گریٹر اقبال پارک اور رنجیت سنگھ کا مجسمہ

شاہی قلعے کے وسیع میوزیم میں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے سکھاراج کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پر سوار مجسمہ نصب ہے

گریٹر اقبال پارک میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود نصب کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

KARACHI ':
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ملک پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام پر موٹر ویز، سڑکوں کے جال، تفریح گاہوں کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات کے حوالے سے جو احسانات کیے ہیں اسے باآسانی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ان ہی احسانات میں سے منٹو پارک، جہاں پہلے دھول مٹی اڑا کرتی تھی اور لڑکے کرکٹ کا شوق پورا کرتے تھے، میں اچانک بہت زیادہ تبدیلیاں کی گئیں اور اس اجڑے میدان کو ریگستان سے گلزار میں تبدیل کردیا گیا۔ اب اسے گریٹر اقبال پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہاں آنے والے ایک ہی وقت میں مینار پاکستان کی سیر، اس کے قریب ہی موجود قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال سمیت 3 بزرگان دین کے مقابر کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغل دور میں تعمیر کی جانے والی بادشاہی مسجداور شاہی قلعے کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ان تمام یادگاروں کو دیکھنے کےلیے عوام کو کئی ایکڑ پر پھیلے اس گریٹر اقبال پارک (جہاں مصنوعی جھیلوں میں کشتی رانی، فاؤنٹین اور دیگر یادگاریں و شاہکار موجود ہیں) کا پیدل فاصلہ طے نہیں کرنا پڑتا، بلکہ تفریح کےلیے آنے والوں کو تھکاوٹ سے بچانے کےلیے سفاری ریل گاڑیاں، کھلی چھت کے رکشے، وکٹوریہ موجود ہیں۔ جو ہر نصف گھنٹے بعد عوام کو تفریحی مقامات کی سیر کروانے کےلیے چلتے ہیں۔ پارک میں بڑی بڑی کینٹین بھی موجود ہیں، جہاں کھانے پینے کے علاوہ مشروبات بھی دستیاب ہوتے ہیں۔



گریٹر اقبال پارک میں تمام یادگاروں کی علیحدہ علیحدہ ٹھوس تواریخ موجود ہیں، لیکن ان میں سب سے قدیم، سب سے منفرد تاریخ مغل دور میں تعمیر ہونے والے شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کی ہے، جو کہ آج بھی پوری آن بان شان کے ساتھ آنے والوں کو ماضی کا احوال بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ بادشاہی مسجد کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے، جو ناصرف عالیشان بلکہ انتہائی دیدہ زیب ہے۔ جہاں مغل بادشاہوں سمیت ملک کے بڑے بڑے حکمرانوں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ گو اب یہاں 5 وقت کی نماز تو نہیں ہوتی لیکن ظہر، عصر اور مغرب کی 3 نمازوں کےلیے اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہے اور اللہ کے اس بلاوے پر تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نمازیں ادا کرتی ہے۔

یہ مسجد اب پہلے کی طرح شاندار تو نہیں رہی، کیونکہ اس مسجد کو سکھاشاہی حکمران رنجیت سنگھ نے 3 ماہ تک اسے مسلسل بند رکھتے ہوئے نا صرف اس کی توڑ پھوڑ کی بلکہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کو گھوڑے کے اصطبل کے طور پر استعمال کیا، جہاں نمازیوں کے بجائے گھوڑے چرتے نظر آتے تھے۔ اسی دور میں اس عظیم الشان مسجد کو بطور عقوبت گاہ بھی استعمال کیا گیا۔ جہاں مسلمان بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی بھی کی گئی۔ مسلمانوں کو انگریزوں کے آنے کے بعد رنجیت سنگھ کے ظلم وستم سے تو نجات مل گئی مگر شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد تباہی کے مناظر پیش کرتے رہے۔

انگریزوں نے ہی ان قدیم عمارتوں کو بحال کرنے کےلیے نمایاں کام کیا، جس پر یہ قدیم عمارتیں بحال تو ہوگئیں مگر اپنا اصل قدرتی حسن کھو بیٹھیں۔ جب دنیا کے نقشے پر پاکستان ابھرا تو محکمہ آثار قدیمہ نے بادشاہی مسجد پر خصوصی توجہ دے کر اس کی بحالی کےلیے نئے سرے سے کام کیا اور ان عظیم شاہکاروں کو اس کی اصل حالت میں لوٹانے کی کوشش کی۔ جس میں انہیں مکمل طور پر تو کامیابی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی وہ اس کی حالت زار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ جب سابق وزیراعظم پاکستان نے گریٹر اقبال پارک کا منصوبہ ترتیب دیا تو ان عظیم اور قدیم عمارتوں کی حالت زار کو مزید بہتر کیا گیا، لیکن اس کی اصل حالت کو اب بھی لوٹایا نہیں جاسکا۔




اس مسجد کے ساتھ سکھوں کا ایک گردوارہ بھی موجود ہے، جہاں کرتارپور راہداری کے بعد ازسرنو تعمیرات اور تزئین و آرائش کا سلسلہ تو جاری ہے مگر مسلمانوں کی یہ مسجد اس بات کی منتظر ہے کہ حکومت کی نظر اس کی طرف بھی ہو۔ مگر اس جانب حکمرانوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج بھی لوگوں کی کثیر تعداد گردوارہ نہیں بلکہ مسجد دیکھنے اور اس میں نماز کی ادائیگی کےلیے آتی ہے۔ بادشاہی مسجد کے اندرونی حصے میں اب پہلی جیسی چمک دمک تو باقی نہیں رہی لیکن اس کے پرانے نقوش آج بھی اسے ماضی کی شاہکار مسجد ہونے کی دلیل پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

بادشاہی مسجد کے اندر ایک وسیع وعریض صحن بھی موجود ہے، جبکہ اس کے بیرونی دروازے کے ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جو باہر سے نظر نہیں آتا اور اوقاف کا ایک ملازم لوگوں کو مقدسہ زیارات کی دعوت دیتا نظر آتا ہے۔ زیارت گاہ میں نبی کریمؐ، حضرت علیؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے تبرکات موجود ہیں۔ راقم الحروف بھی تبرکات کی زیارت کےلیے میوزیم نما اس چھوٹی سی عمارت میں پہنچا۔ جہاں نبی اکرمؐ کے عمامہ مبارک، جائے نماز، عصا، چادر سمیت مختلف تبرکات کے ساتھ حضرت علیؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے تبرکات کی زیارت نصیب ہوئی۔ میوزیم میں جگہ اس قدر کم تھی کہ طویل قطار ہونے کے باعث رکنا محال تھا۔ تبرکات کی زیارت کے بعد سیڑھیوں پر محکمہ اوقاف کی ایک چندہ پیٹی نظر آئی اور اس کے قریب ہی خوفناک اہلکار بھی موجود تھا جو لوگوں کو اس بات پر مجبور کررہا تھا کہ وہ اس چندہ پیٹی میں چندہ ڈالیں۔ لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس چندہ پیٹی میں کچھ نہ کچھ ڈالتے رہے۔ جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید محکمہ اوقاف زیارت کرنے والوں سے ان تبرکات کے عیوض معاوضہ وصول کررہا ہے۔



شاہی قلعے کے وسیع العریض اسلحہ میوزیم میں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے سکھاراج کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پر سوار مجسمہ نصب ہے۔ میوزیم کے اندر سکھاشاہی دور کی تلواریں، تیر کمان، طمنچے، لوگوں کو اذیت دینے والے آلات، روشنی والی بندوقیں و دیگر سامان حرب نظر آیا۔ایک کمرے میں حنوط شدہ گھوڑا بھی آیا، جسے حاصل کرنے کےلیے رنجیت سنگھ نے 21 لوگوں کا قتل کیا تھا۔ رنجیت سنگھ کے مظالم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ اس نے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی، جبکہ ساڑھے 3 لاکھ خواتین کی عصمتیں اپنے فوجی سرداروں کے ذریعے تار تار کیں۔ ہزاروں خواتین نے کنویں میں کود کر اپنی عزتیں بچائیں۔ مگر مسلمانوں پر یہ مظالم ڈھائے جانے کے باوجود اس کی قسمت پر رشک ہوا کہ ایک مسلم معاشرے جہاں بتوں، مجسموں کو حرام قرار دیا جاتا ہے اور اسی سبب کراچی سمیت مختلف شہروں کی تعمیر و ترقی میں کام کرنے والے ہیروز کے مجسمے ہٹادیئے گئے، مگر رنجیت سنگھ کا مجسمہ اس جگہ پر لوگوں کی مخالفت کے باوجود نصب کیا گیا، جسے حکمراں ریاست مدینہ کا نام دیتے نہیں تھکتے۔ اس بات پر بھی تعجب ہوا کہ نبی آخرالزماںؐ اور صحابہ کرامؓ کے تبرکات کےلیے ایک تنگ سی جگہ، جہاں نہ روشنی پہنچتی ہے اور نہ ہی ہوا، میوزیم قائم کیا گیا ہے، جبکہ سکھاشاہی کے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تلواروں اور طمنچوں اور اذیت دینے والے آلات، گو لوں کےلیے ایک وسیع و عریض میوزیم بنایا گیا ہے۔ جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story