وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے نئے صوبوں کی مخالفت

بحث و مباحثہ کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اتفاق رائے سے ملکی مفاد میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے

بحث و مباحثہ کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اتفاق رائے سے ملکی مفاد میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ فوٹو : ایکسپریس

وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے نئے صوبوںکے قیام کو ملک کی سلامتی اور یکجہتی کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے ۔

ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کیاجائے جس سے ملک کی موجودہ صورتحال مزید خراب ہونے کا احتمال ہو۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمدا سلم رئیسانی کا اس حوالے سے یہ مؤقف ہے کہ نئے صوبوںکی بات کرنے والے اس کی حساسیت کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس اہم ایشو کو سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ انہوںنے صدر مملکت ،وزیراعظم اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بارہا کہا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کا پنڈورا بکس نہ کھولا جائے بلکہ 1940ء کی قرار داد پر عمل کرتے ہوئے وفاق کی موجودہ اکائیوں کو مضبوط کیاجائے اور ان اکائیوں کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

1940ء کی قرار داد کی روشنی میں نیاعمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے یہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قومی یکجہتی کو فروغ اور مسائل و چیلنجز کا حل ممکن ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی جن کا تعلق پی پی پی سے ہے وہ پی پی پی میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے ہیں جس نے نئے صوبوں کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کرکے نہ صرف اپنا جمہوری حق استعمال کیا بلکہ اس بات کو بھی ثابت کیا کہ انکی سوچ اور پی پی پی کی قیادت کی سوچ میں اس حوالے سے فرق ہے اسی لئے انہوں نے نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بات کی ہے۔

وہ ملک کی بڑی دیگر سیاسی جماعتوں اور اسکی قیادت کو بھی اس حوالے سے قائل کریں گے۔ ان حلقوں کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل بھی 1940ء کی قرار داد کی بات کرتے ہیں ۔


ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر اس قرار داد پر عمل کیا جائے اور نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے تو ملک کوموجودہ بہت سے بحرانوں سے نہ صرف نکالا جاسکتا ہے بلکہ کئی چیلنجز کا بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے ان حلقوں کے مطابق حکومت کو چاہئے کہ وہ اس تجویز پر غور کرے اور اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کی ایک گول میز کانفرنس بلا کر اس میں اس پر بحث و مباحثہ کرائے۔

بحث و مباحثہ کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اتفاق رائے سے ملکی مفاد میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو جن نکات پر تمام سیاسی قائدین اور جماعتیں متفق ہوں اس پر ملک میں ریفرنڈم کراکے عوام سے بھی رائے لی جائے۔ ان حلقوں کے مطابق اس وقت پاکستان سخت مشکلات میں پھنسا ہوا ہے ۔لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ایسے حالات پر سر جوڑ کر فیصلے کرنے ہونگے۔

بلوچستان اسمبلی میں چار سال گزرنے کے باوجود اپوزیشن کا مسئلہ حل نہیں ہوا نہ ہی اس دوران کوئی اپوزیشن لیڈر بن سکا ،اب لگتا ہے کہ ملک کی واحد صوبائی اسمبلی جو کہ گزشتہ چار سال سے اپوزیشن لیڈر کے بغیر چلتی آئی ہے میں اپوزیشن لیڈر کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔سیاسی حلقوں کے مطابق جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں اور اس حوالے سے مختلف چہ مگوئیاں ہورہی ہیں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کی خواہش بھی تیزی سے مختلف ارکان اسمبلی کے دلوںمیں پیدا ہوتی جارہی ہے کیونکہ 20ویں ترمیم کے تحت نگران سیٹ اپ صوبے میں وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے آئے گا۔

سیاسی حلقوںکے مطابق نگران سیٹ اپ اپنی مرضی کا لانے کیلئے حکومت میں شامل دو جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز اپوزیشن لیڈر بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس حوالے سے وہ بھاگ دوڑ بھی کررہے ہیں، ان میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر میر عاصم کرد گیلو اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا عبدالواسع شامل ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت میں ان دونوں حضرات کا اثر و رسوخ انتہائی اہم رہا ہے ۔

سیاسی حلقوں کے مطابق جلد ہی اب فیصلہ ہو جائے گا کہ بلوچستان کی اپوزیشن کی خالی نشستوں پر حکومتی اتحاد سے کونسی جماعت الگ ہوکر بیٹھتی ہے، مسلم لیگ (ق) یا جمعیت علماء اسلام (ف)۔ دوسری جانب جمعیت علماء ا سلام نظریاتی نے بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اپنے اکلوتے وزیرعبدالخالق بشردوست کو جماعت سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نظریاتی ان کے خلاف کب الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرکے انہیں اسمبلی کی نشست سے بھی فارغ کرواتی ہے۔

جمعیت علماء اسلام نظریاتی کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ اس کی مجلس شوریٰ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر نیٹو سپلائی بحال ہوئی تو ان کے رکن اسمبلی عبدالخالق بشر دوست بلوچستان کابینہ کی وزارت سے مستعفی ہوجائیں گے ۔نیٹو سپلائی کی بحالی کے حکومتی فیصلے کے بعد جماعت نے جب ان سے استعفیٰ دینے کو کہا تو عبدالخالق بشر دوست نے حیلے بہانے شروع کردیئے اور لیت و لعل سے کام لیا جس پر جماعت نے انہیں ایک شوکازنوٹس دیا لیکن انہوںنے وزارت سے استعفی نہیں دیا چنانچہ پارٹی کی قیادت نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میںانہیں جماعت سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔
Load Next Story