میرا شہید
سوال بہت ہیں اور سوالی بھی۔ عالم بھی بہت ہیں اور علم بھی۔ لیکن حتمی جواب کہاں ہے؟ غور و فکر کی ...
KARACHI:
سوال بہت ہیں اور سوالی بھی۔ عالم بھی بہت ہیں اور علم بھی۔ لیکن حتمی جواب کہاں ہے؟ غور و فکر کی کھیتی ویران کیوں ہے؟ یہ بدنصیبی نہیں تو کیا ہے کہ سیاست سے لے کر صحافت تک، قیادت سے لے کر ہدایت تک، اہل سپاہ سے لے کر اہل علم تک اور مفتیان دین سے لے کر عوام الناس تک ہر مکتب فکر کا نکتہ نظر جداگانہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنی منطق کو دوسروں پر جبری مسلط کرنا حکمت اور دانش مندی سمجھا جاتا ہے کہ۔۔۔۔ ''دیکھا! بالآخر ہم نے اپنی بات منوا ہی لی''۔ عجب معاملہ ہے کہ دوسرے کی رائے کا احترام تو کجا اس سے اختلاف بلکہ رد کر دینے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
صبر، تحمل، برداشت، رواداری، اعتدال پسندی اور مروت کا رویہ ہمیں پسند نہیں آتا۔ مسئلہ کوئی بھی ہو، غور و فکر کرنا، سمجھنا اور سمجھانا اور دلائل سے اپنی رائے کا مودبانہ و مہذبانہ اظہار ہماری عادت ہی نہیں۔ ہمیں تو صرف تکرار اور بحث کرنے، الجھنے اور الجھانے میں مزہ آتا ہے اور یہی آج ہمارا قومی مزاج اور ہماری شناخت بن چکا ہے۔ نتیجتاً پوری قوم انتشار و افتراق کا شکار ہے اور انتقام، عداوت، بغض، کینہ، نفرت، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے اور بحیثیت مجموعی ملک و قوم ترقی، خوشحالی اور استحکام کی منزل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
آج کا پاکستان ان گنت مسائل، مصائب اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے، ایک جانب غربت، مفلسی، ناخواندگی، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور عدم تحفظ جیسے گمبھیر اور سنگین عوامی مسائل نے کروڑوں ہم وطنوں کے رات و دن کا سکون برباد کر رکھا ہے اور اہل اقتدار عوام کے مسائل حل کرنے کی سبیل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، جس کے باعث لوگوں میں مایوسی و بے چینی اور بد دلی کا پھیلنا ناقابل فہم نہیں جب کہ دوسری طرف عسکری، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے بیانات اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ''شہید'' اور ''شہادت'' کے خالصتاً دینی مسئلے کو بحث در بحث کے ذریعے اس قدر طول دیا جا رہا ہے کہ اس گتھی کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا ہے اور پوری قوم شدید کنفیوژن کا شکار ہے۔
بحث کا عالم یہ ہے کہ گھر ہو یا دفتر، چوپال ہو یا ہوٹل، سیاسی و سماجی تقاریب ہوں یا مذہبی اجتماعات جہاں دو چار لوگ جمع ہوجائیں موضوع ''شہید'' اور مرتبہ ''شہادت'' کا چھڑ جاتا ہے اور عام آدمی سے لے کر اہل علم تک اپنے اپنے ''اسلامی فہم'' اور علم و دانش کی روشنی میں ''فلسفہ شہادت'' پر ایسے ''پر مغز'' دلائل دیتا ہے کہ جیسے اس کی رائے ہی ''حرف آخر'' ہے نہ جانے کیوں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے عالم کی جماعت کے موجودہ سربراہ نے امریکی ڈرون حملے میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دینے والے حکیم اللہ محسود کو تو ''شہید'' کے درجے پر فائز کر دیا لیکن شوق شہادت اور اسلامی جذبہ قربانی سے سرفراز دھرتی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوانوں کو ''شہید'' تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔
اس پر ''فلسفہ شہادت'' پر بحث و مباحثے کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مبصرین و تجزیہ نگار مضامین پر مضامین باندھ رہے ہیں دلائل اور منطق کا انبار لگا ہوا ہے لیکن اتمام حجت کہیں نہیں۔ جماعت اسلامی کے ''ہمدرد'' بھی ان صاحب کے ''فلسفہ شہادت'' پر انگشت بدنداں ہیں۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے بھی ایک متنازعہ بیان جاری کیا کہ امریکی ڈرون حملے میں کتا بھی مارا گیا تو وہ اسے ''شہید'' کہیں گے۔ مولانا کے بیان پر میڈیا میں تنقیدی شور و غل ضرور اٹھا لیکن انھوں نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے قدرے خاموشی اختیار کر لی اور ''شہید'' کی بحث سے مولانا فی الحال باہر ہو گئے، تاہم سید صاحب آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور جماعت اسلامی مشکلات سے دوچار۔ کل تک جماعت اسلامی پاک فوج کے ''شانہ بشانہ'' چلتی رہی ہے یہی اس کی تاریخ ہے، اسی نسبت سے ''ملا ملٹری اتحاد'' کا محاورہ معرض وجود میں آیا لیکن آج مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور فوج ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔
چونکہ سید صاحب کا بیان فوجی جوانوں کی شہادت کے حوالے سے تھا لہٰذا پاک فوج کا رد عمل ناقابل فہم نہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ان کے موقف کی سخت ترین مذمت کرتے ہوئے اسے غیر ذمے دارانہ، گمراہ کن اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے نئی منطق ایجاد کرنے سے تعبیر کیا اور دہشت گردی کے دوران جانوں کا نذرانہ دینے والے ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی شہادت کی توہین قرار دیا۔ فوجی ترجمان نے شہدا کے لواحقین اور پاکستانی عوام کے جذبات مجروح کرنے پر ان سے غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
فوج کے فطری ردعمل کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلامی کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی اپنی تاریخ اور مولانا مودودی کے فرمودات سے رجوع کرتی ملک کے موجودہ نازک حالات کے پیش نظر قومی یکجہتی کے فروغ اور اس کے پہلو بہ پہلو منفی اثرات اور میڈیا کی یلغار سے بچنے اور شہادت جیسے حساس موضوع پر جاری بحث کو مزید طول دینے سے گریز کی جانب قدم بڑھاتی اور سید صاحب اپنا بیان واپس لیتے ہوئے قوم کے ساتھ اپنے ''روایتی تعلقات'' کی جانب لوٹ جاتے لیکن افسوس کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے حکمت، بصیرت، دانش مندی اور فہم و فراست سے مدبرانہ انداز میں آگ پر پانی ڈالنے اور حجت تمام کرنے کی بجائے اپنے امیر کے استدلال کے درست ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور سارا نزلہ فوج پر گرا دیا جس نے ماحول کو مذید مکدر کر دیا ہے۔
لیاقت بلوچ نے پریس کانفرنس میں فرمایا کہ ''فوج کو براہ راست سیاسی و جمہوری معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہم پاک فوج کی شہادتوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن جماعت اسلامی معافی نہیں مانگے گی۔ ادھر وزیر اعظم نواز شریف نے جی ایچ کیو کے دورے میں بریفنگ کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دینے والے غازی اور شہید ہمارے محسن ہیں اور پوری قوم ان کی خدمات کو احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کا ہر افسر اور سپاہی جذبہ ایمانی سے لبریز ہے ان کے دلوں میں آرزوئے شہادت کا چراغ روشن رہتا ہے اور شہادت کی خواہش ہی ان کی اصل قوت اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد بھی حجت تمام نہیں ہوئی چونکہ ''شہید'' کی بحث خالصتاً دینی و شرعی معاملہ ہے لہٰذا یہ علمائے کرام و مفتیان دین کی ذمے داری ہے کہ وہ آگے آئیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں ''شہادت'' اور ''ہلاکت'' پر شرعی فتویٰ جاری کریں ورنہ ''میرا شہید'' کی بحث نئے تنازعات کو جنم دے گی۔