سانحہ راولپنڈی اسکواڈ نے مجھے گلی میں چھپا دیا افسر بھاگ گئے معطل آر پی او

میری عدم موجودگی میں دیگرافسران نے کردارادانہیں کیا توان سے پوچھاجائے میں نے توکسی کوایکشن سے نہیں روکا، زعیم اقبال


Saleh Mughal November 22, 2013
میری عدم موجودگی میں دیگرافسران نے کردارادانہیں کیا توان سے پوچھاجائے میں نے توکسی کوایکشن سے نہیں روکا، زعیم اقبال. فوٹو

سانحہ راولپنڈی میں انتظامیہ اور پولیس کے کردار کا تعین کرنے کیلیے قائم فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اسپیشل برانچ کی وقوعہ کے روز کی فوٹیج کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔

جس میں فسادشروع ہونے سے عروج پرپہنچنے تک کمشنر ، ڈی سی او ، آرپی او اور سی پی او راولپنڈی کہیں دکھائی نہیں دیے اور نہ ہی مسجد اور مدرسے کی چھت پر پولیس کی موجودگی نظر آئی۔ ذرائع کے مطابق کشیدگی کے آغاز پر ایس ایس پی وی آئی پی سیکیورٹی دارعلی خٹک، ایس ایس پی آپریشن سکندر حیات ، ایس پی راول جماعت شاہ بخاری اور ایس پی سی آئی اے چوہدری حنیف متاثرہ مدرسے کے دروازے پر بے بس کھڑے دکھائی دیے جبکہ چیف سیکیورٹی افسر انسپکٹر خان شبیر اسی دروازے کے نیچے موجود تھے۔ فوٹیج میں ایس پی راول کانپتے جسم کیساتھ پانی پیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ڈی ایس پی سٹی راجہ طیفور اختر دونوں ہاتھ جوڑ کر فساد کرنیوالوں کی منتیں کرتے نظر آئے، ایس پی ٹریفک حسیب شاہ جائے وقوع پر اس وقت نمودار ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔

جب دونوں گروپوں کی جانب سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کا سلسلہ عروج پر تھا۔ فوٹیج میں 10 سے 15 پولیس ملازمین ایسے تعینات دکھائی دیے جو ٹرینی اے ایس آئی تھے اور ان کے پاس صرف پسٹل موجود تھے، اس دوران فساد سے نٹمنے کیلیے استعمال ہونیوالے آلات کہیں دکھائی نہیں دیے ، فوٹیج میں جہاں کچھ افراد پولیس افسران سے دست و گریبان اور ان کی پٹائی کرتے نظر آئے تو وہیں ایسے مناظر بھی سامنے آئے ہیں کہ پولیس اہلکار اسحلہ چھن جانے پر بھاگ کھڑے ہوئے ۔



اسی طرح فوٹیج میں نظرآنے والا جینز کی پینٹ پہنے ایک نوجوان اسحلہ چلانے میں اس قدر ماہر تھا کہ گن خالی ہونے پر چند منٹ کے اندر اس کو دوبارہ لوڈ کیا اور فائرنگ شروع کردی۔ ذرائع کے مطابق وڈیو فوٹیج میں پولیس کی گاڑی جس میں آنسو گیس کے شیل وغیرہ موجود تھے، لیکن پولیس کا عملہ بے بسی سے افسران کے حکم کا منتظر دکھائی دیا۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وڈیو فوٹیج کے جائزے ، پولیس افسران اور جائے وقوع پر تعینات عملے کے بیانات حاصل کرنے کے بعد ان سے سوال جواب کا سلسلہ شروع کردیا ۔

معلوم ہواہے کہ معطل آر پی او زعیم اقبال شیخ نے کمیٹی کو اپنے بیان میں تمام ذمے داری ماتحتوں پر ڈالتے ہوئے کہاکہ انھوں نے کسی بھی ایس پی یا دیگر افسران کو صورتحال خراب ہونے پر ایکشن سے نہیں روکا۔ ایک ٹی وی کے مطابق زعیم اقبال شیخ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ جمیل عرف جنگریز نامی دہشت گرد کی اطلاع پر اٹک کے فضائی دورے پر تھے، اطلاع یہ تھی کہ یہ دہشت گرد بذریعہ ایمبولینس 20 سے 25 افراد سمیت روانہ ہوا ہے، انھیں سانحہ کی اطلاع سہ پہر 3 بج کر 50 منٹ پر پنڈدادنخان میں لینڈنگ کے بعد ملی، اطلاع کسی جونیئر افسر نے وائرلیس پر دی، ہیلی کاپٹر کا انجن جلد ٹھنڈا نہ ہونے کے باعث وہ فوری طور پر راولپنڈی روانہ نہ ہوسکے، سابق آر پی او نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شام ساڑھے 5 بجے جب وہ دیگر افسران کے ہمراہ سانحے کی جگہ پر پہنچے تو 100 کے قریب ہوائی فائر ہوئے ، ان کے اسکواڈ نے انھیں ایک گلی میں چھپادیا ، اس دوران جونیئر پولیس افسران انھیں وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے، سابق آر پی او کے مطابق جب وہ دوبارہ سانحے کی جگہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ فائرنگ آرمی نے لوگوں کو منتشر کرنے کیلیے کی تھی ۔ انھوں نے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں ایس ایس پی آپریشنز اور دیگر افسران نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو ان سے جواب لیا جائے ، میں نے تو کسی پولیس افسر کو پابند نہیں کیا تھا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں