عجیب دنیا

یوں تو دنیا میں سب ہی کچھ برائے فروخت لگتا ہے لیکن برطانیہ کی مائیں اب اپنے ہی اولاد کو پیسوں کے لیے...


Shaikh Jabir November 21, 2013
[email protected]

یوں تو دنیا میں سب ہی کچھ برائے فروخت لگتا ہے لیکن برطانیہ کی مائیں اب اپنے ہی اولاد کو پیسوں کے لیے دودھ پلائیں گی۔ گزشتہ ہفتے برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ دودھ پلانے والی ماؤں کو معاوضے کے طور پر ایسے واؤچر دے گی جنھیں سپر مارکیٹوں اور بڑی دُکانوں پر بُھنایا جا سکے گا۔ یہ رقم 200 پونڈ تک ہو گی۔

واضح رہے کہ ساری دنیا کی طرح برطانیہ میں بھی مائیں بچوں کو دودھ پلانے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ ''دی گارجیئن'' اپنی 22 جون2013ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں 5700 کی کمی سے خواتین نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا۔ 2004ء سے حکومتی ادارہ صحت نے ان اعداد و شمار کی تدوین کا کام شروع کیا ہے۔ جب سے اب تک کی یہ ریکارڈ کم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2012-13ء میں 327048 مائیں زچگی کے چھٹے سے آٹھویں ہفتے تک اپنے بچوں کو دودھ پلانا ترک کر چکی تھیں۔ کُل زچگیوں کا یہ قریباً نصف ہے۔ ''یارک شائر'' اور ''ڈربی شائر'' کے علاقوں میں دودھ پلانے والی ماؤں کی تعداد اور بھی کم بتائی جاتی ہے۔

سائنس دان اور طبی ماہرین کم ہی کسی بات پر متفق نظر آئے ہیں، لیکن اس بات پر قریباً سب ہی متفق ہیں کہ نو مولود کے لیے ماں کا دودھ ہی بہترین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ نومولود کا حق ہے۔ یہ خدا وند تعالیٰ کی طرف سے ہر ہر نومولود کے لیے وہ تحفہ اور وہ رزق ہے جس کا دستر خوان ماں کی چھاتی کو بنایا گیا ہے۔

صدیوں سے مائیں اِسے ممتا کی ذمے داری اور الوہی خدمت کے طور پر انجام دیتی آئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ مائیں اپنے ہی جگر گوشوں کو اس قیمتی ترین متاع سے محروم کیے دے رہی ہیں، اپنی ہی اولاد کو ایسا نقصان پہنچا رہی ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطابق جس کا مداوا ممکن نہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہم سایہ ملک سے ''دی نیو انڈین ایکسپریس'' کی اشاعت بابت 5ا کتوبر2013ء میں ارون کی اس رپورٹ سے مل سکے جس کا عنوان ہے، ''بچوں کو دودھ پلانا، معاف کیجیے کیرالا کی مائیں بہت مصروف ہیں۔'' صارفیت (کنزیو مر ازم) ریاست کے بچوں سے زبردست خراج وصول کر رہی ہے۔

نوجوان مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے بجائے ابتدائی چھ ماہ کے عرصے میں ہی بچوں کو کمرشل غذاؤں پر لے آتی ہیں۔ ''نیشنل نیوٹریشن مانیٹرنگ بیورو'' کے مطابق کیرالا کی ماؤں کا یہ تناسب 33 فی صد ہے، اُڑیسہ میں 17.7 اور تامل ناڈُو میں15.2 فی صد تک ماؤں کا انحصار کمرشل غذاؤں پر ہے۔ مطالعے میں یہ بھی پایا گیا کہ ایک سے تین برس کے بچوں میں سے32.1 فی صد بچے لحمیاتی فاقے اور دیگر تغذیاتی کمیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹی جے کرشنا کے مطابق ان بچوں کی مائیں زیادہ تر ملازمت پیشہ خواتین ہیں۔

صنعتی انقلاب کے بعد انسانی غلامی کے نئے دور کا آغاز ہوا جب صنعت کاروں کو صنعتیں چلانے کے لیے افرادی قوت درکار تھی۔ زیادہ سے زیادہ افراد کو صنعتی غلام کاری میں شامل کرنے کے لیے تحریک نسواں کا ڈول ڈالا گیا۔ خاندانی نظام کو برباد کیا گیا اور عورت کو بازار کی جنس بنا دیا گیا۔ آج نوبت بہ ایں جا رسید کہ طبی ماہرین اور سائنس دان کچھ بھی کہتے پھریں، کارپوریٹ کلچر کی پروردہ عورت اول تو ماں بننے ہی پر بہ مشکل تیار ہوتی ہے اور اگر بوجوہ ایسا ہو بھی تو دو برس تو دور کی بات ہے چھ ماہ کے لیے بھی بچے کو دودھ پلانا محالات میں سے ہے۔

آپ دیکھیں یورپ میں شرح افزائش منفی ہے۔ یعنی وہاں پیدا ہونے والے انسانوں کے مقابلے میں مرنے والے انسانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہاں کی عورت کو اُس کے وہبی فریضے سے ہٹا کر کسب معاش کے چکر میں پھنسا کر سرمائے کی لونڈی بنا دیا گیا ہے۔ اب وہ بہ مشکل ہی ماں بننا قبول کرتی ہے۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو ڈیڑھ دو برس تک اپنی اولاد کو دودھ پلا نا کم از کم کارپوریٹ کلچر میں تو ممکن نہیں۔ اُسے لا محالا ڈبے کے دودھ اور ڈے کئیر سینٹر کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

اب یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں کہ آغوشِ مادر اور شِیرِ مادر کے بجائے ڈبے کے دودھ اور ڈے کئیر سینٹر میں پلنے بڑھنے والے، تیز رفتار کارٹون پروگرام دیکھنے والے، متشدادنہ گیمز اور فلموں کے شائق بچے کی کیا شخصیت تشکیل پاتی ہے؟ کیسا انسان، کیسا ضمیر نمو پزیر ہوتا ہے۔ وہ اپنی ماں کی طرح صرف اپنے لیے سوچنے اور جینے والا، خود غرض، موقع پرست اور پیسے کا پجاری ہو گا یا انسانوں کا درد رکھنے والا انسان دوست؟

سی این این 5 اگست2013ء کو بیجنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع کرتا ہے۔ کہ وہاں کی مائیں کس طرح اپنا دودھ فروخت کر کے پیسے بنا رہی ہیں۔ آج ''شنگھائی'' سے لے کر ''گوانگ ژو'' تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ انٹر نیٹ نے یہ خرید و فروخت اور بھی آسان کر دی ہے۔ ''ففٹی ایٹ ڈاٹ کام'' اس حوالے سے چینی ماؤں کی پسندیدہ سائٹ ہے۔ اگر چہ چین کی وزارتِ صحت کے تحت کام کرنے والے ''لاء سپر وائزر ڈیپارٹمنٹ'' نے واضح کیا ہے کہ ماں کا دودھ جنسِ تجارت نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسے پروا، آج کی بڑھتی ضروریات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی جنسِ تجارت بن سکتا ہے۔

کچھ لوگ اِسے سیال سونے سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ''یونیسیف'' متفق ہیں کہ نومولود کے لیے ماں کا دودھ ہی بہترین غذا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ماں کا دودھ کم ہو یا نہ ہو تو کسی اور ماں کا دودھ بچے کو پلا یا جانا چاہیے۔ اس خیال کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی خون اور اعضاء وغیرہ کی خرید و فروخت عام ہے، جب لوگ اس میں عار نہیں سمجھتے تو آخر ماں کا دودھ ہی کیوں۔

مغرب میں اس طرح کے بینک بھی قائم ہیں جہاں ماں کا دودھ نہ صرف یہ کہ ذخیرہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کی خرید و فروخت بھی جاری ہے۔ خواتین اپنا دودھ بیچ کر 1200 ڈالر یا اس بھی زائد ہر ماہ کما رہی ہیں۔ وہ دودھ کی فروخت کے لیے مختلف ہتھکنڈے بھی استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اشتہار میں واضح کرتی ہیں کہ اُن کا دودھ مکمل طور پر نامیاتی ہے، کیوں کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے وہ نامیاتی غذا کے علاوہ کچھ نہیں کھا رہیں، وغیرہ۔

اس کمائی کی جنس سے منافع بٹورنے کے لیے برطانیہ کے ایک ریسٹورنٹ نے انوکھا طریقہ سوچا۔ جب بھی آئس کریم کی بات ہو تو آپ کے ذہن میں اس کے مختلف ذائقے تو آ سکتے ہیں لیکن آپ یہ نہیں سوچ پائیں گے کہ ماں کے دودھ کی آئس کریم بنا کر فروخت کی جائے۔ برطانیہ کا ایک ریسٹورنٹ ''بے بی گا گا'' کے نام سے ا یک آئس کریم بیچ رہا ہے جو ماں کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے۔ مارٹینی اور کاک ٹیل کے گلاس میں پیش کی جانے والی آئس کریم کی قیمت 14 پونڈ ہے۔

برطانوی حکومت کو اپنے فیصلے کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کس طرح منصفانہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اُسی کام کے پیسے ملنے لگیں جو بہت سے مفت میں انجام دیتے ہیں، یعنی اپنی ہی اولاد کو دودھ پلانا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی کی قدر کے خلاف نہیں کہ کسی کو پیسے دے کر کسی خاص کام پر مجبور کیا جائے؟

یہ کیسی عجیب دنیا ہے کہ ماں کا دودھ بھی جنسِ تجارت بن گیا ہے۔ کچھ مائیں ہیں جو اپنی اولاد کو دودھ سے محروم رکھ رہی ہیں، صرف اپنی ملازمتوں اور پیسے کے لیے اور کچھ مائیں ہیں جو اپنی ہی اولاد کو دودھ پلائیں گی صرف پیسے کے لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں