ناول کورونا وائرس کا توڑ صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما
صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما شدید متاثرہ مریضوں کو لگانے پر وہ تمام افراد بھی تندرست ہوگئے
چینی ماہرین نے ناول کورونا وائرس کے حملے کے بعد صحت یاب ہوجانے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ اپنا خون عطیہ کریں تاکہ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو بھی افاقہ ہوسکے۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 67 ہزار سے زیادہ افراد ناول کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے 1526 لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ 8410 افراد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔
بچنے والے تمام افراد کے جسمانی دفاعی نظام قدرتی طور پر ایسے پروٹین (اینٹی باڈیز) تیار کرنے لگے ہیں جنہوں نے ناول کورونا وائرس کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے، بالآخر، ان مریضوں کو مکمل طور پر صحت یاب کردیا۔
طبّی حقائق کے مطابق، یہ اینٹی باڈیز ان افراد کے خوناب (بلڈ پلازما) میں آئندہ کئی مہینوں تک شامل رہیں گی تاکہ جیسے ہی کوئی ناول کورونا وائرس دکھائی دے، فوراً اسے تباہ کر ڈالیں۔
اگرچہ ماہرین اب تک ان اینٹی باڈیز کو دریافت تو نہیں کر پائے ہیں مگر انہیں یقین تھا کہ اگر ناول کورونا وائرس کے حملے سے صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما، اس وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کو لگا دیا جائے تو نہ صرف ان کی بیماری کی شدت میں کمی آجائے گی بلکہ وہ جلد صحت یاب بھی ہوسکتے ہیں... کیونکہ اس بلڈ پلازما میں ناول کورونا وائرس کو شکست دینے والی اینٹی باڈیز بھی یقیناً موجود ہوں گی۔
اسی خیال کے پیشِ نظر چین کی سرکاری کمپنی ''چائنا نیشنل بایوٹیک'' کے سائنسدانوں نے ناول کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مکمل صحت یاب ہوجانے والے چند رضاکاروں سے بلڈ پلازما کا عطیہ لیا جو ایسے 10 مریضوں کو لگایا گیا جو اس وائرس کے باعث شدید بیمار تھے اور بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
یہ تجربہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جن مریضوں کو یہ عطیہ کردہ بلڈ پلازما لگایا گیا تھا، ان سب کی صحت اگلے 12 سے 24 گھنٹوں میں بہتر ہونے لگی۔ یعنی کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما، دوسرے کئی مریضوں کی جانیں بچا سکتا ہے۔
اس تجربے پر دنیا بھر سے ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ماہرین کو اعتراض ہے کہ چین کو اس معاملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد ہی صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما لگانا چاہیے تھا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کا بلڈ پلازما دوسرے شخص میں منتقل کرنے کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں جنہیں مدنظر نہیں رکھا گیا۔
تاہم طبّی ماہرین کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ چین کو اس وقت ناول کورونا وائرس کی وجہ سے شدید ترین ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہے اور اگر ایسے حالات میں کوئی امکانی لیکن غیر مصدقہ علاج سامنے آرہا ہے تو اسے آزمانے میں کوئی قباحت ہر گز نہیں۔ یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں وبائی امراض کے پروفیسر، بنجمن کاؤلنگ نے چین کی اس حکمتِ عملی کو بالکل مناسب قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں مختلف مواقع پر، جب انفلوئنزا کی عالمی وبائیں اپنے عروج پر تھیں، کئی ممالک میں نئے انفلوئنزا سے صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما، مریضوں کو لگایا جاچکا ہے لہذا یہ کوئی غیر آزمودہ طریقہ ہر گز نہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ فی الحال ہمارے پاس ناول کورونا وائرس کا کوئی باقاعدہ اور تصدیق شدہ علاج موجود نہیں۔ تاہم اسے قابو میں رکھنے کےلیے ایک طرف نئی ویکسین پر کام جاری ہے تو دوسری جانب پرانے کورونا وائرس (MERS) کےلیے بنائی گئی ویکسین کو بندروں پر آزمایا جارہا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ویکسین کی دستیابی اگلے چند ماہ سے لے کر 18 ماہ تک ہی ممکن ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 67 ہزار سے زیادہ افراد ناول کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے 1526 لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ 8410 افراد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔
بچنے والے تمام افراد کے جسمانی دفاعی نظام قدرتی طور پر ایسے پروٹین (اینٹی باڈیز) تیار کرنے لگے ہیں جنہوں نے ناول کورونا وائرس کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے، بالآخر، ان مریضوں کو مکمل طور پر صحت یاب کردیا۔
طبّی حقائق کے مطابق، یہ اینٹی باڈیز ان افراد کے خوناب (بلڈ پلازما) میں آئندہ کئی مہینوں تک شامل رہیں گی تاکہ جیسے ہی کوئی ناول کورونا وائرس دکھائی دے، فوراً اسے تباہ کر ڈالیں۔
اگرچہ ماہرین اب تک ان اینٹی باڈیز کو دریافت تو نہیں کر پائے ہیں مگر انہیں یقین تھا کہ اگر ناول کورونا وائرس کے حملے سے صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما، اس وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کو لگا دیا جائے تو نہ صرف ان کی بیماری کی شدت میں کمی آجائے گی بلکہ وہ جلد صحت یاب بھی ہوسکتے ہیں... کیونکہ اس بلڈ پلازما میں ناول کورونا وائرس کو شکست دینے والی اینٹی باڈیز بھی یقیناً موجود ہوں گی۔
اسی خیال کے پیشِ نظر چین کی سرکاری کمپنی ''چائنا نیشنل بایوٹیک'' کے سائنسدانوں نے ناول کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مکمل صحت یاب ہوجانے والے چند رضاکاروں سے بلڈ پلازما کا عطیہ لیا جو ایسے 10 مریضوں کو لگایا گیا جو اس وائرس کے باعث شدید بیمار تھے اور بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
یہ تجربہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جن مریضوں کو یہ عطیہ کردہ بلڈ پلازما لگایا گیا تھا، ان سب کی صحت اگلے 12 سے 24 گھنٹوں میں بہتر ہونے لگی۔ یعنی کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما، دوسرے کئی مریضوں کی جانیں بچا سکتا ہے۔
اس تجربے پر دنیا بھر سے ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ماہرین کو اعتراض ہے کہ چین کو اس معاملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد ہی صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما لگانا چاہیے تھا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کا بلڈ پلازما دوسرے شخص میں منتقل کرنے کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں جنہیں مدنظر نہیں رکھا گیا۔
تاہم طبّی ماہرین کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ چین کو اس وقت ناول کورونا وائرس کی وجہ سے شدید ترین ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہے اور اگر ایسے حالات میں کوئی امکانی لیکن غیر مصدقہ علاج سامنے آرہا ہے تو اسے آزمانے میں کوئی قباحت ہر گز نہیں۔ یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں وبائی امراض کے پروفیسر، بنجمن کاؤلنگ نے چین کی اس حکمتِ عملی کو بالکل مناسب قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں مختلف مواقع پر، جب انفلوئنزا کی عالمی وبائیں اپنے عروج پر تھیں، کئی ممالک میں نئے انفلوئنزا سے صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما، مریضوں کو لگایا جاچکا ہے لہذا یہ کوئی غیر آزمودہ طریقہ ہر گز نہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ فی الحال ہمارے پاس ناول کورونا وائرس کا کوئی باقاعدہ اور تصدیق شدہ علاج موجود نہیں۔ تاہم اسے قابو میں رکھنے کےلیے ایک طرف نئی ویکسین پر کام جاری ہے تو دوسری جانب پرانے کورونا وائرس (MERS) کےلیے بنائی گئی ویکسین کو بندروں پر آزمایا جارہا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ویکسین کی دستیابی اگلے چند ماہ سے لے کر 18 ماہ تک ہی ممکن ہوسکے گی۔