ترک صدر کا دورہ پاکستان

ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد نے ایک بار پھر پاک ترکی تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی۔


Editorial February 16, 2020
ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد نے ایک بار پھر پاک ترکی تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی۔ فوٹو: فائل

PORTO: ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد نے ایک بار پھر پاک ترکی تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی، دونوں ملکوں کے عوام میں اخوت و محبت ، ملی یکجہتی، مسلم امہ کے لیے خیر خواہی کے عہد کی تجدید کی گئی۔

ترک صدر نے کہا ہے کہ پاکستان کا دکھ ہمارا دکھ، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی ہے، ترکی مسئلہ کشمیر کے پُرامن اور بات چیت کے ذریعے حل کے موقف پر قائم رہے گا، مسئلہ کشمیر کا حل طاقت یا جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف و حقانیت کے اصولوں سے ممکن ہے، ان کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے74 ویں اجلاس میں اس مسئلہ پر حساسیت کا برملا اظہار کیا گیا تھا۔

حالیہ ایام میں بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات سے ہمارے کشمیری بھائیوں کو سالہا سال سے درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی اور حاصل شدہ حقوق کو چھیننے پر مبنی پالیسیاں کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ وہ جمعہ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان اسلامی دنیا کے مدبر، اولوالعزم اور نڈر رہنما شمار ہوتے ہیں، پاکستان نے ترکی اور اس کے عوام کو اپنے قلب و روح میں جگہ دی ہے، سیاست عالم میں پاکستان کیلیے جب بھی امتحانی صورتحال پیدا ہوئی ترکی نے آگے بڑھ کر ہمارے ہم وطنوں اور حکومت کی سیاسی، مالی، اخلاقی، ملی اور سفارتی حمایت و امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اسی طرح پاکستان نے بھی ترکی کی ترقی، سلامتی، اس کے عوام کی خوشحالی اور مصائب و آلام کی گھڑی میں دست تعاون بڑھایا، اس کی سب سے بڑی مثال برصغیر کی تاریخ اور تحریک خلافت کے اوراق ہیں جن پر ترکی کی قومی جدوجہد کی حمایت ا ور عملی مدد کے لیے پورا اسلامیان ہند اور عالم اسلام سینہ سپر ہو گیا تھا، اصل میں پاک ترکی رشتے دین و مذہب کی لازوال ڈور میں بندھے ہوئے ہیں، ترکی کے احیا، قومی کاز، نشاۃ ثانیہ ، سامراج و نوآبا دیاتی تسلط اور ریشہ دوانیوں کے خلاف جدوجہد اہل پاکستان کے لیے ایک یادگار سیاسی اور تاریخی حوالہ ہے، صدر رجب طیب اردوان اسی سیاق وسباق کے تابندہ تسلسل کے لیے ہمارے درمیاں موجود تھے۔

دریں اثناء ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق پر امن طور پر حل پر زور دیا اور کہا کہ دونوں ممالک بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے موقف کے حامی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں ترک صدر کو پاکستان آمد پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں، آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر رجب طیب اردوان کے خطاب کو پاکستانی عوام نے بے حد سراہا ، وہ پاکستان میں اتنے مقبول ہیں کہ اگر یہاں الیکشن لڑیں تو وہ کلین سویپ کر جائیں۔

وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کی طرف سے کشمیریوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر ترک صدر کا شکریہ ادا کیا ، عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ کشمیریوں کو آٹھ لاکھ بھارتی فوج نے چھ ماہ سے زائد عرصہ سے محصور کر رکھا ہے، ترکی نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر بھی پاکستان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، بین الاقوامی معاملات پر پاکستان اورترکی کا یکساں موقف ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست اور معیشت کے علاوہ ثقافت، میڈیا اور فلم انڈسٹری میں بھی تعاون کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ہم بھی ترکی کی ترقی کے تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ازل سے جاری ہمارے برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے۔ انسداد دہشتگردی میں ہم پاکستان سے تعاون جاری رکھیں گے، سرحدیں اور فاصلے مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتے، ترک صدر نے کہا ہم یہاں پاکستان میں کبھی بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے، ترکی اور پاکستان جیسے برادرانہ تعلقات دنیا میں شاید ہی دیگر ممالک یا اقوام میں دیکھے جا سکتے ہوں، آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات جو سب کے لیے قابل رشک ہیں، دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجہ میں مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں۔

انھوں نے تاریخ میں محمود غزنوی، ظہیرالدین بابر، تحریک خلافت کے بانیان مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے دیے اور کہا کہ 1915میں جب ترک فوج ایک زبردست مزاحمت کے ساتھ آبنائے چناق قلعہ کا دفاع کر رہی تھی تو اس وقت محاذ سے6 ہزار کلو میٹر دور اس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابل فراموش صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔

ترک صدر نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے کا پختہ یقین دلایا اور کہا میں بزنس مینوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ ہم ایک بار پھر پاکستان کے درخشاں مستقبل اور معیشت پر اپنے اعتماد کی تائید کریں گے۔ پاکستان کے21 کروڑ اور ترکی کے8 کروڑ30 لاکھ عوام شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے باہمی اقتصادی تعلقات کو حق بجانب سطح تک پہنچائیں گے۔

دریں اثناء جمعہ کو ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاک ترک بزنس فورم سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں انھوں نے پاکستان سے تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان کیا اور کہا میں اور عمران خان اکنامک اسٹرٹیجی فریم ورک کا تاریخی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔ اعلیٰ سطح کی تذویراتی تعاون کونسل کا چھٹا اجلاس دونوں ملکوں کے درمیان ہو گا، توقع ہے کہ پاکستانی قیادت سے ہونے والی ملاقاتیں دوطرفہ تعلقات میں مفید ثابت ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کا باہمی تجارتی حجم اپنی صلاحیت سے کہیں کم ہے۔ ترکی نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا ایک دور میں ترکی کو بھی مشکل معاشی حالات کا سامنا تھا، ترکی پر سرکاری قرضہ 72 فیصد تھا جسے کم کر32 فیصد لائے، ترک حکومت اور عوام نے عزم و ہمت سے اپنی مشکلات پر قابو پایا۔

ترک کمپنیاں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں، دونوں ملک ٹرانسپورٹیشن، صحت ، تعلیم ، توانائی کے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں، ترک صدر نے پاکستانی سرمایہ کاروں کو ترکی میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دی ۔ پاکستان کے ساتھ ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری اور سیاحت پر مشترکہ منصوبے بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

ترک صدر نے کہا کہ ترک ڈرامہ سیریلز پاکستان میں بے حد مقبول ہیں ہمیں مسلم امہ کے لیے مشترکہ میڈیا پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نتیجے پاکستان میں توانائی کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ پاک ترکی تعلقات میں زلزلوں سے ہونے والی تباہ کاریوں میں دوطرفہ تعاون کو پاکو ترک عوام نے کبھی فراموش نہیں کیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں مقررین نے بتایا کہ صدر اردوان نے اسلاموفوبیا کی لہر، مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ حملوں پر تشویش ظاہر کی جب کہ دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستانی قوم کشمیر و فلسطین پر ایک ہے۔ اب کوشش اور امید کرنی چاہیے کہ ترک صدر کا یہ دورہ ملکی سیاست ، معیشت، سفارت اور خطے کے لیے امن وسلامتی، معاشی ترقی ، ملی یکجہتی اور قومی اتفاق رائے کا وسیلہ بن جائے، قومی اتفاق رائے کے اس جذبہ اور زریں موقع کو قائم ودائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں