آرٹیکل 6 حرکت میں
’’ہمارا ملک اقتصادی طور پر اور تشدد کے اعتبار سے ایک زبردست بحران سے گزر رہا ہے۔‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی ہمارے...
''ہمارا ملک اقتصادی طور پر اور تشدد کے اعتبار سے ایک زبردست بحران سے گزر رہا ہے۔'' ان الفاظ کی ادائیگی ہمارے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے کولمبو کانفرنس میں فرمائی، ظاہر ہے ان دونوں پہلوؤں سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں۔ جب یہ الفاظ کولمبو کی سر زمین پر ادا کیے جا رہے تھے پنڈی اپنی تاریخ کی بد ترین دور سے گزر رہا تھا۔
گلی کوچے، بازار شرر بار تھے، آسمان سرخ اور سیاہ تھا تہذیب اور تمدن کا جنازہ نکل رہا تھا، صدیوں کی رواداری سڑکوں پر خون آلود تھی، اس کی اصل وجہ سیاست نے آداب زندگی اور آداب بندگی سے منہ موڑ لیا ہے ا ب تو وہی بڑا لیڈر ہے جو عوام کو تقسیم کرے۔
ہمارا قافلہ اب اسی طرف جادہ پیما ہے جہاں ملک و ملت کی کوئی منزل نہیں، ہر روز چمن خاکستر یونیٹی، فیتھ اور ڈسپلن (Unity Faith Discipline) یعنی اتحاد، تنظیم اور یقین محکم ہوئے رخصت ہم سے، کسی بھی ملک کی وحدت کا انحصار صرف وہاں کی فوجی طاقت پر نہیں ہوتا بلکہ نظریاتی اساس پر ہوتا ہے اگر ملت میں دراڑ ڈال دی جائے تو پھر وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اب تک جو مار دھاڑ لگی تھی اس نے ایک اور بھیانک شکل اختیار کر لی، کشت و خون، بد عملی، قوموں کے لیے کبھی خوش آئند نہ رہی ہے اور نہ رہے گی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دشمن کی ریشہ دوانیاں ہمارے درِ ِ دارالسلطنت پر دستک دے رہی ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پنڈی کا بھائی چارہ جاتا رہا ۔
اس پر جس قدر غور کیا جائے کم ہے اور جس قدر غم منایا جائے کم ہے، ان حوادث کے روک تھام کی ان لیڈروں کے کاندھوں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے جو قافلہ سالار بنے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی ملک کے عوام کے بل بوتے پر لیڈری کر رہے ہیں اور اگر یہ فصل گل خدانخواستہ باقی نہ رہی تو عندلیب چمن کہاں نغمہ سرا ہو گی۔ ہمارے بارڈر پر کشیدگی، اندرون شہر کشیدگی، گلی کوچوں میں کشیدگی، کون دشمن ہے، کون دوست ایک ہی ملک کے ساکنوں کی منزلیں جدا جدا اگر ہوں گی تو پھر ہمارے دشمن کو فتح کرنے کے لیے توپ و تفنگ کیونکر چاہیے ہم خود ہی دشمنوں کے گولہ و بارود ہیں، جس کی طرف میاں نواز شریف نے کولمبو میں وضاحت کی تھی۔ ظاہر ہے جنگ افلاس کی ماں ہے، ترقی کی دشمن، تنزلی کا آسیب جنگ اور خلفشار کی شکل میں داخل ہوتا ہے اس لیے صبر اور استدلال ہی وہ کامل راہیں کہ جو ہمیں منزلیں دکھاتی ہیں۔
معاشی بد حالی پستی کی طرف جو ہم لڑھکتے چلے جا رہے ہیں خوامخواہ نہیں اس کی وجوہات ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر غلط وقت پر صحیح فیصلے کیے جاتے ہیں ترقی کے لیے انگریزی کی یہ مثل ہے (Right Decision at Right Time) یعنی صحیح وقت پر صحیح فیصلے مگر افسوس کہ ہماری سیاست کی بنیاد یہی ہے کہ کوئی فیصلہ بر وقت نہیں ہوتا ہے اردو زبان کا مشہور جملہ شیشہ کے گھروں میں رہنے والوں کو پتھروں کو پھینکنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے مگر ہمارے یہاں سیاست میں نہ وقت کا خیال ہے اور نہ سیاسی اصول اور ملک کو کسی عمل کی فوری ضرورت ہے، کن چیزوں کی اولیت درکار ہے اور کن چیزوں کو فوقیت دینی ہے اب جب کہ بارڈر کے توپ خانے آگ اگل رہے ہیں، بھارتی سرحدیں مخدوش، کے پی کے سیاست ڈرون ڈرون، امریکی افواج کی روانگی، اس پر محسوس یہ ہوتا ہے کہ تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی۔
اس پر طرفہ تماشہ کہ مرکزی حکومت کا آرٹیکل چھ جنرل پرویز مشرف پر فائر کھولنا جن سے ماضی میں این آر او کیا گیا آخر یہ این آر او، این آر او کیا ہے؟ جس سے جمہوریت نے جنم لیا، عجیب جمہوریت ہے جن نے این آر او کی کوکھ سے جنم لیا۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ نہایت غلط وقت پر نومبر2007ء کی غلطی کا ازالہ کیا جانا، آخر درمیان میں ایک اور جمہوری حکومت آئی جس نے جنرل پرویز مشرف سے جمہوری دور سجایا آخر اس وقت 2007ء کیوں یاد نہ آیا حزب موافق اور نہ حزب مخالف اور اگر کوئی یہ پوچھ لے کہ وہ کیا سین تھا جب طارق عزیز سجاد علی شاہ پر عدالت کی عزت فرما رہے تھے اور ان کے ساتھ لیگ کے سیکڑوں جمہوریت پسند عدلیہ کی عزت خاک میں ملا رہے تھے اگر تاریخ کا مطالعہ ہو تو پھر اوراق پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے، ان میں بھی کچھ پردہ نشینوں کے نام نمایاں ہیں، پاکیٔ داماں کی حکایت اس قدر بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس سے معاملات مزید الجھ جائیں اور یہ کوئی وقت ہے جب گیس کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، معیشت دگرگوں ہے شہر کرفیو زدہ، آرٹیکل 144 کا نفاذ جا بجا ملک میں ہر طرف اک شور برپا ہے مانا کہ پرویز مشرف کوئی مقبول رہنما نہیں لیکن یہ تمام جو بندشیں لگائی جا رہی ہیں اس سے پرویز مشرف کو عوامی لیڈر بنانے کی بھرپور کوشش کرنا مقصود ہے یا حکومتی عہدے دار اتنے سادہ ہیں کہ ان کو شاید یہ معلوم نہیں جس طریقہ سے یکے بعد دیگرے مقدمات بنائے جا رہے ہیں اس سے عوام میں مشرف کے لیے ہمدردی پیدا ہو رہی ہے اس کی کئی وجہیں واضح طور پر ہر شخص کی سمجھ میں آ رہی ہیں، مہنگائی کا عفریت گلی کوچوں میں برہنہ گھوم رہا ہے۔
دوسرا اہم معاملہ کہ مقدمات اس طرح بنائے جا رہے ہیں جیسے کوئی مصنوعی معاملات کی فیکٹری پروڈکشن پھر عوام کا موازنہ امن و امان کا مسئلہ صورت حال یہ ہے کہ لیاری کی چند گلیوں میں بھی امن و امان قائم نہ ہونا تو اس طرح عوام از خود معائنہ کر رہے ہیں جو حکومت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ حکومت کو تو اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مشرف لیگ میں مضبوط، با مقصد سیاسی کارکن موجود نہیں ہیں ورنہ حکومت حاضر اور مشرف حکومت کے مابین موازنہ کیا جاتا تو زرداری جمہوری حکومت اور موجودہ حکومت کے پاؤں اتنے مضبوط نہ تھے مشرف لیگ محض خواتین لیڈروں کا اجتماع ہے جن کی اسٹریٹ فالوئینگ نہیں ہے یہ صرف ہوٹلوں میں جلسے کر سکتی ہیں گو کہ غریبوں میں مشرف کی پارٹی مقبول ہے مگر غریبوں میں لے جانے والے کارکن ان کے پاس نہیں ان کے کارکن ایسا لگتاہے کہ جن کو کوئی ایڈورٹائزنگ (Advertising) ایجنسی جمع کر رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ فیلڈ ان کی نہیں کہ سیاسی کارکن کہاں سے پکڑے جائیں، کراچی کی معروف خاتون رہنماؤں کے نام لینا مناسب نہیں کیونکہ ان میں اکثریت اسٹیج یا ٹی وی کی اداکارائیں ہیں۔ جو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، کوئی مضبوط این جی او یا سیاسی کارکن اگر مشرف جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو حکومت مقابلہ کرنے میں ناکام ہو جاتی مگر مشرف بھی پاکستان کے باقی ماندہ سیاسی لیڈروں کی طرح سیاسی کمزوریوں کو اولیت دینے کی کوشش نہیں کر رہے وہ عوام کی نبض کو نہیں چھو رہے کیونکہ ان کو بھی عوامی تکلیف کا علم نہیں وہ بھی حکمران ٹولے کا ایک حصہ رہے ہیں ان کے ساتھی آج بھی حکمرانوں کے ساتھ ہیں اور کئی سو کے ایوان میں ان کے آگے پیچھے چلنے والے اقتدار سے دور ہونے کی وجہ سے پرویز مشرف سے ان کی رعونت کی وجہ سے دور ہیں۔
موجودہ حکومت گو کہ اپنے اہداف کو سمجھتی ہے، محض جمہوریت، جمہوریت کی باتیں کر کے عوام کے ایک حصہ کو خاموش کرائے ہوئے ہیں مگر جمہوریت جس میں جمہور غائب اور ریت کو تلاش کرنے والوں کو کچھ بھی نہ ملے گا بلکہ حیرت ان کا مقدر ہی رہے گا۔ کیونکہ جو جمہوریت ہمارے یہاں نافذ العمل ہے اس سے عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ دیش سدھار کی کوئی بھی راہ تلاش نہیں کی جا رہی ہے، محض ایک قسم کی انتقامی سیاست ہے جو کسی راہ کا تعین کیے بغیر ہی ختم ہو جائے گی۔ باوجود اس کے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بھی مقدمہ بنایا جائے کیونکہ وہ اسی نظام کا ایک حصہ رہ چکے ہیں۔
وہ نہایت آہستگی سے آرٹیکل 6 سے بھی باہر نکل آئیں گے۔ حکومت نے آرٹیکل 6 کا وزن عدلیہ کے کاندھوں پر رکھ دیا ہے تا کہ وہ مشرف کو پس زنداں کر دے مگر عدلیہ دور اندیشی اور کسی بھی ایسے راستے کو نہیں چنے گی جو اس کی ساکھ اور غیر جانبداری پر آنچ آنے دے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اس قدر اندرونی اور بیرونی معاملات اور معاشی اہداف میں پھنسا ہونے کے باوجود ڈرائنگ روم سیاست کی راہ پر گامزن ہے اور عوام کے دکھ درد سے کوئی واسطہ نہیں، اگر مشرف کو سزا دی جائے تو کیا ڈالر 60 روپے کا ہو جائے گا، کیا پٹرول بھی نصف قیمت کا ہو جائے گا جو دور مشرف میں تھا، سب جانتے ہیں ایسی اسکیموں کو عوام کا وقت ضایع کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ آرٹیکل 6 سے نہ پاکستان کی تقدیر بدلے گی اور نہ عوام کے حالات زندگی لہٰذا ملک کو چلانے کے لیے مثبت راہوں کا انتخاب کرنا ہو گا، اگر انتقام کی سیاست چلائی جائے گی تو کاوش رضوی کے یہ شعر یاد رکھنا ہونگے۔
خون کی اک زبان ہوتی ہے
خون زندہ کلام ہوتا ہے
خون کے انتقام پر لوگو!
خون کا اختتام ہوتا ہے
مشرف کے خلاف ججوں کے نام طلب کر لیے گئے ہیں، سزائے موت کی قیاس آرائیاں گردش کرائی جا رہی ہیں، شہروں میں پنڈی واقعے کی بازگشت سنائی جا رہی ہے، نیٹو کنٹینرز کی بندش کی آوازیں ہیں، مگر نہیں ہے تو کوئی اٹھارہ کروڑ انسانوں کی خستہ حال زندگی کو بدلنے کے لیے کوئی تحریک کہ عوام ایک جان ہو کر ملک کو غیر یقینی حالات سے نکالیں اور حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ عوام خرافات میں الجھے رہیں اور اپنے حقوق کی طرف نہ دیکھیں، اس کا انجام تعمیر کے بجائے تخریب ہے۔