او آئی سی خطرے میں
ٹرمپ مسلمانوں سے اگر کینہ نہیں رکھتے تو پھر وہ مسلسل مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کیوں کام کررہے ہیں۔
اس وقت مسلم ممالک بلاشبہ مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ، ان کے اپنے اندرونی مسائل ہی کیا کم تھے کہ مغربی ممالک نے انھیں مزید مشکلات سے دوچارکرکے ان کی پریشانیوں کو دوچند کردیا ہے۔
ایسے حالات میں مسلم ممالک کو آپس میں متحد رہنے اور اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے متحدہ عرب امارات حکومت نے مغربی ممالک کے آلہ کار کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور اس کا ثبوت حال ہی میں ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے لیے نئے غیر حقیقت پسندانہ اور شاطرانہ منصوبے کی حمایت کرکے پیش کردیا ہے۔
ٹرمپ ایک شاطر سیاستدان ہیں وہ مسلمانوں سے اگر کینہ نہیں رکھتے تو پھر وہ مسلسل مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کیوں کام کر رہے ہیں۔ ٹرمپ جس جذبے کے ساتھ یہودیوں کے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں تو اس سے بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ ٹرمپ یا تو اوپر سے عیسائی ہیں مگر اندر سے یہودی ہیں یا پھر یہودیوں سے ضرور ان کے مالی مفادات وابستہ ہیں۔ ان سے پہلے کی امریکی حکومتیں یہودیوں کی حمایت ضرور کرتی رہی ہیں مگر انھوں نے اسرائیل کی خاطر نہ کبھی عالمی قوانین کو پس پشت ڈالا تھا اور نہ ہی فلسطینی آزاد ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کی امداد سے منہ موڑا تھا۔
وہ فلسطینی ریاست کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے غصب کردہ تمام علاقوں کو متعلقہ ممالک کے حوالے کرنے کے بھی حامی تھے مگر ٹرمپ نے نہ تو امریکی حکومتی نظریے کو مد نظر رکھا اور نہ ہی اقوام متحدہ کو کوئی اہمیت دی ہے۔ وہ اسرائیل کی حمایت کرنے سے اتنے آگے جاچکے ہیں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرکے امریکی سفارت خانے کو جلد ہی وہاں منتقل کرنیوالے ہیں۔
گزشتہ دنوں انھوں نے وہائٹ ہاؤس میں فلسطینی ریاست کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا ہے جو سراسر امن کے بجائے بدامنی کا مظہر ہے، دراصل اس منصوبے کے ذریعے انھوں نے اسرائیل کو خوش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جس وقت یہ منصوبہ پیش کیا گیا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو وہائٹ ہاؤس میں ہی موجود تھے۔
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ انھیں صرف پندرہ فیصد علاقہ دے کر باقی تمام مقبوضہ علاقے کا اسرائیل کو مالک بنا دیا گیا ہے۔ پھر یروشلم جسے خود اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کا دارالخلافہ تسلیم کیا ہے اسے اسرائیل کے حوالے کردیا گیا ہے اب ایسی صورتحال میں کیا ہمیں مسئلہ کشمیر کی ثالثی کی ذمے داری ٹرمپ کو سونپنا چاہیے؟
اسرائیلی وزیر اعظم نے ٹرمپ کے اس سازشی منصوبے کو سراہا ہے اور اسے بہترین منصوبہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ اس اسرائیل نواز منصوبے کے ذریعے فلسطینیوں کے مفادات کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے اس منصوبے کو پیش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو دھمکی بھی دی ہے کہ یہ ان کے لیے آخری موقع ہے یعنی اس سازشی منصوبے کو وہ قبول کر لیں ورنہ پھر اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
تمام عرب ممالک نے اسے رد کردیا ہے مگر افسوس کہ متحدہ عرب اماراتی حکومت نے اس کی حمایت کی ہے۔ اس کا یہ عمل سراسر امت مسلمہ کے سینے میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس ریاست کے نزدیک فلسطینیوں کے حق خود اختیاری اور ان کے جائز مطالبات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ایسی ہی پالیسی کشمیریوں کے لیے بھی اختیار کر رکھی ہے۔ وہاں کے حکمران پاکستان کے بجائے انسانیت کے دشمن مودی کی مسلم کش پالیسیوں کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ بھارت کی سوا ارب کی منڈی کی لالچ میں وہ اچھے برے اور ظالم و مظلوم کے فرق کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر بھی پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی فلسطین کی طرح ستر برس سے حل طلب ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام مسائل کے حل کی کنجی مغربی ممالک کے پاس ہے وہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے البتہ انھوں نے تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کو ضرور آزادی کی دولت سے سرفراز کردیا ہے اس لیے کہ وہ غیر مسلم تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک فلسطینیوں اور کشمیریوں کے مسائل ہی کیا وہ مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے کو حل کرانے کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ اپنی سازشی پالیسی کے تحت خاص طور پر مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کو اپنے مطالبات کے منوانے کے لیے سرگرم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کی اس سرگرمی کو دہشت گردی قرار دے کر ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرسکیں ساتھ ہی ان کی حمایت کرنیوالے ممالک پر مختلف معاشی پابندیاں عائد کرکے انھیں کمزور کرسکیں کشمیریوں کو حالانکہ خود اقوام متحدہ نے حق خود ارادی تفویض کیا ہے جس کے تحت بھارت کو وہاں رائے شماری کرا کے ان کی مرضی معلوم کرنا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت مسلسل سلامتی کونسل کی قراردادوں سے کھلواڑ کر رہا ہے مگر مغربی ممالک اس کی اس حرکت کے باوجود بھی اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے دراصل انھی ناانصافیوں کے پیش نظر دنیا کے تمام مسلم سربراہوں نے اکٹھا ہو کر مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے 1969 میں اسلامی ممالک کی تنظیم Organization of Islamic Countries کو قائم کیا تھا۔ یہ ادارہ بالکل غیر فعال ہو چکا ہے۔
حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ اس کا یہ عمل سراسر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے اصولاً بھارت کی اس حرکت کے خلاف اس پر اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کو بھی سخت پابندیاں عائد کرنا چاہیے تھیں۔ متحدہ عرب امارات وہ واحد مسلم ملک ہے جس نے بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ کشمیر پر بھارتی دعوے کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ مغربی ممالک نے اگر بھارت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا تھا تو کم سے کم او آئی سی کو ضرور بھارت کے خلاف اقدام اٹھانا چاہیے تھا۔
اس وقت پاکستانی حکومت سعودی حکومت سے کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کی مسلسل درخواست کر رہی ہے مگر سعودی حکومت اس کا کوئی نوٹس لیتی نظر نہیں آ رہی ہے اس کی وجہ صاف ہے کہ سعودی حکومت بھارت کو ناراض کرنا نہیں چاہتی ساتھ ہی متحدہ عرب امارات کی بھارت کے حق میں سفارش کو بھی رد کرنا نہیں چاہتی۔ سعودی حکومت کا کشمیر پر سی ایف ایم بلانے میں ہچکچاہٹ سے جہاں بھارت بہت خوش ہے وہاں پاکستان کا وقار داؤ پر لگ گیا ہے۔
اس ضمن میں بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ او آئی سی پہلے بھی کشمیریوں کے حق میں کئی قراردادیں پاس کرچکی ہے جن کا بھارت نے کوئی اثر نہیں لیا ہے چنانچہ اب نئی قرارداد کو بھی وہ ردی کی ٹوکری کی نذر کردے گا اس لیے کہ او آئی سی کا ادارہ اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بہرحال کشمیر پر کونسل آف فارن منسٹرز بلانے کی اپیل سعودی حکومت کے لیے ایک امتحان کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اگر اس نے اپنے بھارت سے وابستہ مفادات اور اماراتی حکومت کے دباؤ میں آکر وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلایا تو پھر کوالالمپور کانفرنس کو مسلم امہ کا مرکزی ادارہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔