ذمے داروں کی غیر ذمے داریاں
پارلیمنٹ کے ارکان اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ سہی مگر معزز اور قومی معاملات کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک مرحوم صدرکو بھی نہیں بخشا گیا جو طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد تقریباً 5 عشروں قبل انتقال کرگئے تھے۔ ملک کے پہلے غیر سول صدر جنرل محمد ایوب خان تھے جنھیں پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا تھا، جن کی خدمات کے ملک میں آج بھی لاکھوں افراد معترف ہیں۔ صدر ایوب نے اپنے خلاف ہنگاموں کے بعد 1969 کے ماہ مارچ میں اقتدار چھوڑ دیا تھا اور ان کا انتقال پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہوا تھا۔
مرحوم صدر ایوب کے اپنے ہی پوتے اور وفاقی وزیر عمر ایوب کے اعتراض کے باعث قومی اسمبلی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے ارکان کو اپنے سابق صدر آصف زرداری پر الزام لگائے جانے کے باعث عمر ایوب کے مرحوم دادا کے خلاف نعرے لگانے پڑے۔ عمر ایوب اور ان کے والد گوہر ایوب مسلم لیگ (ن) میں بھی اہم عہدوں پر رہے ہیں اور اب پی ٹی آئی میں ہیں جس کی شدید مخالف سیاسی پارٹیوں میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔
عمر ایوب کے ایوان میں پی پی ارکان کے گھیراؤ سے ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی کے جوشیلے اور جذباتی نوجوان وزیر مراد سعید کی تقریر کے جواب میں پیپلز پارٹی کے ایک عمر رسیدہ رہنما رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے جو تقریر کی تھی اس کو ان کی پارٹی میں بھی پسند نہیں کیا گیا تھا اور سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے اس کی مذمت بھی کی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری پی پی کے چیئرمین اور پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر مراد سعید پہلے بھی 5 سال قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں رہے ہیں جنھیں خود ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو کی تقریر کا اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے تھا جو انھوں نے دیا اور پھر ایوان سے باہر چلے گئے۔
ان کی غیر موجودگی میں پی پی رہنما قادر پٹیل نے ایوان میں مراد سعید کے لیے جو کچھ کہا اس پر ان کے اپنے لوگوں نے ڈیسک بجائے اور ایوان سے باہر والوں نے بھی عمران خان کی مخالفت میں مراد سعید کے خلاف تقریر کو پسند کیا مگر ان کی تقریر پر سنجیدہ سیاسی حلقے معترض ہوئے اور حکومت کے حامی حلقوں میں بھی اسے پسند نہیں کیا گیا اور عبدالقادر پٹیل کی تقریر کو پارلیمنٹ کے تقدس کے خلاف قرار دیا اور ملک بھر میں ایوان میں ہونے والی پی ٹی آئی اور پی پی ارکان اسمبلی کی متنازعہ تقاریر پر اعتراضات ہوئے اور ثابت کر دکھایا گیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس و توقیر بس نام ہی کی حد تک ہے اور پارلیمان کی آبرو پارلیمنٹ کے اندر اس کے اپنے ہی معزز ارکان کے ہاتھوں پامال ہوتی آ رہی ہے۔
پارلیمنٹ کے ارکان اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ سہی مگر معزز اور قومی معاملات کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں ایسے ارکان بھی منتخب ہوکر آتے ہیں جو خود پارلیمان کی آبرو کا خیال نہیں رکھتے اور جوش خطابت اور اپنی قیادت کی نظر میں اہمیت حاصل کرنے اور خوش نودی کے حصول کے لیے وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو خود ان کے شایان شان نہیں ہوتا مگر بعد میں ان کی قیادت ان کے خلاف کبھی ایکشن نہیں لیتی ۔
چوہدری پرویز الٰہی کے بقول اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید اور شور شرابا ہوتا ہے جسے حکومت کو دانش مندی اور خوش اخلاقی و تدبر سے برداشت کرنا ہوتا ہے کیونکہ حکومت میں ہونے والوں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے مگر اب موجودہ اور سابق حکومتوں سے ایسی ذمے داری کے مظاہرے نہیں ہو رہے۔ حکومتی حلقے اپوزیشن کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے بے چین رہتے ہیں اور کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
وفاقی وزیر عمر ایوب کو سنجیدہ شخص سمجھا جاتا ہے مگر انھوں نے ایوان میں غیر ضروری طور پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا نام لیا اور بعد میں کہا کہ انھوں نے کسی کا نام نہیں لیا مگر ملک میں کون نہیں جانتا کہ سلیکٹڈ اور مسٹر ٹین پرسنٹ جیسے القاب کس کے لیے مشہور ہیں ۔ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ارکان اسمبلی کے قابل اعتراض الفاظ حذف کردیے جاتے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ تو نہیں رہتے مگر مدتوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ ایوانوں میں تو تکار اور مغلظات کی نوبت بھی آتی رہی ہے مگر کسی کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نظر نہیں آیا جس کی وجہ سے وفاقی وزیر مراد سعید کو بھی اسپیکر سے مطالبہ کرنا پڑا کہ ارکان کو پابند کیا جائے کہ وہ ایوان کے وقار کو مجروح کرنے کی کوئی بات نہیں کریں گے۔
قومی اسمبلی میں راؤ محمد اجمل جیسے سنجیدہ اور بردبار رکن بھی موجود ہیں جن کا تعلق اگرچہ مسلم لیگ (ن) سے ہے مگر وہ اپنی قیادت کے اچھے کام طریقے سے سراہتے ہیں تو ملک کی دردمندی بھی رکھتے ہیں اور تمام ارکان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ تنقید بھی حد میں رہ کر تعمیری انداز میں کریں۔ انھوں نے ملک میں زراعت کے اہم شعبے کی حالت زار پر ایک اجلاس میں توجہ دلائی تھی تو افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایوان کی خالی نشستیں اپنے منتخب ارکان کی اکثریت کی غیر حاضری پر ماتم کناں تھیں اور یہ پوچھ رہی ہوں گی کہ سب سے مقدس اور حکومت تشکیل دینے والے اس ایوان سے ارکان اکثر غیر حاضر کیوں رہتے ہیں۔
ایوان میں ہونے والی تقریروں پر ایوان مین ارکان برائے نام ہوتے ہیں اور سنجیدہ تقریر انھیں پسند نہیں آتی اور اگر ایوان میں مراد سعید اور قادر پٹیل جیسے ارکان جذباتی اور متنازعہ تقریر کریں تو ان کی حوصلہ افزائی ان کے اپنے لوگ نعرے بازی اور جوش سے ڈیسک بجا کر ہی نہیں بیچ بچاؤ کرا کر بھی کرتے ہیں۔
عبدالقادر پٹیل نے بعد میں اپنی تقریر پر معذرت بھی کی اور اس کا ذمے دار بعض وزرا کی تقریروں کو قرار دیا مگر مراد سعید نے تو کبھی اپنی تقریر اور رویے پر معذرت نہیں کی۔ بلاول بھٹو نوجوان ہے جنھوں نے وزیر اعظم کو جھوٹا قرار دیا تو وزیر اعظم ان کے بزرگ جیسے ہیں انھیں بھی اپنے بڑے پن کا ثبوت دینے کے لیے محتاط زبان استعمال کرنی چاہیے اگر ایوان میں بڑے پن اور بردباری شروع نہ ہوئی تو یہی ایوان مچھلی مارکیٹ سے بڑھ کر اخلاق باختگی اور خونریزی کی طرف بھی جا سکتا ہے کیونکہ غصے اور جذبات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔