خرد کا نام جنوں رکھ دیا
اپنے ایک پچھلے کالم میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے سیلاب سے خوفزدہ انسانوں اور سانپوں کے...
اپنے ایک پچھلے کالم میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے سیلاب سے خوفزدہ انسانوں اور سانپوں کے ایک درخت کی ایک شاخ پر ایک دوسرے کے لیے بے ضرر بن کر بیٹھنے کے حقیقی واقعے کا حوالہ ہم نے اس لیے دیا تھا کہ ہم سانپوں اور انسانوں کے بے ضرر پڑوسی بن جانے سے سبق حاصل کریں اور اس قومی انتشار سے باہر آئیں جس میں ہم مبتلا ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم اس قومی انتشار کے خطرناک نتائج کو محسوس کر کے متحد ہونے کے بجائے مزید تباہ کن انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا تمام تر فائدہ ان طاقتوں کو ہو گا جو پاکستان اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے مستقبل کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حیوان اس صلاحیت سے محروم ہوتا ہے غالباً اسی فرق کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن یہ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہم سوچ سمجھ سے محروم حیوانوں سے بھی گئے گزرے نظر آ رہے ہیں۔
دہشت گردوں نے اب تک 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کر دیا ہے جن میں ہزاروں فوجی جوان اور اعلیٰ افسر شامل ہیں۔ لیکن افسوس کے ہمارے ملک کی ایک محترم جماعت کے محترم سربراہ نے ایک ایسی تلخ حقیقت کے خلاف اور غیر منطقی بات کر دی کہ فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کو اس پر احتجاج کرنا پڑا۔ محترم امیر نے یہ فرما دیا کہ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کرنے والا حکیم اللہ محسود شہید ہے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجی شہید نہیں۔ اس افسوس ناک الزام کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ ہماری فوج امریکا کی جنگ لڑ رہی ہے اس لیے اس جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کو شہید نہیں کہا جا سکتا۔ یہ موقف اس قدر تکلیف دہ ہے کہ سارا ملک اس پر چیخ اٹھا ہے جس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ کیا اس غیر منطقی موقف سے ہم مزید فکری انتشار میں مبتلا نہیں ہوں گے؟
بلاشبہ فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے لیکن ملک کے عوام، اہل علم و دانش اور خود مذہبی جماعتیں چیخ رہی ہیں کہ شہیدوں کو حرام موت کہنا اور حرام موت مرنے والوں کو شہید کہنا نہ صرف مذہبی اقدار کی توہین ہے بلکہ انسانی قدروں کی پامالی بھی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے غلطی کو جمہوریت کے عین مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کو امریکی جنگ قرار دینے والوں سے عوام دو سوال کر رہے ہیں اول یہ کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ امریکی تھی یا پاکستانی، اس امریکی جنگ کو ہم نے جہاد کا نام دے کر جو جنگ لڑی وہ کس اصول کس اخلاقیات کون سے مذہبی اصولوں کے مطابق جہاد تھی؟ عوام کا دوسرا سوال یہ ہے کہ 1977ء میں جو جمہوری جنگ ایک جمہوری رہنما کے خلاف لڑی گئی اور یہ جنگ جیتنے کے بعد بدترین امریکی غلام کی حکومت میں شمولیت کو کس قسم کے جمہوریت کا نام دیا جائے؟
ضیا الحق وہ فوجی آمر تھا جس نے ڈالروں کے عوض پاکستان کو امریکا کی جنگ میں اس بیدردی سے دھکیل دیا کہ اس کے بدترین آفٹر شاکس، دہشت گردی کا پوری قوم کو سامنا ہے اس جہاد کی قیمت تو جمہوریت پسندوں نے ڈالروں کے سیلاب کی شکل میں وصول کر لی لیکن عوام اس جہاد کی جو قیمت ادا کر رہے ہیں اس کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے؟ آج ملک کے چپے چپے میں ہتھیاروں کے جو انبار لگے ہوئے ہیں پورا ملک جس دہشت گردی کا شکار ہے اور پاکستانی عوام کے مستقبل کو ہائی جیک کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب سیاست سے بالا تر ہو کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ملک ایک ایسے موڑ پر آ جائے گا جہاں بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ جو جماعتیں جو سیاسی اور مذہبی رہنما پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کو امریکی جنگ کا نام دے کر عوام کے مستقبل سے کھیلنے اور عوام کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا وہ اس خطرناک کھیل کے انجام سے واقف نہیں؟
پاکستان میں بے شمار مذہبی جماعتیں ہیں جو پچھلے 66 سالوں سے عوام کی حمایت کے جمہوری راستے سے اقتدار میں آ کر شریعت کے نفاذ کی کوشش کر رہی ہیں جن کی جمہوریت پسندی کی تحسین کی جانی چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ایسی جمہوریت پسند جماعتیں آج ان گروہوں کی حمایت کیوں کر رہی ہیں جو خود مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے شریعت کے نفاذ کی افسوس ناک جنگ لڑ رہے ہیں؟ پاکستانی عوام جو 66 سالوں سے ان مذہبی جماعتوں کو مسترد کرتے آ رہے ہیں جو جمہوری اصولوں پر چلتے ہوئے برسر اقتدار آنا چاہتی ہیں ایسے عوام کیا ان لوگوں کو قبول کریں گے جو بندوق تلوار، بارودی جیکٹوں، ٹائم بموں اور بارودی گاڑیوں، جدید ہتھیاروں کی مدد سے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر کے ملک میں شریعت نافذ کرنے جا رہی ہیں؟
دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے محترم مذہبی رہنما ان قاتلوں کی موت کو شہادت کہہ رہے ہیں اور ان بے گناہ مقتولوں کی شہادت کو ہلاکت کہہ رہے ہیں جو جرم بے گناہی پر قتل کیے جا رہے ہیں۔ اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے ہماری مذہبی جماعتیں بڑی وسیع القلبی کے ساتھ 66 برسوں سے اختلاف رائے کو برداشت کرتی آ رہی ہیں اور اس اختلاف رائے کو انسانوں کا حق سمجھتی ہیں لیکن جو گروہ اختلاف رائے کو ایسا سنگین جرم سمجھتے ہیں جس کی سزا موت دی جا رہی ہے کیا ایسے گروہوں کی حمایت جمہوری اخلاقیات کے دائرے میں آتی ہے؟ جو گروہ مسجدوں، امام بارگاہوں، نمازیوں، نماز جنازہ ادا کرنے والوں کو بموں سے اڑا رہے ہیں اور گرجا گھروں پر حملے کر کے سیکڑوں عبادت کرنے والوں کے قتل کو شریعت کے عین مطابق کہہ رہے ہیں کیا ایسے گروہوں کی حمایت میں اس حد تک آگے جانا کہ ان گروہوں کی قیادت کرنے والوں کی موت کو شہادت کہنا جمہوریت اور اسلامی اقدار کے حقائق ہیں؟ کیا یہ گروہ مندروں، گرجا گھروں کو تباہ کرنے کو شریعت کے عین مطابق کہہ کر دنیا بھر میں مسجدوں کی تباہی کا جواز اور ترغیب نہیں فراہم کر رہے ہیں؟
پاکستان میں بار بار فوجی مداخلت کے ذریعے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا گیا جسے جمہوریت دشمنی کہا جاتا ہے لیکن یہ کس قدر شرمناک حقیقت ہے کہ خود جمہوریت پسند جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والے فوجی آمروں کی حکومتوں کا حصہ بنتے رہے۔ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کا فیصلہ ہمیشہ چند اعلیٰ فوجی افسر کرتے رہے ہیں ان فیصلوں میں عام فوجی جوانوں کا کوئی دخل نہیں رہا وہ تو صرف اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کرتے ہیں پچھلے دس سالوں سے یہ فوجی جوان جنگلوں، پہاڑوں، خطرناک گھاٹیوں میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں ان شہیدوں کی موت کو محض ہلاکت کہنا اور ان فوجیوں کو قتل کرنے والوں کی موت کو شہادت کہنا کیا قرین انصاف ہے؟ سیاسی مفادات سیاسی جماعتوں کو جمہوری حدود پار کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ان اخلاقی اور جمہوری حدوں کو پار کر کے دہشت گردوں کی حمایت کرنا کیا ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کو داؤ پر لگانا نہیں ہے؟
ہو سکتا ہے 66 سالوں سے جمہوریت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے میں ناکامی نے ہماری بعض مذہبی جماعتوں کو مجبور کردیا ہو کہ وہ دہشت گردوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے پر تل رہے ہوں لیکن ہماری گزارش ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کے انجام کو پیش نظر رکھیں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ امن اور جمہوریت کا نام دہشت گردوں کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں اور جمہوری قدروں سے بغاوت کرنے والوں کی یہ امید بر آنے کا کوئی امکان نہیں کہ دہشت گرد انھیں اپنے اقتدار کا حصہ بنائیں گے۔ ایسے تلخ حقائق کے پس منظر میں شہیدوں کی شہادت کو ہلاکت اور عوام کے قاتلوں کی موت کو شہادت کہنا خود شہادت کی توہین ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے