گدا ملتان کا تیسرا تحفہ

ملتان میں گداگروں کی فوج ظفر موج مزارات کے علاوہ مختلف چوکوں اور بازاروں میں دکھائی دیتی ہے۔


November 22, 2013
اس شہر کو مدینۃ اولیاء تو کہا جاتا ہے اور اصل اولیاء تو فقیر ہوتے ہیں جن کا نہ حکومت سے تعلق، نہ دولت سے تعلق، نہ آسائش سے تعلق، نہ آرام سے تعلق۔ فوٹو: فائل

گدا کہاں نہیں ہوتے؟ لیکن ملتان کے گدا تو پوری دنیا میں مشہور ہوگئے۔

کسی زمانے میں یہاں کی گرمی مشہور تھی، گرد نے شہرت حاصل کی معلوم نہیں کہ گدا کہاں سے آگئے؟ اس شہر کو مدینۃ اولیاء تو کہا جاتا ہے اور اصل اولیاء تو فقیر ہوتے ہیں جن کا نہ حکومت سے تعلق، نہ دولت سے تعلق، نہ آسائش سے تعلق، نہ آرام سے تعلق۔ لیکن وہ اولیاء تو اب قبروں میں جابسے اور ان کا فیض جاری و ساری ہے۔ لوگ انہی کا نام لے کر گدا بن گئے ہیں۔

''دے جا سخیا راہ خدا، تیرا اللہ ہی بوٹا لاوے گا''
ایک زمانے میں فقیر بس یہی بات کہہ کر خیرات لیا کرتے تھے لیکن اب تو فقیروں کا انداز ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ اگر آپ کسی بزرگ کے مزار پر کھڑے ہیں تو گداگر آکر کہے گا بابا شمس کے صدقے خیرات دے دے، اللہ تیری ساری دعا قبول کرے گا۔ کوئی کہتا ہے حضرت شاہ رکن عالم کے درپہ آیا کھڑا ہے یہ فقیر دعا کرتا ہے یہ شاہ رکن عالم تیری ضرور سنے گا۔ اور اگر آپ کسی مزار پر نہیں ہیں بازار میں ہیں، گھر میں موجود ہیں تو بڑے ہی مہذب انداز میں یہ گداگر آئیں گے اور آکر استغاثہ کریں گے تو پھر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی معزز نہیں گداگر ہے۔

تیرتھ رام کی کتاب 'ملتان گائیڈ بک' کے دیباچے میں یہاں کے گداگروں کے بارے میں آبرو شرر نے 1916ء میں لکھا ''یہاں درویشوں اور فقیروں کا بکثرت ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اس شہر کے لوگ بڑے خدا شناس، عابد، عارف اور نیک خو ہیں۔ سر رچرڈ ٹیمپل ایک مشہور انگریزی شاعر اپنی ایک مشہور نظم میں ملتان کی بابت یوں لکھتا ہے۔



In Multan the Saints are famous

ملتان میں گداگروں کی فوج ظفر موج مزارات کے علاوہ مختلف چوکوں اور بازاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے بچپن کے زمانے میں جب میں والد صاحب کی دکان کالے منڈی بازار میں جایا کرتا تھا اس بازار میں چھ سات معذور اکٹھے ہی نعت پڑھتے ہوئے گزرتے تھے اور لوگ ان کو ہاتھوں ہاتھوں خیرات دیتے تھے۔ کہیں پر کوئی نابینا ہے تو کوئی ہٹا کٹا، جوان عورت، برقعے میں اپنے آپ کو چھپا کر مانگتی ہے، کوئی بہت ہی ضعیف اپنے بچوں کی ستائی ہوئی بازاروں میں ہاتھ پھیلائے نظر آتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ہر شخص گداگر ہے۔ بچہ اپنے والد کے آگے، والد اپنے گاہکوں کے لیے، کلرک اپنے افسر کے سامنے، بیٹی اپنی ماں کے آگے جب ہاتھ پھیلاتی ہے تو یوں لگتا ہے پوری دنیا ہی ہاتھ پھیلانے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔

جس زمانے میں ملتان میں ہندو بڑی تعداد میں رہتے تھے تب امیر کبیر ہندو سورج اور چاند گرہن کے موقع پر خوب خیرات کرتے تھے بلکہ ان کے چھوٹے مُکھی اور سرپنچ گلیوں اور محلوں میں گھوم گھوم کر یہ آوازیں لگاتے تھے:
''دان پور کا وقت ہے، دان پور کاوقت ہے''

یہ سنتے ہی خوشحال ہندو گھروں سے باہر آکر خیرات لینے والوں کوخیرات دیتے خاص طور پر ان مواقعوں پر ہندو بھکارنیں شہر میں دیکھنے کو بہت ملتیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی مصیبت یا آفت آجائے تو خیرات اور صدقہ ہی تو ہوتا ہے جو اس پریشانی کو ٹال دیتا ہے۔ بہرحال خیرات مانگنا ایک مکمل فن ہے اور ایسے فنکار ملتان میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کو مل جائیں گے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ملتان میں گداگر اتنے زیادہ ہیں کہ آپ جب چاہیں، جس وقت چاہیں اور جہاں چاہیں خیرات کرسکتے ہیں کہ یہ گرد، گرما، گداو گورستان کی نگری ہے۔ یہاں پر یہ تمام چیزیں ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔

(''ملتان ۔ عکس و تحریر''از شاکر حسین شاکر)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں