ڈرون ناکام ریاست اور اپنا گھر ٹھیک کرنے والا فقرہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ ایسے رپورٹروں کو ’’میں نے پہلے یہ کہہ دیا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ ایسے رپورٹروں کو ''میں نے پہلے یہ کہہ دیا تھا'' والے خود پرستانہ زعم سے نجات حاصل کر لینا چاہیے۔ ویسے بھی کچھ واقعات ہوتے ہی اتنے سنگین ہیں کہ ان کے حوالے سے آپ کے ذہن میں پکنے والے خدشات بالآخر درست ثابت ہو جائیں تو بھی دل کو ملال ہوتا ہے۔ میں بھی ان دنوں ایسے ہی ملال کو بھگت رہا ہوں۔
سرتاج عزیز صاحب میرے بزرگ ہیں، میں ان کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ ان سے کوئی ذاتی تعلق نہ بھی ہوتا تو میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ وہ بہت زیادہ سوچ کر بھی بہت کم بولنے والے شخص ہیں۔ حکومتی امور کا انھیں بھرپور تجربہ ہے اور آج سے کئی برس پہلے وہ عالمی ادارۂ خوراک سے وابستگی کے دنوں میں بین الاقوامی امور کی باریکیوں کو بھی خوب سمجھ چکے ہیں۔ مجھے ان سے یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ وہ سینیٹ کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں جا کر یہ دعویٰ کر دیں گے کہ وزیر اعظم کے حالیہ دورۂ امریکا کے بعد پاکستان کو بالآخر بتا دیا گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ہماری سر زمین پر کوئی ڈرون حملہ نہیں ہو گا۔ ان کا یہ بیان جب یک سطری Ticker کی صورت ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر چلا تو میں پریشان ہو گیا۔ فوراََ ان کے بیان کی تفصیلی خبر حاصل کی اور اسے بہت غور سے پڑھ کر یہ سمجھ پایا کہ ان کے بیان کا ہرگز وہ مقصد نہ تھا جو یک سطری Ticker کی صورت بریکنگ نیوز بنا کر بتایا جا رہا ہے۔ انھوں نے مگر خود کسی وضاحت کا تردد ہی نہ کیا اور نہ ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے وہ IFs اور BUTs اجاگر کرنے کی زحمت گوارا کی جو سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے ان کے بیان میں بڑی وضاحت سے موجود تھے۔
شاید ہم ان کے اس بیان کو بھول جاتے۔ مگر اس بیان کے عین دوسرے روز ایک ڈرون حملہ ہو گیا۔ یہ حملہ زیادہ سنگین اس لیے بھی محسوس ہوا کہ اس کا نشانہ شمالی وزیرستان میں بیٹھا القاعدہ کا کوئی نام نہاد کمانڈر نہیں بلکہ پاکستان کے ''باقاعدہ'' کہلائے جانے والے ایک ضلع ہنگو کا مدرسہ تھا۔ گویا پیغام اس حملے کا یہ تھا کہ امریکا نہ صرف ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا بلکہ جب ضرورت محسوس ہوئی تو ہمارے کسی ''باقاعدہ'' شہر کے کسی مقام کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔
ٹھنڈے دل سے سوچئے تو یہ کوئی نیا پیغام نہیں تھا۔ بار ہا اس کالم میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے قومی خود مختاری کا سیاپا کرنے والے آخر کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ ایبٹ آباد پاکستان کا ایک معروف شہر ہے۔ وہاں ہماری فوج کی ایک مشہور زمانہ اکیڈمی سے کچھ ہی فاصلے پر ایک قلعہ نما گھر تھا۔ سی آئی اے نے دریافت کیا کہ اسامہ بن لادن اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ وہاں چھپا بیٹھا ہے۔ بڑی منصوبہ بندی کے بعد جس کے آخری مراحل کی نگرانی صدر اوباما نے اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی، اس مکان پر ہماری فضائی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے امریکی طیارے داخل ہوئے۔ انھوں نے اس مکان پر امریکی کمانڈوز اتارے جو اسامہ کو مار کر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ صدر اوباما نے ایک بار نہیں متعدد موقعوں پر ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ڈرون کو ایک زبردست ہتھیار سمجھتے ہیں اور اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر جب اور جہاں اس کی ضرورت محسوس ہوئی اسے استعمال کرتے رہیں گے۔
امریکی صدر کے ''آن دی ریکارڈ'' بیانات تو رہے ایک طرف، نجی محفلوں میں جب بھی میری کسی بھی سطح کے امریکی سفارتکار سے ''آف دی ریکارڈ'' بات ہوئی اس نے ڈرون کے معاملے میں کوئی عذر گھڑنے کا تردد تک نہیں کیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں امریکی حکام ڈرون کی مد میں یہی رویہ اختیار کرتے ہوں گے۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے سرتاج عزیز صاحب کو ڈرون کے تناظر میں کوئی دعویٰ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے تھا۔ سرتاج صاحب اور ان کے وزیر اعظم کی مشکل مگر یہاں ختم نہیں ہوتی، عمران خان تو محرم کے آغاز سے پہلے ہی ڈرون حملے رکوانے کی خاطر نیٹو افواج کی رسد کا کم از کم خیبرپختون خوا کے راستوں سے افغانستان جانے کو روکنے کا اعلان کر بیٹھے تھے۔ ان کے تند و تیز بیانات کے باوجود مجھ ایسے لوگوں کو تاثر یہ مل رہا تھا کہ جیسے ''آئینی مجبوریوں'' کے نام پر خیبرپختون خوا کی حکومت اس رسد کو بند نہیں کرنا چاہتی۔
اس کا خیال تھا کہ بجائے سرکاری فیصلہ کرنے کے تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نیٹو کی رسد رکوانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرے۔ میرے پاس کوئی مستند اطلاع تو موجود نہیں مگر دل میں یہ شک مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے کہ امریکا نے جان بوجھ کر ہنگو کے ایک مدرسے کو نشانہ بنایا اور مقصد اس کا یہ تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کو ''سرکاری طور'' پر عمران خان کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔ صوبائی حکومت نے اپنے طور پر افغانستان جانے والی رسد بند کر دی تو واشنگٹن اسلام آباد سے پوچھنا شروع ہو جائے گا کہ پاکستان میں ''بین الاقوامی معاملات'' کے بارے میں فیصلہ سازی کا اختیار کس کے پاس ہے۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کے پاس؟ اب تک تو دنیا میں تاثر کچھ اس طرح کا پایا جاتا ہے کہ جیسے امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں منتخب سیاسی حکومتوں کے پاس کوئی خاص اختیار نہیں ہوتا۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے اپنے طور پر نیٹو کی سپلائی بند کر دی تو پاکستان کو ایک Failed State قرار دینے والوں کو اپنی کہانی ثابت کرنے کے لیے مزید دلائل مل جائیں گے۔ ہمارے ہاں غیرت اور خود مختاری کی دہائی دینے والے ان باریک نکات پر لیکن تھوڑا سا غور بھی ہرگز نہ کریں گے۔ پاکستان کے بارے میں افراتفری اور انتشار کا تاثر مزید پھیل جائے گا۔ اس انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا جیسی سپر طاقت اپنی رعونت کو اور کئی حوالوں سے ڈھٹائی کے ساتھ ظاہر کرنا شروع کر دے گی اور ہم ماتم کنائی کے سوا کچھ نہ کر سکیں گے۔ وزیر اعظم نے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ''اپنا گھر ٹھیک'' کرنے والا فقرہ کہا تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ اس فقرے کے پیچھے موجود محرکات کو دل کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیں۔ پوری ایمان داری سے ہم لوگوں کو بتا دیں کہ امریکا کی ہم سے اصل شکایات کیا ہیں۔ وہ یہ سب بتانے کے بعد اگر ان شکایات میں سے چند ایک کا پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ازالہ کرنا چاہیں تو ہمارے عوام کی اکثریت ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ گم سم رہ کر مکاری کے کھیل اب کھیلے ہرگز نہیں جا سکتے۔