صدرزرداری کی کاوشوں سے سیاسی خاندان پیپلزپارٹی میں شامل

سکھر اور گھوٹکی کے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے ان مذاکرات کی شدید مخالفت کی۔


Aijaz Shaikh September 04, 2012
سکھر اور گھوٹکی کے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے ان مذاکرات کی شدید مخالفت کی۔ فوٹو : فائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر آصف علی زرداری کو سیاسی مذاکرات کرنے کا ہنر آتا ہے ۔

یہ ہر سیاستدان کے بس کی بات نہیں۔ شاید مذاکرات کی ہی طاقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی نہ رکھنے کے باوجود نہ صرف اپنی حکومت کے چار سال مکمل کرکے پانچویں سال میں قدم رکھا ہے لیکن کم از کم سندھ کی سطح پر آئندہ الیکشن کے لیے بھی جو ماحول بنایا ہے۔

اس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو نہ صرف صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوگی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی سندھ کا اچھا خاصہ اثر ہوگا۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے قریبی ضلع گھوٹکی بنیادی طور پر سرداری نظام کے تحت چلنے والا ضلع ہے جس میں مہر، دھاریجو اور چاچڑ قبائل کا بہت اثرو رسوخ ہے۔

اس وقت جام سیف اﷲ دھاریجو پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر ہیں جبکہ باقی نشستوں پر مہر سردار کامیاب ہوئے تھے جو کہ سیاسی طور پر پہلے جنرل پرویز مشرف کے حامی رہے ہیں۔ مہر قبیلہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پر حکومت میں شامل رہنے کا گر جانتے ہیں۔ اس مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سب سے پہلے وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی معرفت مہر سرداران کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات ہوئے۔

سکھر اور گھوٹکی کے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے ان مذاکرات کی شدید مخالفت کی۔ لیکن صدر آصف علی زرداری نے کارکنان کی ایک بھی نہیں سنی اور سردار برادران کو بلاول ہاؤس میں رات کے کھانے پر طلب کرلیا۔

گزشتہ اتوار کو پیپلز پارٹی سندھ کی سیاست میں ایک بڑا بریک تھرو یہ ہوا کہ سردار علی گوہر خان مہر، سردار محمد خان مہر، سردار علی نواز خان مہر اور سکھر کے سابق ناظم سید ناصر حسین شاہ نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے مہر برادران کی ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ بدھ 5 ستمبر کو وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ، محترمہ فریال تالپور اور سندھ کابینہ کے دیگر اراکین کے ہمراہ خانگڑھ (ضلع گھوٹکی ) کا دورہ کرینگے اور مہر برادران کی دعوت میں شامل ہونگے جس میں سردار علی گوہر خان مہر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرینگے، جبکہ باقی مہر برادران صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کرینگے۔

اسی طرح جیسے ہی یہ ضلع کلیئر ہوا اب ٹھٹھہ کی باری ہے جہاں پر کارکنان نے شیرازی برادران کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ ضلع گو کہ چالیس فیصد پیپلز پارٹی جیتتی رہی ہے، سسئی پلیجو کے اس ضلع میں اس وقت شیرازی گروپ کے پاس ایک ایم این اے جبکہ تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں ۔

اگر گھوٹکی ضلع کا فارمولا اپنایا گیا تو یہ ضلع بھی سو فیصد پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ باقی رہے سانگھڑ اور نوشہرہ فیروز جن میں مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلز پارٹی کا اثر ورسوخ ہے جو کہ پیپلز پارٹی کی پہلے ہی سے اتحادی جماعتیں ہیں۔

مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما پیر صبغت اﷲ شاہ راشدی پیر پگارا نے ویسے تو لاہور کے حالیہ دورے میں پیپلز پارٹی سے اتحاد توڑنے کے امکانات پر بات چیت کی ہے لیکن وہ بھی کراچی میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ سندھ میں صرف صدر آصف علی زرداری ہیں جو ان کے ساتھ اتحاد جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کے اس قسم کے خیالات کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم لیگ فنکشنل پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کر سکتی ہے۔ اگر سندھ کی تمام پارلیمانی جماعتیں اتحادی ہونگی تو سوال تو یہ پیدا ہو رہا ہے کہ پھر سندھ میں مقابلے میں کون سے قوتیں ہونگی؟

اسی طرح صدر آصف علی زرداری کے مذاکرات کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں گزشتہ تین سال سے اختلافات چل رہے تھے۔ پیپلز پارٹی 1979 کے بلدیاتی نظام کی حامی رہی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ سابق دور کے 2001 کے نظام کا تسلسل چاہتی ہے۔

دونوں جماعتوں پر مشتمل ایک کور کمیٹی قائم کی گئی ہے جو کہ سو سے زائد اجلاس کرنے کے بعد بھی کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہی۔ گزشتہ ہفتے بلدیاتی نظام پر مذاکرات کے دوران دونوں جماعتیں اختلافات کا شکار ہو گئی تھیں جس کے بعد مذاکرات ختم کر دیے گئے تھے لیکن پیر کو صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہائوس میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا جس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں ایم کیو ایم کے وفد کی قیادت رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کی جبکہ وفد میں بابر خان غوری، کنور نوید جمیل ، ڈاکٹر صغیر احمد اور رضا ہارون شامل تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبائی وزراء پیر مظہر الحق، سید مراد علی شاہ، محمد ایاز سومرو، آغا سراج درانی، رفیق انجینئر اور ایم این اے عبدالقادر پٹیل شریک ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ صوبہ سندھ میں نئے نظام تک بلدیاتی اداروں میں سیاسی ناظم لائے جائینگے جس پر تمام جماعتوں نے اتفاق کر لیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |