بلوچ رائٹس بھی ہیومن رائٹس ہیں

مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میری ماں مجھ سے کہتی رہی کہ ماما قادر جس جلسے کو منظم کریں ہمیں اس میں شرکت کرنی چاہیے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 23, 2013
[email protected]

میں بہت چھوٹی تھی جب میرے والد لاپتہ ہوئے۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میری ماں مجھ سے کہتی رہی کہ ماما قادر جس جلسے کو منظم کریں ہمیں اس میں شرکت کرنی چاہیے۔ ساتویں جماعت کی طالبہ سمعیہ بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے کوئٹہ سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں شریک ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ان کوششوں سے اس کے والد رہا ہوسکتے ہیں۔

کوئٹہ سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کا اہتمام لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے کیا ہے۔ لانگ مارچ میں شریک افراد کوئٹہ سے چلے ہیں، وہ بلوچستان کے ہر شہر اور گائوں میں جاکر لاپتہ افراد کے بارے میں آگاہی انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ لانگ مارچ 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے شروع ہوا اور جمعہ کوشام 5 بجے کراچی پریس کلب پر اس کا اختتام ہوا۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا ایک علیحدہ پر امن لانگ مارچ ہے جس کے شرکاء پیدل چل رہے ہیں، ان میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت بھی شامل ہے۔ اس لانگ مارچ میں نویں جماعت کاطالب علم سمیع بلوچ بھی شریک ہے۔ سمیع کا تعلق آواران کے علاقے سے ہے، اس کے والد ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر دین محمد کوان کے اسپتال سے اغوا کیاگیا، ان کے اغوا کے بعد یہ خاندان شدید بدحالی کا شکار ہے، محلے والے اور قریبی رشتے دار ان کی مدد کرتے ہیں، یوں گزارا ہورہا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے عہدیدار ڈاکٹر مجید بلوچ کو مستونگ سے 2009 میں اغوا کیا گیا، مجید کی بہن فرزانہ کا کہنا ہے کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے مگر ہمارے پیارے اغوا کرلیے گئے، ہم خواتین کا سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہا۔ اس لانگ مارچ کے روح رواں قدیر بلوچ ہیں، انھوں نے لاپتہ افراد کی آواز Voice of Missing Baloch Persons بنائی ہوئی ہے۔ قدیر کے بیٹے جلیل ریکی کو بھی 2010 میں اغوا کیا گیا تھا۔ جلیل کی مسخ شدہ لاش 2011 میں برآمد ہوئی تھی۔ قدیر کا کہنا ہے کہ جلیل ریکی بلوچ ریپبلکن پارٹی کا سیکریٹری تھا۔ جلیل کو خفیہ عسکری ایجنسی کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا، پھر اس کی مسخ شدہ لاش دور دراز علاقے سے ملی۔ قادر دل کے مرض میں مبتلا ہے، اپنے پوتے کے لاش کی شناخت کے لیے ساتھ گیا تھا، اس کا کہنا ہے کہ جلیل کے بیٹے کو حقائق کا علم ہونا چاہیے۔

بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اغوا کا سلسلہ اس صدی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوا، جب خفیہ ایجنسیوں نے بلوچ قبائل کو لڑانا شروع کیا، نامعلوم افراد نے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مری کو قتل کیا، کوئٹہ میں آباد مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا کرنا شروع کیا، علی اصغر بنگلزئی اس ہی زمانے میں لاپتہ ہوئے، بنگلزئی کا پتہ نہیں چل سکا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سیاسی کارکن اغوا ہونے لگے، اب مری اور بگٹی قبائل کے علاقوں کے علاوہ آواران اور مستونگ اور مکران ڈویژن سے بھی سیاسی کارکنوں کو اغوا کیا جانے لگا۔ جب 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور آصف زرداری صدر منتخب ہوئے تو کچھ عرصے کے لیے کارکنوں کے اغوا کا سلسلہ رکا، بعض کارکن جن میں بگٹی قبیلے کے علاقے سے لاپتہ ہونے والے افراد شامل تھے، رہا ہوکر اپنے گھروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ کچھ عرصے بعد آپریشن میں شدت آئی، اس کے ساتھ بلوچستان میں آباد غیر مقامی افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی، اس ٹارگٹ کلنگ کی لسٹ میں اساتذہ، ڈاکٹر، صحافی، فوجی افسران وغیرہ قتل ہوئے، لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔ لاپتہ افراد سے رابطہ رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اب تک 200 افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں، جن میں 25 لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں سے ملی ہیں۔ لاشیں ملنے سے نوجوانوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ گزشتہ 65 سال سے التوا کا شکار ہے، جب پاکستان قائم ہوا تو بلوچستان کی ریاست قلات نے بھارت اور پاکستان میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا، نوجوان سیاسی کارکن میر غوث بخش بزنجو نے اپنی تقریر میں ریاست قلات کے آزادانہ کردار پر زور دیا تھا مگر پھر ریاستی اسمبلی کی اکثریت کی رائے کو رد کرتے ہوئے ریاست قلات کا پاکستان سے الحاق کرایا گیا۔ خان قلات کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم بلوچ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلا فوجی آپریشن ہوا۔ ایوب خان کے دور میں بلوچستان میں ایک ملٹری آپریشن ہوا، اس آپریشن میں کنگ آف جھالاوان نواب نوروز خان اپنے عزیزوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے اور فوجی حکام نے قرآن مجید کا واسطہ دے کر نوروز خان کو واپس بلالیا اور پہاڑوں سے اتارا۔ بعد ازاں نوروز خان کے بیٹے اور بھتیجوں کو پھانسی دے دی گئی اور بوڑھا نواب کچھ عرصے بعد حیدرآباد جیل میں جاں بحق ہوا تھا۔

بھٹو دور میں بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا، اس آپریشن میں ہزاروں بلوچ ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ 5 ہزار فوجی بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ سردار عطا اﷲ مینگل کا بیٹا اسد اﷲ مینگل اس آپریشن میں لاپتہ ہوا۔ اس طرح جنرل مشرف کے دور کے آغاز سے ایک فوجی آپریشن جاری ہے، اس آپریشن میں نواب اکبر بگٹی سمیت سیکڑوں افراد قتل ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹبلری بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن کررہی ہے، اس آپریشن میں سیاسی کارکنوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقے کوہلو، خضدار، مستونگ، مشکے، آواران اور کئی علاقوں سے کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی وارداتیں زیادہ ہوئیں۔ 2007 میں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2009 میں موجودہ عہدے پر بحالی کے بعد لاپتہ افراد کے مقدمات کی مستقل سماعت کی، چیف جسٹس کو دوران سماعت اس حقیقت کو ریکارڈ پر لانا پڑا کہ فرنٹیئر کانسٹبلری کے اہلکار لاپتہ افراد کے مقدمات میں ملوث ہیں۔

معزز عدالت نے ایف سی کے کمانڈر اور متعلقہ افسروں کو بار بار طلب کیا پھر اس معاملے کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے چاروں صوبوں سے لاپتہ افراد کے مقد مات کی سماعت کی مگر کوئی ٹھوس رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ جب سیاسی کارکنوں نے اغوا کا معاملہ قومی ذرایع ابلاغ کی زینت بنایا تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے حقائق جمع کرنے کے لیے ایک مشن پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا مگر حکومت نے اس مشن کو خوش آمدید نہیں کہا، سرکاری اہلکار مشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں نے مشن کے سامنے حقائق پیش کیے، یوں اقوام متحدہ کے مشن کی رپورٹ جنرل اسمبلی کی سالانہ رپورٹ میں شامل ہوئی۔

2013 کے انتخابات ہوئے تو بلوچستان ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ ڈاکٹر مالک نے اپنی پہلی تقریر میں واضح اعلان کیا کہ اگر وہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہیں کراسکے تو مستعفی ہوجائیں گے مگر صورتحال کسی صورت بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ڈاکٹر مالک کی کوششوں کے باوجود اسٹبلشمنٹ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کو تیار نہیں، یوں لوگوں میں بددلی اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان کے ضلع آواران میں گزشتہ ماہ زلزلہ آیا اور مشکے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ مشکے علیحدگی پسند رہنما ڈاکٹر اﷲ نذر کا آبائی علاقہ ہے، اس علاقے کے لوگوں نے علیحدگی پسندوں کے خوف سے فوجی دستوں سے امداد لینے سے انکار کیا۔ پی ایس آزاد اور بلوچ نیشنل موومنٹ نے امدادی کیمپ قائم کیے گئے مگر عسکری اسٹبلشمنٹ نے ان تنظیموں کے خلاف آپریشن کیا۔ ذرایع ابلاغ نے اس آپریشن کے بارے میں رپورٹیں شایع کی، وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اور بین الاقوامی تنظیموں کو آواران کے علاقے میں امدادی کاروائیوں کی اجازت نہیں دی، ان تنظیموں کی صلاحیتوں کا زلزلوں کے بعد آبادکاری میں فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔

اس لانگ مارچ میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے ، صورتحال سے آگاہ ہونے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں لگائے گئے کیمپوں میں بہت سے نوجوان جمع ہوتے تھے، ان میں سے اکثر لاپتہ ہوئے، کچھ کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، یوں اب مرد لانگ مارچ سے دور رہے۔ اس لانگ مارچ میں شریک لوگوں کے ہاتھ میں Baloch rights are also Human rights کے نعرے کا پلے کارڈ موجود ہے ، ہمیں اس نعرے کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے۔

(نوٹ) سندھی اخبار کے صحافی غلام مرتضیٰ کا 10 سالہ بچہ عامر علی بلڈ کینسر میں مبتلا ہے اور کراچی میں این ای سی ایچ میں داخل ہے۔ عامر علی کا علاج کسی نجی اسپتال میں ممکن ہے جس پر 25 لاکھ روپے اخراجات آئیں گے۔ غلام مرتضیٰ کے 5 بچے ہیں، وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ حکومت سندھ کو ایک غریب صحافی کے بچے کی جان بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں