جنوبی پنجاب میں انتخابی اتحادکیارنگ لائےگا
پیپلز پارٹی بھی انتخابی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے...
سیاسی فضا بتدریج انتخابی فضا میں بدل رہی ہے،قبل از وقت انتخابات کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں نے بھی نعروں میں ترمیم کرتے ہوئے بروقت انتخابات کے نعرے لگانا شروع کردیئے ہیں۔
اپوزیشن میں اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے ہوئے سیاسی رہنما تو عرصہ دراز سے انتخابات کی تاریخیں دے رہے تھے لیکن اب حکومتی شخصیات نے بھی اسمبلی ٹوٹنے اور انتخابات کی تاریخیں دینا شروع کردی ہیں۔
ایسے میں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کے حصول کے لئے امیدواروں کی بھاگ دوڑ بھی تیز ہوگئی ہے۔ پاکستان کی روایتی اور اجارہ داری کی سیاست میں کئی حلقہ انتخابات ایسے ہیں جہاں مخصوص خاندانوں کے علاوہ کوئی سیاست کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
جنوبی پنجاب کے متعدد حلقوں کی سیاست آج بھی جاگیرداروں' سرداروں اور بااثر خاندانوں کے قبضے میں ہے،سیاستدان بھی آئندہ سیاست کا فیصلہ حالات اور عوامی جھکائو دیکھ کر کرتے ہیں اور سیاسی وفا داری پر ہمیشہ ذاتی سیاست کو فوقیت دی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں کا انتخاب بھی پلڑا تول کر کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اپنا سیاسی وجود ختم ہونے سے بچانے اور بقا کی جنگ لڑنے والی جماعت مسلم لیگ (ق) میں بھی پیپلز پارٹی سے متوقع انتخابی اتحاد کے باعث پھر جان پڑ گئی ہے ،وہ سیاسی رہنما جو مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر آئندہ کے راستے سیدھے کررہے تھے۔
اب پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں اپنے اپنے لئے موزوں حلقہ انتخاب ڈھونڈ رہے ہیں اور اسی فارمولے کے تحت کچھ پارٹی چھوڑ کر جانے والے بھی واپسی کا سوچ رہے ہیں لیکن یہ سب چند مخصوص حلقوں میں ہے ۔کئی حلقہ انتخاب میں سیاسی رہنما اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر خلا پیدا ہوا ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لئے بھی سیاسی رہنما میدان میں اتر آئے ہیں کچھ نے خود کو اپ گریڈ کرا لیا ہے اور کچھ کرانے کے چکر میں ہیں،
کچھ عرصہ قبل ہونے والی سیاست اب قطعاً انتخابی سیاست میں بدلتی جارہی ہے اور سیاسی جماعتوں نے بھی امیدواروں کے تعین کے لئے باقاعدہ مشقوں کا آغاز کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس غرض سے اپنے دو رہنمائوں چوہدری عبدالغفور اور رانا مشہود کو ملتان بھیجا جنہوں نے پارٹی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور مختلف حلقہ انتخابات میں متوقع امیدواروں پر غور کیا ان کی موجودگی میں عہدیداروں نے متوقع امیدواروں اور موجودہ ارکان اسمبلی پر بھی شدید تنقید کی ۔
اس اجلاس سے ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال بھی ملتان آئے اور انہوں نے ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے ساتھ ساتھ صحافیوں سے بات چیت کا بھی اہتمام کیا۔ جناب احسن اقبال کو لیگی عہدیداروں کی طرف سے مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ دورے کے دوران جنوبی پنجاب صوبے کی مخالفت نہ کریں اور تکنیکی انداز سے اس معاملے سے نمٹیں جلسے اور پریس کانفرنس میں انہوں نے یہی کیا اور نئے صوبے کی مخالفت کی بجائے صوبوں کے لئے بنائے گئے کمیشن کی مخالفت کی لیکن ان کی گفتگو کان کو دوسری طرف سے پکڑنے کے مترادف تھی۔
جو وہاں موجود صحافیوں کو مطمئن کرسکی نہ خطے کے عوام کو' پیپلز پارٹی نے مہارت کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبے کی ہڈی مسلم لیگ (ن) کے گلے میں پھنسا دی ہے جواب نہ اگل سکتی ہے نہ نگل سکتی ہے اور اس کی جس انداز بھی مخالفت کی جائے اس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ہر حالت میں انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب کو نئے صوبے کی شکل دیدے گی اور صوبوں پر کمیشن بنا کر پیپلز پارٹی نے صورتحال کا پھر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
اب پیپلز پارٹی اس ایشو پر جس وکٹ پر کھیل رہی ہے اس میں اسے صوبہ بننے کی صورت میں تو فائدہ ہے ہی لیکن اگر صوبے کا معاملہ تنازع کا شکار ہوگیا اور مسلم لیگ (ن) اس کی مخالفت میں زیادہ آگے آگئی تو اس کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی ہی اٹھائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صوبے کے معاملے پر عموماً یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ انتظامی صوبہ بنانے کے لئے راضی ہے لیکن اس نے پورے جنوبی پنجاب میں انتظامی استحصال کو دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا آج بھی 10کروڑ آبادی کو ایک سیکرٹریٹ کے ذریعے چلایا جارہا ہے اور انتظامی صورتحال بہتر کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ تک تشکیل دیکر صورتحال بہتر نہیں کرسکی ۔
پیپلز پارٹی بھی انتخابی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے اور اسی انتخابی حکمت عملی کے تحت صدر مملکت اور وزیراعظم جنوبی پنجاب کے دوروں کا پروگرام بنا رہے ہیں اور اس دوران متوقع امیدواروں کے ساتھ ساتھ نئے صوبے کے سیاسی کھیل کی بھی آئندہ حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
اپوزیشن میں اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے ہوئے سیاسی رہنما تو عرصہ دراز سے انتخابات کی تاریخیں دے رہے تھے لیکن اب حکومتی شخصیات نے بھی اسمبلی ٹوٹنے اور انتخابات کی تاریخیں دینا شروع کردی ہیں۔
ایسے میں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کے حصول کے لئے امیدواروں کی بھاگ دوڑ بھی تیز ہوگئی ہے۔ پاکستان کی روایتی اور اجارہ داری کی سیاست میں کئی حلقہ انتخابات ایسے ہیں جہاں مخصوص خاندانوں کے علاوہ کوئی سیاست کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
جنوبی پنجاب کے متعدد حلقوں کی سیاست آج بھی جاگیرداروں' سرداروں اور بااثر خاندانوں کے قبضے میں ہے،سیاستدان بھی آئندہ سیاست کا فیصلہ حالات اور عوامی جھکائو دیکھ کر کرتے ہیں اور سیاسی وفا داری پر ہمیشہ ذاتی سیاست کو فوقیت دی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں کا انتخاب بھی پلڑا تول کر کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اپنا سیاسی وجود ختم ہونے سے بچانے اور بقا کی جنگ لڑنے والی جماعت مسلم لیگ (ق) میں بھی پیپلز پارٹی سے متوقع انتخابی اتحاد کے باعث پھر جان پڑ گئی ہے ،وہ سیاسی رہنما جو مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر آئندہ کے راستے سیدھے کررہے تھے۔
اب پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں اپنے اپنے لئے موزوں حلقہ انتخاب ڈھونڈ رہے ہیں اور اسی فارمولے کے تحت کچھ پارٹی چھوڑ کر جانے والے بھی واپسی کا سوچ رہے ہیں لیکن یہ سب چند مخصوص حلقوں میں ہے ۔کئی حلقہ انتخاب میں سیاسی رہنما اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر خلا پیدا ہوا ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لئے بھی سیاسی رہنما میدان میں اتر آئے ہیں کچھ نے خود کو اپ گریڈ کرا لیا ہے اور کچھ کرانے کے چکر میں ہیں،
کچھ عرصہ قبل ہونے والی سیاست اب قطعاً انتخابی سیاست میں بدلتی جارہی ہے اور سیاسی جماعتوں نے بھی امیدواروں کے تعین کے لئے باقاعدہ مشقوں کا آغاز کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس غرض سے اپنے دو رہنمائوں چوہدری عبدالغفور اور رانا مشہود کو ملتان بھیجا جنہوں نے پارٹی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور مختلف حلقہ انتخابات میں متوقع امیدواروں پر غور کیا ان کی موجودگی میں عہدیداروں نے متوقع امیدواروں اور موجودہ ارکان اسمبلی پر بھی شدید تنقید کی ۔
اس اجلاس سے ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال بھی ملتان آئے اور انہوں نے ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے ساتھ ساتھ صحافیوں سے بات چیت کا بھی اہتمام کیا۔ جناب احسن اقبال کو لیگی عہدیداروں کی طرف سے مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ دورے کے دوران جنوبی پنجاب صوبے کی مخالفت نہ کریں اور تکنیکی انداز سے اس معاملے سے نمٹیں جلسے اور پریس کانفرنس میں انہوں نے یہی کیا اور نئے صوبے کی مخالفت کی بجائے صوبوں کے لئے بنائے گئے کمیشن کی مخالفت کی لیکن ان کی گفتگو کان کو دوسری طرف سے پکڑنے کے مترادف تھی۔
جو وہاں موجود صحافیوں کو مطمئن کرسکی نہ خطے کے عوام کو' پیپلز پارٹی نے مہارت کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبے کی ہڈی مسلم لیگ (ن) کے گلے میں پھنسا دی ہے جواب نہ اگل سکتی ہے نہ نگل سکتی ہے اور اس کی جس انداز بھی مخالفت کی جائے اس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ہر حالت میں انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب کو نئے صوبے کی شکل دیدے گی اور صوبوں پر کمیشن بنا کر پیپلز پارٹی نے صورتحال کا پھر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
اب پیپلز پارٹی اس ایشو پر جس وکٹ پر کھیل رہی ہے اس میں اسے صوبہ بننے کی صورت میں تو فائدہ ہے ہی لیکن اگر صوبے کا معاملہ تنازع کا شکار ہوگیا اور مسلم لیگ (ن) اس کی مخالفت میں زیادہ آگے آگئی تو اس کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی ہی اٹھائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صوبے کے معاملے پر عموماً یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ انتظامی صوبہ بنانے کے لئے راضی ہے لیکن اس نے پورے جنوبی پنجاب میں انتظامی استحصال کو دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا آج بھی 10کروڑ آبادی کو ایک سیکرٹریٹ کے ذریعے چلایا جارہا ہے اور انتظامی صورتحال بہتر کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ تک تشکیل دیکر صورتحال بہتر نہیں کرسکی ۔
پیپلز پارٹی بھی انتخابی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے اور اسی انتخابی حکمت عملی کے تحت صدر مملکت اور وزیراعظم جنوبی پنجاب کے دوروں کا پروگرام بنا رہے ہیں اور اس دوران متوقع امیدواروں کے ساتھ ساتھ نئے صوبے کے سیاسی کھیل کی بھی آئندہ حکمت عملی تیار کی جائے گی۔