معاملہ کی بحث اور فروعی بحثیں
اردو صحافت میں فی زمانہ کالموں کی برسات لگی ہوئی ہے۔ ہر اخبار میں اس جنس کی اتنی ریل پیل ہے...
اردو صحافت میں فی زمانہ کالموں کی برسات لگی ہوئی ہے۔ ہر اخبار میں اس جنس کی اتنی ریل پیل ہے کہ بس چکھ چکھ کے چھوڑتے جاؤ۔ اکا دکا جو دانہ پسند آ جائے اس سے انصاف کرو۔ سو ہم یہی کر رہے تھے۔ مگر ایک پر آ کر ٹھٹھک گئے۔ خیر اسے درگزر کیا۔ مگر آگے چل کر پھر ایک کالم میں وہی استدلال، وہی مثال۔ تب ہم نے سوچا کہ معاملہ گھمبیر ہے۔ یوں سرسری لینا اور گزر جانا مناسب نہیں۔
اصل میں در بابِ شہادت سید منور حسن صاحب کے ارشادات عالیہ نے بھس میں چنگاری کا کام کیا۔ یہ بحث شروع ہو گئی کہ آخر شہادت کا معیار کیا ہے۔ کون شہید کہلانے کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔
اس پر میڈیا میں خاص طور پر کالموں میں رد عمل یہ آیا کہ یہ بیکار کی بحث ہے۔ لایعنی، بے سود، ایک کالم نگار نے لکھا کہ زوال بغداد سے پہلے بھی وہاں علماء میں ایک ایسی ہی بے معنی بحث شروع ہو گئی تھی۔ یہ کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے رقص کر سکتے ہیں۔ اس پر ہم ٹھٹھکے۔ لیکن پھر سوچا کہ کالم نگار کا قلم ہی تو ہے۔ کوئی بھی گُل کِھلا سکتا ہے۔ خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو۔ مگر پھر ایک کالم نظر سے گزرا۔ وہاں بھی یہی مضمون باندھا گیا تھا۔ تب ہمیں رک کر سوچنا پڑا کہ کیا واقعی زوال سے پہلے بغداد کے علماء کے حلقوں میں کوئی ایسی بحث چلی تھی۔
یہ بحث تو پادریوں سے منسوب ہے۔ کہیں کسی انگریزی تحریر میں تو ہم نے یہی پڑھا تھا۔ لیکن علامہ مشرقی نے یہ بحث کرتے ہوئے کہ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو کتنی غیر اہم باتیں ان کے لیے اہم بن جاتی ہیں یہ مثال پیش کی کہ اس وقت جب مسلمانوں کا لشکر قسطنطنیہ پر یلغار کر رہا تھا وہاں کے جیّد پادری اور علما فضلا شہر کے بڑے گرجا گھر میں جمع تھے اور یہ بحث کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ پر جو خوان اترا تھا اس میں جو روٹیاں تھیں وہ خمیری تھیں یا فطیری تھیں۔ ہم نے اپنے پچھلے دنوں کسی کالم میں آ جکل کی بے معنی بحثوں کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ مشرقی سے سند لے کر یہی واقعہ نقل کیا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ زوال بغداد سے پہلے قومی زوال کا نقشہ اسی رنگ کا بغداد میں تھا، ہو گا۔ مگر وہاں سے مثال لانی ہی تھی تو تھوڑا سا تردد کر کے اس عہد کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے دیکھا ہوتا۔ ممکن ہے اس عہد کے مسلمان علماء بھی بڑے مسائل کو چھوڑ کر کچھ فروعی مسائل میں مغز سوزی کر رہے ہوں مگر وہ سوئی کی نوک پر فرشتوں کے نام نہاد رقص کا مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ کیا کبھی مسلمانوں کی مذہبی روایات میں فرشتوں سے رقص کا مشغلہ وابستہ کیا گیا ہے۔ ایسا تصور عیسائی روایات میں ہو گا' اسلامی روایات میں ایسا تصور انہونی بات ہے۔
لیجیے ہمیں یہاں زوال سے پہلے کے بغداد کے سلسلہ میں ایک حوالہ یاد آ گیا۔ تاریخ الخلفا کا حوالہ۔ زوال بغداد سے پہلے اس شہر کی کیا فضا تھی اس پر وہاں اچھی خاصی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ ایسی علامتوں اور اشاروں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے لگتا تھا کہ اس شہر پر کوئی بڑی آفت ٹوٹنے والی ہے۔ مثلاً ایک یہ واقعہ نقل کیا گیا کہ ایک صبح بغداد کی فضا میں ایک عجیب و غریب پرندہ نمودار ہوا۔ وہ اتنی ڈراونی آواز میں بولا جیسے چیخ رہا ہو۔ اس کی چیخ سے سننے والوں کو لگا کہ وہ چلا کر کہہ رہا ہے کہ اے اہل بغداد، اے اہل بغداد، جیسے انھیں خبردار کر رہا ہو کہ تمہارے شہر پر قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ لکھا ہے کہ پھر وہ پرندہ غائب ہو گیا۔ ادھر سارا شہر دہل گیا کہ یہ کیسا پرندہ تھا اور کیا سناونی لے کر آیا تھا۔
مگر اس بیان میں کوئی ایسا ذکر ہمیں یاد نہیں آ رہا کہ شہر کے علماء کسی فروعی مسئلہ پر بحث مباحثہ میں سر کھپا رہے ہوں۔ ان علماء کی جو کوتاہیاں بھی ہوں مگر ان سے وہ بے بصیرتی تو مت منسوب کرو جو قسطنطنیہ کے پادریوں سے منسوب ہے۔
ہاں ہمیں یاد آیا کہ زوال سے پہلے کے بغداد میں جن بدشگونیوں کا چرچا تھا ایسا ہی چرچا 1857ء میں دلی کی تباہی سے پہلے وہاں بھی بہت تھا۔ لگتا تھا کہ ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے شہر کی خلقت نے سونگھ لیا تھا کہ ان کے شہر کے ساتھ کوئی سانحہ گزرنے والا ہے۔ مثلاً دلی کے آسمان پر ایک دُمدار ستارہ نمودار ہوا جو چند دنوں تک شام پڑے نمودار ہوتا پھر غائب ہو جاتا۔ ہفتے عشرے کے بعد یکسر غائب ہو گیا۔ اسے بدشگنی سمجھا گیا اور غالبؔ نے ایک خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ''جب زمانے کے مزاج میں فساد کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں تب سطح فلک پر ایسی شکلیں نمودار ہوتی ہیں'' آگے چل کر لکھا ''بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ صورتیں قہر الٰہی کی ہیں اور دلیلیں ملک کی تباہی کی۔''
تو کیا واقعی ایسی کسی بڑی تباہی سے پہلے قدرت کی طرف سے ایسے اشارات ہوتے ہیں یا یہ ہمارے توہمات ہوتے ہیں جو ایسے گُل کِھلاتے ہیں۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ کیا یہ بحث کہ شہادت کا معیار کیا ہے۔ جان سے گزرنے والا کونسا ایسا ہوتا ہے جو شہید کہلانے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ کیا یہ بحث اسی قسم کی بحثوں کے ذیل میں آتی ہے کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے رقص کر سکتے ہیں یا یہ کہ حضرت عیسیٰؑ کے لیے اترنے والے خوان میں روٹی خمیری تھی یا فطیری تھی۔ خدا کا خوف کرو۔ ان لایعنی بحثوں کے حساب میں اس بحث کو ڈال رہے ہو؎
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ سوال تو اس ستمگر زمانے کے سیاق و سباق میں جو سب سے بڑھ کر آج کے ''قتلام'' (قتل عام) کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے کب سے زبانوں پر آنے کے لیے تلملا رہا تھا۔ یہ سوال اب نہ اٹھتا تو کب اٹھتا جب جماعت اسلامی کے بزرگ نے ایسا فیصلہ سنا دیا جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ؎
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
اسلامی روایت میں شہادت کے تصور کو ایک تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ وہ دھندلانے لگے یا اس کی ایسی تعبیریں کی جانے لگیں جن پر اعتبار کرنا مشکل نظر آئے تو پھر نئے سرے سے اس پر بحث ہونی چاہیے۔ اس میں پریشانی کی کونسی بات ہے۔
اصل میں در بابِ شہادت سید منور حسن صاحب کے ارشادات عالیہ نے بھس میں چنگاری کا کام کیا۔ یہ بحث شروع ہو گئی کہ آخر شہادت کا معیار کیا ہے۔ کون شہید کہلانے کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔
اس پر میڈیا میں خاص طور پر کالموں میں رد عمل یہ آیا کہ یہ بیکار کی بحث ہے۔ لایعنی، بے سود، ایک کالم نگار نے لکھا کہ زوال بغداد سے پہلے بھی وہاں علماء میں ایک ایسی ہی بے معنی بحث شروع ہو گئی تھی۔ یہ کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے رقص کر سکتے ہیں۔ اس پر ہم ٹھٹھکے۔ لیکن پھر سوچا کہ کالم نگار کا قلم ہی تو ہے۔ کوئی بھی گُل کِھلا سکتا ہے۔ خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو۔ مگر پھر ایک کالم نظر سے گزرا۔ وہاں بھی یہی مضمون باندھا گیا تھا۔ تب ہمیں رک کر سوچنا پڑا کہ کیا واقعی زوال سے پہلے بغداد کے علماء کے حلقوں میں کوئی ایسی بحث چلی تھی۔
یہ بحث تو پادریوں سے منسوب ہے۔ کہیں کسی انگریزی تحریر میں تو ہم نے یہی پڑھا تھا۔ لیکن علامہ مشرقی نے یہ بحث کرتے ہوئے کہ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو کتنی غیر اہم باتیں ان کے لیے اہم بن جاتی ہیں یہ مثال پیش کی کہ اس وقت جب مسلمانوں کا لشکر قسطنطنیہ پر یلغار کر رہا تھا وہاں کے جیّد پادری اور علما فضلا شہر کے بڑے گرجا گھر میں جمع تھے اور یہ بحث کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ پر جو خوان اترا تھا اس میں جو روٹیاں تھیں وہ خمیری تھیں یا فطیری تھیں۔ ہم نے اپنے پچھلے دنوں کسی کالم میں آ جکل کی بے معنی بحثوں کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ مشرقی سے سند لے کر یہی واقعہ نقل کیا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ زوال بغداد سے پہلے قومی زوال کا نقشہ اسی رنگ کا بغداد میں تھا، ہو گا۔ مگر وہاں سے مثال لانی ہی تھی تو تھوڑا سا تردد کر کے اس عہد کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے دیکھا ہوتا۔ ممکن ہے اس عہد کے مسلمان علماء بھی بڑے مسائل کو چھوڑ کر کچھ فروعی مسائل میں مغز سوزی کر رہے ہوں مگر وہ سوئی کی نوک پر فرشتوں کے نام نہاد رقص کا مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ کیا کبھی مسلمانوں کی مذہبی روایات میں فرشتوں سے رقص کا مشغلہ وابستہ کیا گیا ہے۔ ایسا تصور عیسائی روایات میں ہو گا' اسلامی روایات میں ایسا تصور انہونی بات ہے۔
لیجیے ہمیں یہاں زوال سے پہلے کے بغداد کے سلسلہ میں ایک حوالہ یاد آ گیا۔ تاریخ الخلفا کا حوالہ۔ زوال بغداد سے پہلے اس شہر کی کیا فضا تھی اس پر وہاں اچھی خاصی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ ایسی علامتوں اور اشاروں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے لگتا تھا کہ اس شہر پر کوئی بڑی آفت ٹوٹنے والی ہے۔ مثلاً ایک یہ واقعہ نقل کیا گیا کہ ایک صبح بغداد کی فضا میں ایک عجیب و غریب پرندہ نمودار ہوا۔ وہ اتنی ڈراونی آواز میں بولا جیسے چیخ رہا ہو۔ اس کی چیخ سے سننے والوں کو لگا کہ وہ چلا کر کہہ رہا ہے کہ اے اہل بغداد، اے اہل بغداد، جیسے انھیں خبردار کر رہا ہو کہ تمہارے شہر پر قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ لکھا ہے کہ پھر وہ پرندہ غائب ہو گیا۔ ادھر سارا شہر دہل گیا کہ یہ کیسا پرندہ تھا اور کیا سناونی لے کر آیا تھا۔
مگر اس بیان میں کوئی ایسا ذکر ہمیں یاد نہیں آ رہا کہ شہر کے علماء کسی فروعی مسئلہ پر بحث مباحثہ میں سر کھپا رہے ہوں۔ ان علماء کی جو کوتاہیاں بھی ہوں مگر ان سے وہ بے بصیرتی تو مت منسوب کرو جو قسطنطنیہ کے پادریوں سے منسوب ہے۔
ہاں ہمیں یاد آیا کہ زوال سے پہلے کے بغداد میں جن بدشگونیوں کا چرچا تھا ایسا ہی چرچا 1857ء میں دلی کی تباہی سے پہلے وہاں بھی بہت تھا۔ لگتا تھا کہ ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے شہر کی خلقت نے سونگھ لیا تھا کہ ان کے شہر کے ساتھ کوئی سانحہ گزرنے والا ہے۔ مثلاً دلی کے آسمان پر ایک دُمدار ستارہ نمودار ہوا جو چند دنوں تک شام پڑے نمودار ہوتا پھر غائب ہو جاتا۔ ہفتے عشرے کے بعد یکسر غائب ہو گیا۔ اسے بدشگنی سمجھا گیا اور غالبؔ نے ایک خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ''جب زمانے کے مزاج میں فساد کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں تب سطح فلک پر ایسی شکلیں نمودار ہوتی ہیں'' آگے چل کر لکھا ''بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ صورتیں قہر الٰہی کی ہیں اور دلیلیں ملک کی تباہی کی۔''
تو کیا واقعی ایسی کسی بڑی تباہی سے پہلے قدرت کی طرف سے ایسے اشارات ہوتے ہیں یا یہ ہمارے توہمات ہوتے ہیں جو ایسے گُل کِھلاتے ہیں۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ کیا یہ بحث کہ شہادت کا معیار کیا ہے۔ جان سے گزرنے والا کونسا ایسا ہوتا ہے جو شہید کہلانے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ کیا یہ بحث اسی قسم کی بحثوں کے ذیل میں آتی ہے کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے رقص کر سکتے ہیں یا یہ کہ حضرت عیسیٰؑ کے لیے اترنے والے خوان میں روٹی خمیری تھی یا فطیری تھی۔ خدا کا خوف کرو۔ ان لایعنی بحثوں کے حساب میں اس بحث کو ڈال رہے ہو؎
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ سوال تو اس ستمگر زمانے کے سیاق و سباق میں جو سب سے بڑھ کر آج کے ''قتلام'' (قتل عام) کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے کب سے زبانوں پر آنے کے لیے تلملا رہا تھا۔ یہ سوال اب نہ اٹھتا تو کب اٹھتا جب جماعت اسلامی کے بزرگ نے ایسا فیصلہ سنا دیا جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ؎
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
اسلامی روایت میں شہادت کے تصور کو ایک تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ وہ دھندلانے لگے یا اس کی ایسی تعبیریں کی جانے لگیں جن پر اعتبار کرنا مشکل نظر آئے تو پھر نئے سرے سے اس پر بحث ہونی چاہیے۔ اس میں پریشانی کی کونسی بات ہے۔