نابینا ریاض میمن کی ہمت کو سلام
ریاض میمن جو 12 مارچ 1976 میں ایک نارمل بچے کی طرح ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے
BERLIN:
جب 1987 میں لاڑکانہ شہر میں ایک اسپیشل ایجوکیشن سینٹر کا قیام ہوا تو وہاں پر پورے شہر سے آنکھوں سے محروم بچوں کے والدین سے رابطہ کرکے انھیں اس مرکز میں بریل سسٹم کے ذریعے پڑھانے کے لیے مفت داخلہ، ٹرانسپورٹ اور کتابیں بھی ارسال کی گئیں۔ اس کے علاوہ انھیں موسیقی، کھیل اور تفریحی سہولتیں بھی دی گئیں۔ ایک دن میں نے وہاں جاکر بچوں سے ملاقات کی اور ان کی پڑھائی اور دوسری غیر نصابی سرگرمیاں دیکھ کر بڑا خوش ہوا جس سے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اسپیشل بچوں کو بہت ساری نعمتوں سے بھی نوازا ہے اور وہ بھی عام بچوں کی طرح سب کچھ کرسکتے ہیں۔
اب کچھ مہینے پہلے میری ملاقات ان بچوں میں سے ایک ریاض میمن سے ہوئی جواب ماشا اللہ جوان ہوچکا ہے اور اپنی زندگی عام آدمی کی طرح گزار رہا ہے۔ وہ سروس بھی کرتا ہے، شادی بھی آنکھوں والی لڑکی سے ہوئی ہے جس میں سے اس نارمل بچے بھی پیدا ہوئے ہیں جنھیں وہ پڑھائی سے لے کر اچھا کھانے پینے، مکان، کپڑوں وغیرہ کی سہولیات بڑے اعتماد کے ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار چل رہی ہے۔ وہ White Cane کے ذریعے ہر جگہ خود پہنچ جاتے ہیں۔
ریاض میمن جو 12 مارچ 1976 میں ایک نارمل بچے کی طرح ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور جب وہ چوتھی کلاس کے شاگرد تھے تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی بینائی کم ہوتی جا رہی ہے جس کے لیے ان کے والدین انھیں آنکھوں کے ایک ماہر ڈاکٹر سے چیک کروایا اور مختلف بزرگوں کے مزاروں پر بھی لے گئے مگر اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ جب اسپیشل ایجوکیشن مرکز میں انھیں داخل کیا گیا تو اس کا دل بھی لگ گیا اور اس میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا جس سے اس میں اعتماد بڑھ گیا کیونکہ انھیں یہ بھی سابق پڑھایا جاتا ہے کہ وہ کسی کا سہارا نہیں لیں گے اور اپنے والدین کا سہارا ایک نارمل اولاد کی طرح بنیں گے۔ ریاض نے مرکز سے بریل سسٹم کے تحت آٹھویں جماعت پاس کی، پھر میٹرک، انٹر، بی اے اور آخر میں ایم اے سوشیالوجی میں پاس کرلیا جو سال 2008 تھا۔
یہاں پر مختصراً یہ بتاتا چلوں کہ جب وہ امتحان میں بیٹھتے ہیں تو انھیں ایک نارمل آدمی دیا جاتا ہے جنھیں وہ سوالوں کے جوابات لکھواتے جاتے ہیں۔ اس ڈگری ملنے کے بعد انھیں اسلام آباد کے شہر میں ایک نوکری مل گئی جس کے لیے اس نے انٹرویو دیا تھا اور پاس ہوگئے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ حکومت کی طرف سے معذور جسے اسپیشل لوگ کہا جاتا ہے ان کے لیے نوکریوں کے کوٹے پر ڈپارٹمنٹ میں رکھی جاتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ بہت سارے ایسے افسران ایسے ہوتے ہیں جو ان لوگوں کے کوٹے بھی ہضم کرلیتے ہیں۔2008 میں جب انھیں بریل پروف ریڈر کے طور پر 7 گریڈ میں نوکری ملی تو اس نے کافی محنت کی اور پھر اسے میرپورخاص میں تبادلہ کرکے بریلٹس(Brialtes) کے طور پر رکھا گیا اور اس طرح وہ ترقی کرتا ہوا لاڑکانہ اسپیشل ایجوکیشن مرکز میں 2006 میں گریڈ 11 میں کام کرنے کے لیے آگئے۔
میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ جب میں اس کے گھر ملنے گیا تو اس نے خود اپنے گھر کی اوطاق کا دروازہ کھولا، میرے لیے پانی اور چائے خود لے آئے اور ہر چیز کو اپنی جگہ صحیح رکھا۔ اس دوران اس کے پاس موبائل فون پر اس کے پاس ایک میسج آیا تو اس نے اس کو پڑھ کر سنایا اور پھر کال آئی جسے اس نے نہ صرف اٹینڈ کی بلکہ کسی کو کال بھی کی۔ اس سلسلے میں اس نے بتایا کہ موبائل کمپنیوں کی ایک ڈیوائس بنائی ہے جو بریل سسٹم پر چلتی ہے جس کی وجہ سے وہ موبائل کو چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تو ٹائم دیکھنے کے لیے بھی وہ گھڑی استعمال کرتے ہیں جو بریل سسٹم پہ چلتی ہے۔ ریاض نے اپنی بیوی اور بچوں کو ہر سہولت سے آراستہ کیا ہے اور اس کے بچے پرائیویٹ بہترین اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اس نے کبھی بھی اپنے بچوں کی تعلیم اور پرورش کے لیے کسی سے کوئی مدد نہیں مانگی۔
ریاض نے چاہا کہ وہ بریل کتابیں سندھی زبان میں تیار کریں جس کے لیے اس نے کافی حد تک کام بھی کیا اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس نے سندھی لینگویج اتھارٹی سے رابطہ کیا مگر نااتفاقی کی وجہ سے یہ سسٹم ابھی تک نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے نابینا بچوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھی بریل کتابوں پر کام 1922 میں ہوا تھا جو 1947 میں آزادی کے بعد ختم ہو گیا تھا کیونکہ کافی اس پر کام کرنے والے ہندو انڈیا چلے گئے تھے اور یہ بات انھیں ماسٹر عبدالغفار ابڑو نے بتائی تھی اور وہ اس وقت 80 سال کے بوڑھے ہوچکے تھے اور وہ زمانہ 2009 کا تھا۔ ابڑو کا تعلق دادو ضلع کے تعلقہ میہڑ سے تھا اور وہ بھی آنکھوں کی بینائی سے محروم تھا اور اس نے پڑھنے کے لیے کراچی کے ایک انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا تھا اور یہ سن تھا 1942 اس نے مزید بتایا کہ ہندوؤں کے جانے کے بعد بریل سندھی کتابیں جلا دی گئی تھیں جس کا انھیں بڑا افسوس اور صدمہ ہے۔
اس کے بعد سندھی بریل کتابیں بنانے کا دور 1969 یا پھر 1970 سے شروع ہوا تھا جب ایک محمود لاسی نامی شخص نے سندھی بریل Alphabets دوبارہ سیٹ کرنے کا کام کرنے لگے تھے مگر کئی وجوہات کی وجہ سے وہ کام پورا نہیں ہو سکا۔ اب اس کے بعد ریاض نے اس کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے غلام علی الانہ، محمد قاسم بگھیو، تاج جویو، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، سرفراز راجڑ اور غفور میمن سے ملاقاتیں کرتے رہے جس کی وجہ سے 80 سے 90 فیصد کام آگے بڑھنے لگے اور یہ کام ماڈرن طرز پر ہو رہا تھا مگر اچانک یہ کام رک گیا اور ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
ریاض نے اس بات پر بڑا افسوس کیا ہے کہ اسپیشل افراد کو ریلوے میں رعایت صحیح طریقے سے نہیں ملتی اور انھیں کاؤنٹر پر بڑا وقت انتظار کرنا پڑتا ہے اور ٹکٹ دینے والے انھیں خود پر بوجھ سمجھتے ہیں جو خاص افراد کے لیے ذلت کے ساتھ ساتھ شرمندگی ہوتی ہے جس پر حکومت کو چاہیے کہ وہ توجہ دیں۔
نابینا افراد کی ایک تنظیم پاکستان لیول پر کام کر رہی ہے جس کی مدد سے بہت سارے ویلفیئر کام ہو رہے ہیں۔