوجھ برداشت کرتے ہیں، امریکہ اب بھی سب سے زیادہ حصہ دیتا ہے، 2000 تک امریکہ کل بجٹ کا 25% دیا کرتا تھا جوکم کر کے 20% کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے خرچ شد ہ بجٹ کے حوالے سے تازہ ترین اعداد وشمار 2017 کے ہیں، اس بجٹ کا کل ہجم 53.2 بلین ڈالر تھا سب سے زیادہ فنڈزامریکہ ، چین، جرمنی ،جا پان، برطانیہ سویڈن ، ناروے ، کینیڈا ،اٹلی اور فرانس نے دئیے تھے۔ اقوام کے بجٹ کا زیادہ حصہ 12 ایجنسیوں کے اخراجا ت میں جاتا ہے۔
2017 کے کل بجٹ 53.2 ارب ڈالر میں اقوام متحدہ کی بارہ ایجنسیوں کا حصہ یوں رہا نمبر1۔ ایجنسی فار فلسطین 1.2 بلین ڈالر، نمبر2۔ ہائی کمشنر فار ریفوجیز4.2 ارب ڈالر، نمبر3۔ یو نائٹڈ نیشنز چلڈ رن فنڈ 6.6 ارب ڈالر، نمبر4۔ پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن 1.4 ارب ڈالر، نمبر5۔ یواین پیس کیپنگ آپریشن 8.3 ارب ڈالر ، نمبر6 ۔ یواین ڈیویلپمنٹ پروگرام 5.2 ارب ڈالر، نمبر7۔ یو این ایف پی اے1.2 بلین ڈالر، نمبر8۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن2.8 ارب ڈالر۔ نمبر9 ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام 6.4 ارب ڈالر، نمبر10۔ ایف اے او 1.3 ارب ڈالر، نمبر11۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن 1.6 ارب ڈالر۔ یواین کا ریگولر بجٹ 5.4 بلین ڈالر ہے، اقوام متحدہ کا 70 فیصد بجٹ انسانی بنیادوں پر ترقی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔2017 کے بجٹ میں سے 35% افریقہ میں اور 23% مغربی ایشیا میں خرچ کیا گیا۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ ڈائمنڈ جوبلی 24 اکتوبر 2020 کو ہی منائی جائے گی، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل نے نئے سال کے آغاز پر دنیا کو پیغام دیا، اس پیغام میں بھی انہوں نے اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگر ہ کا ذکر کیا، انہوں نے یہ پیغام اُس وقت دیا ہے کہ جب دنیا 2020 ء میںغیر یقینی اور عدم تحفظ کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوئی تو اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئیرس نے یہ کہا ہے کہ دنیا بھر کے نوجوان اس دنیا کی سب سے بڑی امید ہیں، 29 دسمبر2019 ء کو سیکرٹری جنرل نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دنیا کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں عدم مساوات، صنفی عدم مساوات، کلائمیٹ چینج،گلوبل وارمنگ، انسانی حقوق کا تحفظ، سماجی انصاف وغیرہ جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے زمین کو ان مسائل سے بچانا ہے کیونکہ یہ دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں اور دنیا بھر کی نوجوان نسل سے ہی امید ہے کہ وہ دنیا کو بچائے گی، انہوں نے 2020 ء میں اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ ملینیم ڈیویلپمنٹ گولزکے بعد اب نئی دہائی کے گولز لائے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ نئے ہزاریے یعنی یکم جنوری سن دوہزارایک میں ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز میں اقوام متحدہ کی جانب سے خصوصاً پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوںمیں غربت کے خاتمے، پولیو، ہیپاٹائیٹس، نومولود اور کمسن بچوں کی شرح اموات، زچہ و بچہ کی شرح اموات پر کنٹرول، قدرتی آفات سے بچائو، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے کامیاب کوششیں، جیسے اہداف مقرر کئے گئے تھے جو 2010 ء کو مکمل ہوئے، اِن ہی گولز کی تجدید مزید دس سال کے لیے یعنی 2010 ء سے 2020 ء سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز دئیے گئے اور اب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل نے کہا ہے کہ اب یہ ڈیکیٹ یعنی ،،دہائی ،،کے ڈیویلپمنٹ گولز ہیں جو آئندہ دس سال جاری رہیں گے اور انہوں نے اِن تمام مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں سے توقعات وابستہ کی ہیں کہ یہی نو جوان د نیاکی امید ہیں۔ لیکن جب 5 جنوری کو یہ سطور لکھی جا رہی تھی تو عراق میں تو 3 جنوری 2020 ء کے آغاز ہی پر اقوام متحدہ کے لیے دنیا میں امن قائم رکھنے کے اعتبار سے ایک بڑا چیلنج کھڑا ہوگیا جب امریکی صدر کے حکم کے تحت میزائل حملے میں جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مہدی المندس قتل کردئیے گئے اور ایران کے شدید ردعمل کے ساتھ ساتھ عراقی وزیراعظم عدیل عبدلوامہی نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اپنی فوجیں یہاں سے نکال لے۔
(جاری ہے)
2020ء ہماری تاریخ کا وہ سال ہے جب نیویارک میں اقوم متحدہ کے ہیڈ کوارٹر سمیت پوری دنیا میں 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ منانے کی تیاریاں جاری ہیں یہ بہت حد تک اقوام متحدہ کی کامیابی ہے کہ اس عالمی ادارے نے دوسری عالمی جنگ کے بعد 75 برسوں تک ایسی کسی بڑی جنگ سے دنیا کو بچائے رکھا، دنیا کی آبادی 1914ء سے 1918ء کے درمیان ایک ارب 65 کروڑ تک رہی اور اس آبادی کا 2% سے زیادہ حصہ یعنی تین سے چار کروڑ انسان پہلی عالمی جنگ میں چار برسوں میں مارے گئے۔
یہ جنگ نوآبادیاتی نظام کے عروج پر پہنچنے اور پھر اس گراف کے نیچے آنے کا نقطہ ثابت ہوئی تھی، نوآبادیا تی نظام سولہویں صدی میں دنیاکا پورا نقشہ معلوم ہو جانے کے بعد یورپی اقوام کی جانب سے دنیا کے ملکوں پر قبضہ کر کے تجارتی، اقتصادی فائدے حاصل کرنے کی جد وجہد سے شروع ہوا، امریکہ اور دوسرے خطوں کی دریافت کے ساتھ ایشیا، افریقہ، امریکہ سمیت ملکوں پر قبضے جاری رہے، اِن یورپی نوآبادیاتی قوتوں یا ملکوں میں برطانیہ، فرانس ، نیدر لینڈ، پرتگال، سوئیڈن، روس،اسپین، ناروے ،جرمنی، اٹلی ڈنمارک اور چند چھوٹے یورپی ملک بھی شامل تھے۔
اِن کی فتوحات اس لیے اہم تھیں کہ تحریک احیائے علوم سے اِن ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً صنعت اور اس زمانے کے اعتبار سے اسلحہ اور بحری جہازسازی میں ترقی ہوئی اور اس جدت کی وجہ سے یہ ممالک اپنے سے کم علم اور کم ترقی یافتہ قوموں کو شکستیں دے کر اِن کے ملکوں کو فتح کرتے رہے۔ پھر یہی نو آبادیاتی یورپی ملک ایک دوسرے کی نوآبادیات حاصل کرنے کے لیے آپس میں بھی الجھے اور یوں یورپ میں بھی جنگیں ہوئیں، نوآبادیاتی نظام میں ایک موڑ تب آیا جب امریکہ دریافت ہوا جہاں کی مقامی آبادی کو کرسٹوفر کولمبس نے اس لیے ریڈ انڈین کا نام دیا تھا کہ وہ ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کر نے نکلا تھا اور اُسے اُس وقت کی دنیا کی آنکھوں سے چھپی یہ سر زمین مل گئی اور یہاں مقامی طور پر اُسے جو لوگ نظر آئے وہ سرخ رنگت والے تھے، پھر اِن یورپی اقوام نے اِن مقامی لوگوں کو مار مار کر تقریباً ختم کر دیا اور آج اِن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے، البتہ یہی فاتح یورپی یہاں اپنی جاگیروں کو آباد کر نے کے لیے اُس وقت افر یقہ سے سیاہ فاموں کو پکڑ کر جہاز کے جہاز بھر کر یہاں لاتے رہے، وہ اب یہاں ایک بڑی تعداد میں سفید فاموں کی طر ح مقامی امریکی تسلیم کئے جاتے ہیں۔
نو آبادیا تی دور میں سب سے بڑی قوت برطانیہ تھا جس کی نوآبادیات میں 1945 تک سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور دنیا کے تقریباً 24% رقبے اور 25 فیصد آبادی پر برطانیہ کی حکمرانی تھی مگر چونکہ امریکہ میں وہی یورپی اقوام پندرھویں صدی کے بعد مقامی آبادی بن گئیں جنہوں نے یہاں قبضہ کیا تھا اور یہاں پر برطانیہ سمیت تمام یورپی اقوام کی جانب سے اسی مقامی یورپی آبادی کے ساتھ وہ غلامانہ سلوک نہیں کیا جاتا تھا جو ایشیا،افریقہ جیسے براعظموں کے ملکوں کے ساتھ کیا جاتا تھا، لیکن جب 1770 کے قریب برطانیہ نے یہاں بھی ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی تو پھر بوسٹن ٹی پارٹی جیسا واقعہ رونما ہوا اور چائے پر ٹیکس عائد کرنے پر بحری جہازوں سے آنے والی چائے احتجاجاً سمندر میں پھینک دی گئی اور پھر امریکیوں نے انگر یزوں کے خلاف جنگ کر کے 4 جولائی1777 میں آزادی حاصل کر لی۔
امریکہ کی شمالی ریاستوں میں جو انگریزوں کی بڑی آبادی پر مشتمل ہے یہاں برطانیہ ہی کی طر ح انیسویں صدی عیسوی تک تیزرفتار صنعتی ترقی نے سماجی، سیاسی، اقتصادی، تجارتی تقاضے بدل دیئے تھے جس کی وجہ سے 1492 میں دریافت ہو نے والا ملک امریکہ جس کی تہذیبی، ثقافتی تشکیل یورپی اقوام کے جدید ترقیاتی ارتعاش سے منعکس ہوئی تھی یہ معاشرہ کچھ زیادہ تیز رفتار ہو گیا تھا اور اس نے امریکہ کی شمالی ریاستوں کی ثقافت کو صنعتی تجارتی اعتبار سے نئے انداز سے تشکیل کیا اور غلام داری نظام کو اس لیے ختم کیا کہ یہ نظام صنعتی کارخانوں، فیکٹر یوں کے لیے موزوں نہیں تھا جب کہ باقی ریا ستوں میں بڑی بڑی جاگیروں پر ہزاروں غلاموں کو کھیتوں میں کا م کرنے پر روٹی اور کپڑا کے عوض رکھنے اور نوابین کی طرح زندگی بسر کرنے کے لطف کی بنیاد پر یہ ثقافت بڑی جاندار تھی، مگر صنعت و تجارت میں جاگیر داری اور زمینداری سے زیادہ آمدنی اور سرمایہ تھا، یوں 1861 سے 1865 تک امریکہ میں خانہ جنگی رہی جو وسیع تناظر میں صنعتی انقلاب ہی تھا جو یورپی معاشرے میں 1760میں اور پھر 1820 تا 1840 نمایاں رہا۔ اور بادشاہت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں 1789 سے 1799 کا انقلابِ فرانس تھا جس کو فکری اور نظریاتی اعتبار سے روسو اور والئٹیر نے جلا بخشی اور یہ انقلاب پھر نپولین کی آمریت تک پہنچا، دوسری جانب داس کیپٹل کے خالق کارل مار کس کے اشتراکی نظریات پر روس میں لینن اور اسٹالن 1917 میں کیمونسٹ انقلاب لے آئے۔
یہ تو مساوات، ِانسانی آزادی اور حقوق کے لیے فکری ارتقاکے ساتھ ساتھ انقلابیوں کی جدوجہد کا سفر تھا تو ساتھ ہی نو آبادیا تی نظام میں حاکمیت، حصولِ اقتدار اور نوآبادیاتی قوتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملک اور خطے حاصل کرنے کے لیے آپس کی جنگیں بھی جاری رہیں جن میں سے چند خونی جنگوں کا ذکر یہاں اقوام متحدہ کی ضرورت کے اعتبار سے ضروری ہے۔
ڈوگن بغاوت چین 1862 تا 1877، اس دوران ایک کروڑ بیس لاکھ افراد ہلا ک ہوئے۔ ایشیا میں جاپانی بادشاہت کی فتوحات 1894 تا 1945، اس دوران تین کروڑ انسان ہلاک ہوئے، روس میں اشتراکی انقلاب کے مراحل اور خانہ جنگی جو1917 سے 1923تک جاری رہی اس دوران 90 لاکھ روسی ہلاک ہوئے ، نپولین کی جنگیں یورپ بشمول روس بحرالکاہل، بحراوقیانوس اور بحر ہند کے نزدیک واقع ممالک میں 1803 تا 1815 لڑی گئیں جن میں70 لاکھ انسان ہلا ک ہوئے۔ روم کے عیسائی مقدس حکمرانوں کی 30 سالہ جنگ جو 1618 سے1648تک جاری رہی، اس میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔ جنگ کوڈیا جنوبی جنگ، پوش، لیتھونیا کامن ویلتھ 1655 تا1660، اس جنگ میں40 لاکھ افراد ہلاک ہو ئے، نڈوانڈو۔ زولوجنگ یا شاکافتوحات افریقہ 1816 تا1828 ، اس دوران 20 لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔
ڈیووین ایکسوباغیوں کی جنگ چین 1856 سے1873 دس لاکھ چینی مارے گئے، میکسیکن انقلاب 1911 تا 1920، اس دوران20 لاکھ افراد مارے گئے، یوں نوآبادیاتی نظام جنگوں، فکری تحریکوں اور انقلابات سے گزرتا ہوا آخر 1914 میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ تک پہنچا جو 1918 تک جاری رہی اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اور اتحادی تھے جن میں روس اشتراکی انقلاب1917 کے بعداس جنگ سے نکل آیا اور اس کی جگہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا، اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی اور ترکی کی خلا فتِ عثمانیہ تھی،اس جنگ کے اختتام پر دنیا اقتصادی، معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے اعتبار سے تبدیل ہو گئی، کمزور ملکوں پر قبضے کے لحاظ سے یہ نوآبادیاتی نظام کی آخری حد تھی۔ اس جنگ میں شکست کے بعد ترکی بطور ملک اپنے آپ کو بمشکل اتاترک مصطفٰی کمال پا شا کی قیادت میں بچا سکا، اس کے علاوہ دو مسلم ملک ہی آزاد و خود مختار کہے جا سکتے تھے، ایک افغانستان جو برطانوی ہند اور روس کی سنٹرل ایشیا کی نوآبادیا ت کے درمیان حائلی ریاست کے طور پر تھا، اور دوسرا ملک سعودی عرب تھا جس کو انگریزوں نے اس لیے آزاد رکھا تھا کہ مسلمان جذباتی ہو کر مشکل پید ا کر دیں گے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے فرما یا تھا
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جنگ عظیم اوّل میں جہاں تین کروڑ انسان ہلاک ہوئے تھے وہاں اس سے کچھ زیادہ زخمی اور معذور بھی ہوئے تھے، اس جنگ کے شدید سیاسی،اقتصادی، سماجی اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے، ترکی کے مرکز پر قائم وسیع سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی، زارِ روس جیسی وسیع سلطنت میں اشتراکی انقلاب آگیا اور دنیا کی سب سے وسیع اور طاقتور سلطنتِ برطانیہ پہلی عالمی جنگ جیتنے کے باوجود کمزور ہوئی اور اس کی جگہ امریکہ دنیا کی سپر پاور بن گیا، اب پوری دنیا میں اس کے مجموعی رقبے اور مجموعی آبادی کے لحاظ سے نظریاتی، فکری اعتبار سے گروہی اختلافات بھی تھے اور اتفاق بھی۔
ایک جانب دنیا میں سرمایہ دار انہ اور جاگیردارانہ نظاموں کو اشتراکی نظریات کے حامی چیلنج کر رہے تھے تو دوسری جانب سرمایہ دارنہ اور آزاد مارکیٹ کا نظام جدید جمہوری سیاسی نظام کے ساتھ امریکہ کو بنیادی قلعہ بنا کر اشتراکی نظامِ معیشت اور سیاست کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا، پھر جرمنی، جاپان اور کچھ ملکوں میں جنگ عظیم اوّل کے ردعمل میں نیشنل ازم، فاشزم کی انتہائوں کے ساتھ بڑھ رہا تھا، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ترکی ، عربوں کی جانب سے پہلی عالمی جنگ میں بغاوت اور انگریزوں کا ساتھ دینے پر غم و غصہ بھی رکھتا تھا اور شکست کے بعد صرف ترک قوم اور ترکی کو قائم رکھنے پر توجہ کئے ہوئے تھا، سعودی عرب آزاد تھا مگر یہاں بادشاہت کا اعلان ہوا تھا، اسلامی خلافت کا نہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو مرکزیت اور اتحاد فراہم نہیں کر رہا تھا اور باقی عرب ملکوں اور ریاستوں میں بھی بادشاہتیں تھیں لیکن اِن کی حیثیت نوآبادیات کی تھی، جہاں تک تعلق دنیا کے عام مسلمانوں کا تھا تو وہ خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹ جانے پر غمزدہ اور مایوس تھے،اس پر اگر کچھ جدوجہد کی تو وہ برصغیر کے مسلمانوں نے کی تھی اور وہ بھی ناکام ہو گئی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد شکست خوردہ جرمنی سے اتحادیوں نے معاہد ہ ِوارسائی پر دستخط کروائے جو جرمنی کے لیے ایک ذلت آمیز معاہدہ تھا اور بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اسی معاہدے نے دوسری جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔
28 جون 1919 کو فرانس میں پیرس کے وارسائی محل میںاس معاہدہ پر دستخط ہوئے اور اس پر عملدرآمد 10 جنوری 1920 میں ہوا۔ معاہدہ کے آرٹیکل 231 کے تحت جرمنی کو غیر مسلح کر دیا گیا اور اس پر تاوانَ جنگ کے طور پر 132 ارب جرمن مارک جو اُس زمانے میں 31.4 بلین ڈالر کے برابر تھے رکھے گئے۔ یہ معاہد ہ انگریزی اور فرانسیسی میں تحریر کیا گیا، یہاں اس کو جرمن زبان میں بھی تحر یر نہیں کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے خصوصاً برطانوی، فرانسیسی، امریکی اور روسی مفکرین اور دانشوروں نے زور دیا کہ کوئی ایسا عالمی سطح کا ادارہ ہونا چاہیے جو آئندہ دنیا کو کسی دوسری عالمی جنگ سے روک سکے، یوں ان خطوط پر جنگ عظیم اوّل کے دوران بہت کچھ لکھا اور کہا گیا اور پھر 10 جنوری1920 کو ہی اقوامِ عالم، لیگ آف نیشنز، کا ادارہ وجود میں آیا، اس ادارے کی تشکیل کا ذکر معاہدہ وارسائی میں تھا۔
1920 سے 1939 تک اس کے کل ممبران کی تعداد 63 تھی، اس دوران لیگ آف نیشنز سے رکن ممالک نکلے بھی اور کچھ ممالک داخل بھی ہوئے، امریکہ لیگ آف نیشنز کا کبھی رکن نہیں رہا۔ اسی طرح اُس زمانے میں خودمختار یا نیم خود مختار ممالک سعودی عرب، یمن، منگولیا، نیپال، بھوٹان اس کے رکن نہیں رہے اسی طرح یورپ کی چھوٹی ریا ستیںلیچینسٹین، موناکو، سن مارنیو اور ویٹکن سٹی بھی اقوام عالم کے رکن نہیں بنے۔ لیگ آف نیشنز کے سب سے زیادہ ممبر 1934 سے1935 کے دوران رہے جب اس کے کل ممبران کی تعداد 58 رہی۔ واضح رہے کہ 1930 سے1932 تک دنیا بھر میں پہلی جنگ عظیم کے اثرات عظیم عالمی کساد بازاری کی صورت میں ظاہر ہوئے اور اسی دوران جرمنی میں ہٹلر قوت پکڑنے لگا اور دوسری جانب سوویت یونین اسٹالن کی آمریت اور مضبوط حکومت کے ساتھ مستحکم ہو گیا تھا۔
جرمنی جس کو معاہدہ وارسائی کے کافی عرصے بعد 9 ستمبر1931 کو لیگ آف نیشنز میں شامل کیا گیا تھا وہ 9 اکتوبر 1933 میں لیگ آف نیشنز سے نکل آیا ، جب کہ سابق سوویت یونین نے1939 نے جب اپنی فوجیں فن لینڈ میں داخل کر کے اُس پر قبضہ کر لیا تو اسے لیگ آف نیشنز سے نکال دیا گیا، یوں اِس لیگ آف نیشنز سے نکالے جانے والا یہ واحد ملک تھا، باقی ممالک جو خود لیگ آف نیشنز کو چھوڑ گئے اِن کی تفصیلا ت یوں ہیں، برازیل 1926، جاپان 1933، ایران1934 اور پھر 1935 میں پارایاگویا، 1936 نکاراگویا، ہنڈراس، 1937 میں اٹلی، 1938 میںچلی، وینز ویلا، 1939 میںپیرو، تھائی لینڈ، اسپین، 1939 ہی میں چیکوسلواکیہ پرجرمنی نے قبضہ کر لیا، 1940 میں رومانیہ اور18 اپریل 1941 کو فرانس نکلا، لیکن فرانسیسی فوج نے اس کو تسلیم نہیں کیا، 1942 میں ہیٹی لیگ آف نیشنز سے نکل گیا، جب کہ ارجنٹائن،آسٹریلیا، بولیویا، برٹش امپائر، کینیڈا، چلی ، چین، کولمبیا،کیوبا، یوگو سلاویہ، ڈنمارک،ایلسلواڈور، فرانس، یونان،گوئٹے مالا، ہندوستان، لیبیا، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ،ناروے، پانامہ، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، جنوبی افریقہ، سویڈن، سوئزرلینڈ، لاووروگوئے، آسٹریا،بلغاریہ، فن لینڈ، لگسمبرگ،البانیہ، اسٹونیا،لیتھویا، ہنگری، دی آئریش فری اسٹیٹ، ایتھوپیا، ڈومینینا سٹیٹ ری پبلک میکسیکو، ترکی ،عراق،افغانستان، ایکواڈور ایسے ممالک تھے جو لیگ آف نیشنز کے 1946 تک جب تک یہ قائم تھی رکن رہے۔
لیگ آف نیشنز کا آئیڈیا تو بہت اچھا تھا مگر یہ نہ تو مفکرین کے تصورات کے مطابق پوری طرح تشکیل پا سکی اور نہ ہی موثر ثابت ہوئی، برطانیہ یعنی برٹش امپائر کی اس پر زیادہ مضبوط گرفت تھی کہ برطانیہ خود بھی طاقتور تھا اور پھر لیگ آف نیشنز میں شامل بعض بڑے ممالک بھی اُس کی نوآبادیا ت تھے، روس کو لیگ آف نیشنز کے اصول و ضوابط کی خلا ف ورزی پر نکال دیا گیا، جرمنی جیسی قوت جو جنگ عظیم اوّل کے 15 سال بعد جنگی قوت بنی تھی، اُسے1933 میں معاہد ہ وارسائی پر دستخط کی ذ لت یاد تھی اور لیگ آف نیشنز بھی اس میں شامل تھی، اُس نے بھی لیگ آف نیشنز کو چھوڑا اور امریکہ جو حقیقت میں دنیا کی نئی سپر پاور بن چکا تھا وہ پہلے ہی نوآبادیاتی نظام میں عالمی سطح کی اس تنظیم کے خدو خال سے اندازہ کر بیٹھا تھا کہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔ اس دوران نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس ادارے کی جانب سے عالمی امن کے لحاظ سے کوئی دیانتدارانہ اور انصاف پسندانہ انداز بھی نہیں تھا اور نہ ہی نیت صاف تھی۔
دوسری جانب سوویت یونین کے اشتراکی نظام سے بہت سے ملک خوفزدہ تھے خصوصاً وہ ممالک جہاں جنگ اور پھر عالمی کساد بازاری کی وجہ سے بھوک اور افلاس میں بہت اضافہ ہو گیا تھا یہی وجہ تھی کہ دنیا کے کچھ ملکوں میںاشتراکی نظریات کے فروغ کے ساتھ اشتراکی انقلابات کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے اور جرمنی کے معاشی اقتصادی اور دفاعی طور پر دوبارہ طاقتور ہو نے کے سبب مشرقی اور مغربی یورپ دونوں میں سرمایہ اور سرمایہ داری دونوں سہمے ہوئے تھے، اس فضا میں محفوظ، طاقتور، وسیع رقبے اور مواقع کی سرزمین امریکہ تھا جو دنیا کے سرمایہ داروں اور ذہین و فطین لوگوں کے لیے جنت بن گیا تھا۔
اِن حالات میں1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، اُس وقت دنیا کی کل آبادی 2 ارب30 کروڑ تھی، 1945 میں جب جنگ عظیم دوئم ختم ہوئی تو جنگ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات کروڑ سے ساڑھے آٹھ کروڑ کے درمیان تھی یعنی دنیا کی کل آبادی کا 3% حصّہ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
اس جنگ میں امریکہ تاخیر سے اُس وقت شامل ہوا جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر حملہ کیا، یوں 1941 کے آخر اور 1942 کے آغاز میں امریکہ اس میں شامل ہوا، جنگ کے آغاز پر روس جرمنی کے ساتھ تھا اور پھر اس کے خلاف اتحاد میں شامل ہوا، جب کہ جاپان جرمنی کے ساتھ ر ہا، اور آخر 6 اور 9 اگست 1945 کو امریکہ کی جانب سے ہیروشیما اور نا گا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، اس جنگ میں نو کروڑ سے زیادہ انسان زخمی اور معذور ہوئے پورا یورپ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا اور ساتھ ہی دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خوفناک تباہی ہوئی۔ یوں 18 اپریل 1945 کوLeage of Nation ادارہِ اقوام ِ عالم تحلیل کردیا گیا اور اس کی جگہ United Nation اقوام متحدہ کا ادارہ 25 اپریل1945 میں اُس وقت تشکیل پانے لگا جب دینا کے تقریباً 51 ملکوں کی حکومتیں سان فرانسسکو میں جمع ہوئیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے لکھنے کا کام شروع ہوا۔
Charter of United Nations اقوام متحدہ کے چارٹر کا مسودہ دنیا کی اِن حکومتوں نے 14 اگست 1945 کو مکمل کر لیا۔ اگر چہ یہ چارٹر بظاہر تقریباً چار مہینوں کی مدت میں لکھا گیا تھا لیکن اس کے پس منظر میں مفکرین اور دانشوروں کی وہ مسلسل کوششیں جو تحریروں کی شکل میں لیگ آفنیشنز سے پہلے جنگ ِعظیم اوّل سے لیکر جنگ ِ عظیم دوئم تک لکھی جاتی رہیں اِن حکومتوں اور سربراہوں کے لیے مشعل ِ راہ تھیں۔ لیگ آفنیشنز اور معاہدہ ِ وارسائی کے کمزور پہلو اور ناکامی کے اسباب بھی تھے اور پھر دوسری جنگ عظیم کی وجوہات کے ساتھ آئندہ کے لیے تجاویز بھی تھیں، اس لیے چارٹر کا یہ مسودہ یا ڈرافٹ ماضی کے ایسے مسودات سے بہت بہتر اور معیاری تھا پھر بھی اس پر نظرثانی کی گئی لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کا یہ ادارہ جو بین الاقوامی حکومتوں پر مشتمل عالمی ادارہ ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں امن اور اس کے تحفظ کو یقینی بنائے اور پوری دنیا میں اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دے تاکہ عالمی سطح پر اس مرکز ی عالمی ادارے کے تحت امن اور برداشت کے ساتھ اقوام کام کر یں۔ یوں اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے تحت 24 اکتوبر 1945 سے اقوام متحدہ نے باقاعدہ کام شروع کیا، اس کے بنیادی یا ابتدائی ممبر ملکوں کی تعداد 1945 میں 51 تھی جو 2011 تک 193 ہوگئی، اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک امریکہ میں عالمی رقبے کی بنیاد پر قائم ہے، جب کہ ذیلی دفاتر یا ادارے جنیوا، نیروبی، ویانا اور ہیگ میںہیں، اس ادارے کی دفتری زبانیں ، عربی ، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی ہیں ۔ اقوام متحد ہ کے چھ بنیادی ادارے یا تنظیمیں ہیں، نمبر 1 ۔جنرل اسمبلی، نمبر2 ۔ سیکورٹی کونسل، نمبر3 ۔اکنامک اینڈ سوشل کو نسل، نمبر 4 ۔ ٹرسٹی شپ کونسل، نمبر5 ۔انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس، نمبر6۔ یو این سیکرٹریٹ۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے نظام میں اس کی اسپیشل ایجنسیاںبھی شامل ہیں، ورلڈ بنک ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش، ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسکو اور یونیسف ہیں اور اسی طرح یواین کے ماتحت ادارے بھی ہیں۔
اقوام متحدہ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر سیکرٹری جنرل کہلاتا ہے، حالیہ سیکرٹری جنرل پرتگال کے معروف سفارت کار انٹونیوگوٹیرس Antonio Guterres ہیں، وہ یکم جنوری 2017 سے اس عہدے پر فائز ہیں، اِن کے علاوہ اقوام متحدہ کے اور بہت سے افسران ہیں۔ اگرچہ اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی اپنے رکن ممالک کی حکومتوں کے لحاظ سے بڑا ادارہ ہے لیکن اختیارات اور فرائض کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت سکیورٹی کونسل کی ہے اسی کے پاس دنیا بھر میں سکیورٹی اور امن قائم رکھنے کے اختیارات ہیں، جبکہ بشمول جنرل اسمبلی دیگر ادارے اپنی تجاویز اور رائے سکیورٹی کونسل کو دے سکتے ہیں۔ اقوام متحد ہ کے رکن ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت سیکورٹی کونسل کو فیصلے کا اختیار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ سلامتی کونسل 15 ارکان پر مشتمل ہے جن میں سے چین، فرانس، روس، امریکہ اور برطانیہ مستقل اور ویٹو پاور رکھنے والے ممبر ہیں، جب کہ باقی دس ممبران دو سال کی مدت کے لیے منتخب کئے جاتے ہیں ویٹو پاور اور مستقل رکنیت رکھنے والے یہ پانچ ممالک اختیار رکھتے ہیں کہ اگر کوئی قرارداد پیش کی جائے اور 10 مستقل ممبران اور پانچ میں سے چار ویٹو پاور ممبران بھی کسی قرارداد یا فیصلے کے حق میں ووٹ دے دیں اور ایک ویٹو پاور اسے ویٹو کر دے تو یہ قرار داد یا فیصلہ منظور نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے دنیا بھر میں اہمیت رکھتا ہے اور یہ سیکرٹری جنرل پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور عموماً دو مرتبہ منتخب ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ کے لیے انتخاب کی روایت نہیں ہے۔ گذشتہ 75 برسوں میں اقوام متحدہ کے 9 سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے، ٹریگولی Traygve Lie جن کا تعلق ناروے سے تھا، 2 فروری 1946 سے10 نومبر1952 تک سیکرٹری جنرل رہے اِن کے بعد ڈاگ ہمارسکولڈ Dog Hammarskigld جن کا تعلق سوئیڈن سے تھا 10 اپریل1953 سے18 ستمبر1961 تک سیکرٹری جنرل رہے، اقوامتحدہ کے تیسرے سیکرٹری جنرل یو تھانٹU Thant کا تعلق برما سے تھا جو 30 نومبر1961سے31 دسمبر1971 تک اپنے عہدے پر فائز رہے، پھر آسٹریلیا کے کرت والڈہمKurt Walhaim یکم جنوی1972 سے31 دسمبر1981 تک سیکرٹری جنرل رہے، پھر پیرو سے تعلق رکھنے والے جاوئز پیری ڈی کیولئر Javier Perez de Cuellar اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے، وہ اس عہدے پر یکم جنوری 1982 سے31 دسمبر1991 تک فائز رہے، ان کے بعد بطرس غالی جن کا تعلق مصر سے تھا یکم جنوری 1992 سے31 دسمبر1996 تک سیکرٹری جنرل رہے، ان کے بعدگھانا کے کوفی عنان Kofi Annan اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور یکم جنوری 1997 سے 31 دسمبر2006 تک ا س منصب پر فائز رہے۔
اِن کے بعد جنوبی کوریا کے بان کی مون Ban Kimon یکم جنوری2007 کو سیکرٹری جنرل بنے اور31 دسمبر2016 کو اپنے منصب سے فارغ ہوئے، اِن کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیوگوئیرس کا انتخاب یکم جنوری 2017 میں ہوا ہے اور وہ نویں سیکر ٹری جنرل کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے 75 سال مکمل ہونے پر ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے علاوہ اسکی کچھ ایجنسیاں بھی دنیا بھر کے ملکوں میں خدمت انجام دے رہی ہیں، اِن میں اہم ترین FAO فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن اس کا مر کزی دفتر روم اٹلی میں ہے۔
IAEA انٹرنیشنزل اٹامک انرجی ایجنسی ویانا آسٹریلیا، ICAO انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن مونٹریال کینڈا، IFDA انٹرنیشنل فنڈفارایگریکلچرڈیویلپمنٹ روم اٹلی،ILO انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جینیوا سوئزرلینڈ،IMO انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن لندن برطانیہ، IMF انٹرنیشنل مانیٹرینگ فنڈ واشنگٹن ڈی سی امریکہ، ITU انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین جنیوا سوئزرلینڈUNESCO یونائٹڈنیشنز ایجوکیشنل سائنسٹیفک اینڈ کلچر آرگنائزیشن پیرس فرانس،UNIDO یونائٹڈنیشنز انڈسٹریل ڈیویلپمنت آرگنائزیشن ویانا آسٹریلیا،UNWTO یواین ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن میڈریس اسپینUPU یونی ورسل پوسٹل یونین بیرن سوئزر لینڈ WBG ورلڈ ینگ گروپ واشنگٹن ڈی سیWFO ورلڈ فوڈ پروگرام روم اٹلی، WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جنیوا سوئئزلینڈ، WIPO ورلڈانٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن جنیوا سوئزرلینڈ، WMO ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن اس کا بھی مرکزی دفتر جنیوا سوئزرلینڈ میں ہے اس کے ساتھ ہی کچھ مزید ایجنسیاں ہیں مثلاً ورلڈ بنک گروپ کے ذیلی بنک یا ادارے IBRD انٹرنیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن ،IFC انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن اورIDA انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ ایسو یسی ایشن اسی طرح CTBT کمپر ہینسو نیوکلر ٹیسٹ بین ٹریٹی آرگنائزیشن،تارکین وطن کے حوالے سے IOM انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگر یشن، عالمی تجارت کے لحا ظ سےWTO ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، دنیا میں آبادی کے مسائل کے تناظر میں اقوام متحدہ کی ایجنسی یو نائیڈنیشنز پاپو لیشن فنڈ ہے، اسی طرح دنیا میں مہاجرین کے مسائل کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی UNHCHR یعنی ہائی کمشنر فار ریفوجیزہے۔
کسی بھی ادراے کی کارکردگی میں اُس کے فنڈز بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ بجٹ ممبران رضاکارنہ طور پردیتے ہیں مگر یہاں غریب اور پسماندہ ملکوں کا خیال رکھا جاتا ہے ، ممبران کی مالی شراکت کے لیے ہر ملک کی گنجائش کے مطابق اس کی بنیادی قومی آمدنی بیرونی قرضوں کی مطابقت اور فی کس آمدنی کو مد نظر رکھا جا تا ہے، یوں عموماً بڑے اور سرمایہ دار ممالک ہی اقوام متحدہ کے بجٹ کا زیادہ بوجھ برداشت کرتے ہیں، امریکہ اب بھی سب سے زیادہ حصہ دیتا ہے، 2000 تک امریکہ کل بجٹ کا 25% دیا کرتا تھا جوکم کر کے 20% کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے خرچ شد ہ بجٹ کے حوالے سے تازہ ترین اعداد وشمار 2017 کے ہیں، اس بجٹ کا کل ہجم 53.2 بلین ڈالر تھا سب سے زیادہ فنڈزامریکہ ، چین، جرمنی ،جا پان، برطانیہ سویڈن ، ناروے ، کینیڈا ،اٹلی اور فرانس نے دئیے تھے۔ اقوام کے بجٹ کا زیادہ حصہ 12 ایجنسیوں کے اخراجا ت میں جاتا ہے۔
2017 کے کل بجٹ 53.2 ارب ڈالر میں اقوام متحدہ کی بارہ ایجنسیوں کا حصہ یوں رہا نمبر1۔ ایجنسی فار فلسطین 1.2 بلین ڈالر، نمبر2۔ ہائی کمشنر فار ریفوجیز4.2 ارب ڈالر، نمبر3۔ یو نائٹڈ نیشنز چلڈ رن فنڈ 6.6 ارب ڈالر، نمبر4۔ پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن 1.4 ارب ڈالر، نمبر5۔ یواین پیس کیپنگ آپریشن 8.3 ارب ڈالر ، نمبر6 ۔ یواین ڈیویلپمنٹ پروگرام 5.2 ارب ڈالر، نمبر7۔ یو این ایف پی اے1.2 بلین ڈالر، نمبر8۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن2.8 ارب ڈالر۔ نمبر9 ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام 6.4 ارب ڈالر، نمبر10۔ ایف اے او 1.3 ارب ڈالر، نمبر11۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن 1.6 ارب ڈالر۔ یواین کا ریگولر بجٹ 5.4 بلین ڈالر ہے، اقوام متحدہ کا 70 فیصد بجٹ انسانی بنیادوں پر ترقی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔2017 کے بجٹ میں سے 35% افریقہ میں اور 23% مغربی ایشیا میں خرچ کیا گیا۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ ڈائمنڈ جوبلی 24 اکتوبر 2020 کو ہی منائی جائے گی، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل نے نئے سال کے آغاز پر دنیا کو پیغام دیا، اس پیغام میں بھی انہوں نے اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگر ہ کا ذکر کیا، انہوں نے یہ پیغام اُس وقت دیا ہے کہ جب دنیا 2020 ء میںغیر یقینی اور عدم تحفظ کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوئی تو اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئیرس نے یہ کہا ہے کہ دنیا بھر کے نوجوان اس دنیا کی سب سے بڑی امید ہیں، 29 دسمبر2019 ء کو سیکرٹری جنرل نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دنیا کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں عدم مساوات، صنفی عدم مساوات، کلائمیٹ چینج،گلوبل وارمنگ، انسانی حقوق کا تحفظ، سماجی انصاف وغیرہ جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے زمین کو ان مسائل سے بچانا ہے کیونکہ یہ دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں اور دنیا بھر کی نوجوان نسل سے ہی امید ہے کہ وہ دنیا کو بچائے گی، انہوں نے 2020 ء میں اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ ملینیم ڈیویلپمنٹ گولزکے بعد اب نئی دہائی کے گولز لائے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ نئے ہزاریے یعنی یکم جنوری سن دوہزارایک میں ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز میں اقوام متحدہ کی جانب سے خصوصاً پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوںمیں غربت کے خاتمے، پولیو، ہیپاٹائیٹس، نومولود اور کمسن بچوں کی شرح اموات، زچہ و بچہ کی شرح اموات پر کنٹرول، قدرتی آفات سے بچائو، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے کامیاب کوششیں، جیسے اہداف مقرر کئے گئے تھے جو 2010 ء کو مکمل ہوئے، اِن ہی گولز کی تجدید مزید دس سال کے لیے یعنی 2010 ء سے 2020 ء سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز دئیے گئے اور اب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل نے کہا ہے کہ اب یہ ڈیکیٹ یعنی ،،دہائی ،،کے ڈیویلپمنٹ گولز ہیں جو آئندہ دس سال جاری رہیں گے اور انہوں نے اِن تمام مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں سے توقعات وابستہ کی ہیں کہ یہی نو جوان د نیاکی امید ہیں۔ لیکن جب 5 جنوری کو یہ سطور لکھی جا رہی تھی تو عراق میں تو 3 جنوری 2020 ء کے آغاز ہی پر اقوام متحدہ کے لیے دنیا میں امن قائم رکھنے کے اعتبار سے ایک بڑا چیلنج کھڑا ہوگیا جب امریکی صدر کے حکم کے تحت میزائل حملے میں جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مہدی المندس قتل کردئیے گئے اور ایران کے شدید ردعمل کے ساتھ ساتھ عراقی وزیراعظم عدیل عبدلوامہی نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اپنی فوجیں یہاں سے نکال لے۔
(جاری ہے)