پاکستان نے کبڈی ورلڈ کپ اور دل دونوں جیت لیے

کبڈی ورلڈ کپ میں شائقین کی ریکارڈ شرکت نے ماضی کی پرانی یادیں تازہ کردیں

پاکستان نے انڈیا کو شکست دے کر کبڈی ورلڈکپ پہلی مرتبہ اپنے نام کر لیا۔ (فوٹو: فائل)

بیساکھیوں کے سارے چلتے ایک بوڑھے شخص سے جب میں نے پوچھا ''بابا جی کدھر جارہے ہیں؟'' کہنے لگے "پتر، کبڈی ورلڈ کپ کا میلہ لاہور میں سجا ہوا ہے اور شام کو پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان عالمی کپ کا فائنل بھی کھیلا جارہا ہے۔ اپنے پوتے کے ساتھ پہلوانوں کے شہر گجرانوالہ سے لاہور آیا ہوں۔ اس حالت میں بھی اسٹیڈیم پہنچ کر دنیا کو پیغام دوں گا کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ امن کے علمبردار ہیں، مہمان نواز ہیں اور مہمانوں کی قدر کرنا خوب جانتے ہیں۔''

یہ الفاظ 70 سال سے زائد عمر کے محمد شریف کے ہی نہیں تھے بلکہ اس ملک کے 22 کروڑ سے زائد عوام کے جذبات بھی تھے۔ پاکستان اوربھارت کی ٹیموں کے درمیان کبڈی عالمی کپ فائنل کے موقع پر شائقین کے جوش وخروش کا یہ عالم تھا کہ اگر 30 ہزار سے زائد تماشائی پنجاب اسٹیڈیم کے اندر تھے تو اس سے کہیں زیادہ تعداد اسٹیڈیم کے باہر بھی موجود تھی، جو اپنی آنکھوں کے سامنے روایتی حریفوں کے درمیان مقابلہ دیکھنے کےلیے بے تاب تھے۔ میں نے زندگی کے 2 عشرے کھیلوں کے میدانوں میں گزارے ہیں۔ اچھی طرح یاد ہے کہ 1979 میں قذافی اسٹیڈیم کے میدان میں پاکستان کے جھارا اور جاپان کے انوکی پہلوان کے درمیان بھی ایک ایسا سنسنی خیز مقابلہ ہوا تھا۔ اس موقع پر شائقین نے ریکارڈ تعداد میں شرکت کرکے اس دنگل کو یادگار بنادیا تھا۔ بعد ازاں نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں ہاکی ورلڈ کپ 1990 کے فائنل اور قذافی اسٹیڈیم میں 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے ٹائٹل مقابلے کے موقع پر بھی شائقین کا جوش وخروش قابل دید تھا۔ 24 سال کے طویل عرصہ کے بعد کبڈی ورلڈ کپ میں شائقین کی ریکارڈ شرکت نے ماضی کی پرانی یادیں تازہ کردیں۔

کبڈی ورلڈ کپ میں بھارت کے ساتھ کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، سپر الیون سمیت دنیا کی آٹھ ٹاپ ٹیموں کا پاکستان آنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کا سہرا یقینی طور پر پاکستان کبڈی فیڈریشن، حکومت پنجاب اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کو جاتا ہے جنہوں نے دن رات ایک کرکے کبڈی کا عالمی میلہ کامیاب بنایا۔ اگر عالمی کپ میں اب تک کے مقابلوں کی بات کی جائے تو بھارت کو تمام ساتوں میگا ایونٹس کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ بھارتی ٹیم 6 بار عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔ 4 بار پاکستان اور بھارتی ٹیموں کے درمیان فائنل میں آمنا سامنا ہوا۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2014 کا ورلڈ کپ بھارت میں ہی کھیلا گیا۔ پاکستانی ٹیم کو کھیل کے آغاز سے ہی برتری حاصل تھی لیکن کھیل کے آخری لمحات میں بھارتی امپائرز نے اپنا کام کر دکھایا اور جیتی ہوئی بازی بھارتی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی۔ پاکستانی ٹیم فائنل 45-42 پوائنٹس سے ہار گئی۔ میچ کے دوران بھارتی کھلاڑی جسم پر ویسلین لگاکر بھی میدان میں آئے تھے لیکن پاکستانی ٹیم کے احتجاج کو سننے والا وہاں کوئی نہ تھا۔


اتوار کی شام پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان شیڈول میچ کے موقع پر شائقین نے پاکستان اور بھارت دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو دل کھول کر داد دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف کھیلوں کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں بلکہ بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والوں کو شاباش دینا بھی جانتے ہیں۔ مقابلے کے دوران جہاں بھارتی کپتان سمیت دوسرے کھلاڑیوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، وہیں پاکستان ٹیم کے کپتان محمد عرفان مانا، نائب کپتان شفیق چشتی، بنیامین اور دوسرے پلیئرز کے غیر معمولی کھیل نے شائقین کے دل جیت لیے۔ کبڈی میچز کے دوران طیب گیلانی، ماسٹر نعیم سمیت دوسرے کمنٹیٹرز کی پنجابی میں شاندار اور جاندار کمنٹری بھی شائقین کے دلوں کو گرماتی اور ان میں جوش وخروش پیدا کرتی رہی۔

ابھی یہ کل ہی کی بات لگتی ہے جب مارچ 2009 میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا۔ سانحہ لبرٹی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف کرکٹ کے عالمی مقابلوں کےلیے نوگو ایاز بن گیا بلکہ اس کے منفی اثرات ہاکی سمیت دوسری ملکی کھیلوں پر بھی پڑے۔ اور تو اور بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں بھی پاکستان میں کھیلنے سے انکاری رہیں۔ پاک فوج کے ضرب عضب اور ردالفساد کے نیتجے میں ارض پاک سے دہشت گردوں کا قلع قمع ہوا۔ جس کے بعد سے دوسرے شعبوں کی طرح کھیل کے میدانوں سے بھی اچھی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ پاکستان میں کھیلوں کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار پاکستان سپر لیگ نے ادا کیا۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم ٹوئنٹی20 کے بعد راولپنڈی میں بھی ٹیسٹ کھیل کر گئی ہے۔ ایم سی سی کی ٹیم بھی چار میچز کھیلنے کےلیے لاہور میں موجود ہے۔ 3 روز قبل برٹش ہائی کشمنر کی طرف سے ایم سی سی کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں غیر ملکی کھلاڑی، چیئرمین پی سی بی احسان مانی، سی ای او وسیم خان، لاہور قلندرز کے علاوہ موجودہ اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے شرکت کی۔ اس موقع پر میڈیا سے خصوصی بات چیت میں برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر کا کہنا تھا کہ ایم سی سی کے دورے سے دنیا بھر کو پاکستان کے پرامن ہونے کا پیغام گیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اس دورے کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے گی۔

20مارچ کو پی ایس ایل کا پورا میلہ پاکستان میں سجنے جارہا ہے، جس میں شامل ملکی اور غیر ملکی اسٹار کرکٹرز دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ پاکستان ہر حوالے سے محفوظ اور پرامن ملک ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story