سانحہ راولپنڈی اور علما کی ذمے داریاں

مسلمانوں کی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہر دور میں مختلف سازشیں پروان چڑھتی رہیں مفاد پرستوں، اسلام دشمن قوتوں نے...


حشمت اللہ صدیقی November 21, 2013

KARACHI: مسلمانوں کی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہر دور میں مختلف سازشیں پروان چڑھتی رہیں مفاد پرستوں، اسلام دشمن قوتوں نے ہمیشہ امت کی وحدت و اتحاد میں تفرقہ ڈالنے کے لیے مختلف حربوں سے کام لیا لیکن سب سے کامیاب حربہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت و مذہبی منافرت رہا ہے جس پر ہر دور میں عمل کر کے مسلمانوں کی اجتماعیت و اسلام کے جذبہ اخوت کو نقصان پہنچایا گیا۔ بدقسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میں بھی یہی حربہ استعمال کر کے فرقہ وارانہ منافرت کو دہشت گردی کی انتہا پر پہنچا دیا گیا جس کا تازہ نشانہ راولپنڈی کا سانحہ ہے جس میں ایک دینی مدرسہ و مسجد کو بھی نہیں بخشا گیا متعدد بے گناہ معصوم طلبا و نمازیوں و کاروباری مارکیٹوں کو نشانہ بنایا گیا مسجد و مدرسہ کو فرقہ واریت کی آگ میں تباہ کر دیا گیا۔

درندگی و سفاکیت کا ایسا مظاہرہ کیا گیا جس سے انسانیت بھی شرمندہ ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دور جاہلیت ہم پر دوبارہ مسلط ہو گیا ہے۔ محرم الحرام جیسے حرمت والے مہینے میں بے گناہ نمازیوں و معصوم طلبا کی شہادت، آتش زنی، مساجد و مدارس و قرآن و احادیث کی بے حرمتی کا یہ المناک سانحہ ایسا نہیں اسے محض دو گروہوں کے تصادم قرار دے کر دہشت گردوں کو نظر انداز کر دیا جائے جیسا کہ اس سے پہلے اس قسم کے سانحات کو سرد خانے میں ڈالا جاتا رہا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پنڈی میں ایک مرتبہ پھر اسی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا گیا اگرچہ اس مرتبہ حکومتی انتظامات قابل اطمینان رہے فوج بھی طلب کی گئی موبائل سروس و ڈبل سواری پر بھی پابندی رہی لیکن اس کے باوجود پنڈی میں دہشت گردوں کو موقع مل گیا۔

عینی شاہدین و اخباری اطلاعات کے مطابق وہاں کی مقامی انتظامیہ نے جلوس و مسجد میں خطبہ جمعہ کے درمیان کسی ممکنہ تصادم کو روکنے کے لیے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات میں غفلت برتی اور بروقت علما کو اعتماد میں لے کر وقتی طور پر یہ مسئلہ حل نہیں کرایا جس کہ باعث اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا جب کہ واضح رہے کہ خفیہ اداروں نے قبل از وقت ایسے واقعات رونما ہونے کی اطلاعات دے دی تھیں۔ ان حالات کے تناظر میں اندرونی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اب جب کہ حکومت نے بعد از خرابی بسیار تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے تو مقامی انتظامیہ کی غفلت یا سازش پر مبنی اس کردار ضرور تحقیقات ہونی چاہئیں کہ مقامی انتظامیہ نے آخر کیوں جلوس و مسجد کے خطبے کے دوران خاطر خواہ حفاظتی انتظامات نہیں کیے ۔

جس کہ باعث شر پسندوں کو بھرپور موقع مل گیا آج ملک جس نازک صورت حال سے گزر رہا ہے اس میں سر فہرست طالبان سے مذاکرات، نیٹو سپلائی کی بندش و ڈرون حملوں سے متعلق جو قومی جذبات ہیں ان کے تناظر میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ملک کو پہلے اندرونی سازشوں سے پاک کیا جائے اور بیرونی سازشوں کے لیے ملک میں موجود آلہ کاروں کے خلاف آپریشن کیا جائے اس کے ساتھ ہی علما و دینی جماعتوں و دینی اتحاد پر مبنی تنظیموں پر بھی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ فرقہ واریت و مذہبی منافرت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں جس نے آج ناسور کی حیثیت اختیار کر رکھی ہے ورنہ بصورت دیگر اگر خدانخواستہ فرقہ وارانہ دہشت گردی سے ملکی استحکام کو نقصان پہنچا تو بقول وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف تاریخ علما کرام کو معاف نہیں کرے گی۔

اس لیے فرقہ واریت کی بڑھتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے محراب و منبر سے آواز بلند کرنی چاہیے اور ایسے عناصر جو کہ ان کی صفوں میں موجود ہیں جو مذہبی منافرت کو ہوا دیتے ہیں۔ اشتعال انگیز باہمی منافرت پر تقاریر کرتے ہیں اور ایسی سازشوں میں آلہ کار بنتے ہیں انھیں صفوں سے نکال دینا چاہیے خواہ وہ کسی مسلک و فقہہ سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ کوئی مسلک یا فقہہ تفرقہ، منافرت، بدامنی و دہشت گردی کا سبق نہیں دیتا بلکہ ہر مسلک و فقہہ باہمی امن و سلامتی کا درس دیتا ہے جو کہ اسلام کی اصل تعلیمات ہیں آج سانحہ پنڈی جیسے واقعات سے غیر مسلموں کو ہم کیا پیغام بھیج رہے ہیں کیا یہی اسلام ہے؟ کیا غیر محسوس طریقے پر ہم اسلام کی بدنامی کا ذریعہ نہیں بن رہے ہیں؟

یقینا علمائے کرام جو کہ اہل علم اور اسلام کا واقعی درد رکھتے ہیں ان کا اتحاد امت و فرقہ ورانہ ہم آہنگی و باہمی رواداری کے لیے خدمات مسلمہ ہیں جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل و اتحاد بین المسلمین جیسی تنظیمیں معاشرے میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے مثبت کردار ادا کر رہی ہیں لیکن ضرورت ہے کہ ان تمام تنظیموں و اداروں میں بھی باہمی ربط ہو اور دائرہ کار کو مزید وسیع و فعال کیا جائے۔ علما ئے کرام و دینی تنظیموں کو اعلیٰ سطح پر مصالحتی بورڈ و اتحاد بین المسلمین کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں جس میں ایسے اعتدال پسند، محقق علما و دانشور شامل ہوں جن پر ہر مکتبہ فکر کا اعتماد ہو وہ فیصلہ کریں کہ آیا ان جلوسوں و تقریروں سے پیدا ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے کس مصلحت کے تحت کنٹرول کیا جاسکتا ہے حکومت کو آیندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے علما و دینی جماعتوں کو کردار ادا کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر رابطہ رکھنا چاہیے۔

جب کہ صرف محرم الحرام و ربیع الاول میں ہی چند محدود علما جو کہ خود اتحاد کے لیے کوشاں رہتے ہیں ان کو سرکاری سطح پر طلب کر کے گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر مذہبی امور و دیگر محض افسر شاہی کی تیار کردہ لسٹ و ایجنڈا اپنا کر میڈیا کی زینت بنایا جاتا ہے اس کے بعد یا اس اجلاس میں کوئی مستقل بنیادوں پر منصوبہ یا تجاویز کو عملی شکل نہیں دی جاتی لیکن حالات کا تقاضہ ہے کہ اب آیندہ کے لیے ایڈہاک ازم ترک کیا جائے اور ان اجلاسوں میں پیش کی جانے والی تجاویز کو عملی شکل دی جائے جو ہمیشہ اجلاس کے بعد اجلاس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں یا پھر کوئی واقعہ رونما ہونے پر ہی زندہ ہوتی ہیں اس سلسلے میں راقم الحروف درج ذیل تجاویز حکومت، علما کرام و دینی جماعتوں کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے تا کہ آیندہ ایسے واقعات کا تدارک ممکن ہو سکے امید ہے کہ ان تجاویز پر علما کرام غور فرمائیں گے۔

تجاویز:-
(1)۔ مساجد و امام بارگاہوں میں ہونے والے پروگراموں کی مانیٹرنگ کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جو اصلاح کے لیے تجاویز مرتب کرے اور ضابطہ اخلاق ترتیب دے۔
(2)۔ لاؤڈ اسپیکر، ڈیک وغیرہ کے آزادانہ استعمال پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے بیرونی لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگائی جائے اور ڈیک پر محلہ، جگہوں، مکانوں پر کھلے عام تقاریر سنانے پر بھی پابندی لگائی جائے۔
(3)۔تمام مذہبی تقاریر و پروگرام کے لیے NOC پر عمل درآمد کرایا جائے خلاف ورزی پر سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔
(4)۔ میڈیا (الیکٹرانک و پرنٹ) ازخود مذہبی منافرت پر مبنی بیانات و تقاریر کو سنسر کرے۔
(5)۔ فرقہ وارانہ شناخت پر مبنی رنگوں، نعروں، مطالبوں پر مبنی چاکنگ کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے۔
(6)۔مساجد و مدارس کے قبضے و مسلکی تنازعات کو کنٹرول کرنے کے لیے مصالحتی علما کمیٹی قائم کی جائے۔
توقع ہے کہ حکومت، علما و دینی جماعتیں، میڈیا اپنے قومی و مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں