ہنگو حملہ اور اثرات

پاکستان میں ہونے والے سیکڑوں ڈرون حملے فضائی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں۔


Syed Talat Hussain November 23, 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

لاہور: دائیں بائیں اوپر نیچے آگے پیچھے کوئی زاویہ ایسا نہیں ہے جہاں سے پاکستان کو رگڑا نہ لگایا جا رہا ہو ۔ ہنگو کے ڈرون حملے نے وہ حدیں بھی پار کر دیں جو ہماری ریاست نے اپنے کمزور ہاتھوں اور لرزتی ٹانگوں میں موجود بچی کچھی طاقت استعمال کرتے ہوئے کھینچی تھیں۔ پاکستان میں ہونے والے سیکڑوں ڈرون حملے فضائی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ مگر چونکہ ہم نے قوم کی سلامتی اور خود مختاری کے دو تین معیار بنائے ہوئے ہیں لہذا فاٹا کے علاقے میں یہ کارروائیاں ہمیں کبھی اس طرح نہیں چُبھیں جس طرح مشرقی سر حد پر ہندوستانی افواج کی طرف سے گولہ باری ہمیں کچوے لگاتی ہے۔ ہماری طویل خاموشی اور سیکڑوں حملوں کو برداشت کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ماضی میں ایسے حملوں کے بارے میں ہم خود بھی پینترے بدلتے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ باجوڑ میں ڈمہ ڈولا کے مقام پر ہو نے والا حملہ اس وقت کے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل شوکت سلطان نے تمام صحافیوں کی موجودگی میں پاکستان کی اپنی کارروائی کے طور پر پیش کیا۔

جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ تو انھوں نے میری ناقص معلومات کو اس غلط فہمی کا باعث قرار دیتے ہوئے اس سوال اور میری صحافت کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا، بعد میں پتہ چلا کہ اُس وقت پاکستان ڈرون ٹیکنا لو جی حاصل کر نے کے عمل سے کم از کم دس سا ل دور تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم امریکا کی ہر کارروائی کو فخریہ انداز سے اپنے قومی مفاد کے ساتھ جوڑ دیتے تھے۔ جارج ڈبلیو بش کی نوازشات پر ہم اتنے مچل گئے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے تھے۔ پھر حالات مزید تبدیل ہو گئے۔ ایک اور میڈیا بریفنگ میں جس میں تقریبا 70 صحافیوں نے شرکت کی، اس وقت کے ڈی جی ملٹری آپریشن جنرل شجاع پاشا جو آج کل ملک سے باہر رہ کر ہماری سرحدوں کا تحفظ کر رہے ہیں نے فخریہ انداز سے باقاعدہ تصاویر دکھا کر یہ دعویٰ کیا کہ ڈرون حملہ کرتا تو امریکا ہے مگر پاکستان میں کس جگہ اور کس ٹھکانے کو نشانہ بنانا ہے اس کی اجازت اس وقت کے صدر پرویز مشرف خود دیتے ہیں۔

چند ماہ کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے اور امریکیوں نے اپنے تئیں زمین پر اہداف کا تعین کرنا شروع کر دیا۔ اور ہمیں حیرت زدہ کرتے ہوئے تمام حملے اُن کے اوقات نشانہ بننے والے گروپوں کے بارے میں خود ہی فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے۔ ہم اس پر جلے کٹے تو بہت لیکن چونکہ واشنگٹن اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاسی معاہدوں کا ضامن بنا ہوا تھا۔ لہذا ہم نے حلق کی کڑواہٹ کو تالو تک محدود کر دیا اور زبان سے میٹھے میٹھے الفاظ میں احتجاج کا آغاز کیا۔ وِکی لیکس اور امریکا میں چھپنے والی چند ایک کتابوں نے پچھلی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم جن کے نام آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی تھے کے یہ بیانات شایع کیے کہ پاکستان میں امریکی حملے معصوم شہریوں کی اموات کے باوجود اُن کو قبول ہیں۔ اِن چھپے ہوئے بیانات میں یہ بھی تھا کہ حکومت پارلیمان میں چھوٹا موٹا احتجاج جاری رکھے گی مگر امریکا کو ہماری طرف سے یہ ضمانت ہو گی کہ ڈرون حملوں کے خاتمے کی کوئی با اثر پالیسی نہیں بنائی جائے گی۔ چونکہ ان بیانات کی کبھی کسی نے تردید نہیں کی، لہذا ہمیں یہ مانا پڑے گا کہ اگر یہ ناقابل تردید نہیں ہے تو نا قابل یقین بھی نہیں ہے۔

اس تمام عرصے میں کتنے لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ہماری خود مختاری کا کیا مذاق بنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا نے ان حملوں پر ہمارے مبہم رویوں سے کیا سیکھا۔ اس پر کبھی قومی بحث نہ ہو سکی۔ پاکستان تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کو یہ کریڈٹ یقینا جاتا ہے کہ انھوں نے اس ملک میں ڈرون حملوں کے معاملے کو سات پردوں سے نکال کر ایک قومی بحث کا حصہ بنا دیا۔ اگرچہ عمران خان کی طرف سے اندرونی خطرات اور دہشت گردی کے معاملے پر لا پروا قسم کا رویہ سنجیدہ تجزیہ نگاروں کے لیے باعث پریشانی ہے۔ لیکن ڈرون کے مسئلے پر پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ واضح موقف کسی جماعت کا نہیں رہا۔ بد قسمتی سے یہ واضح موقف بھی قومی اتفاق رائے کی بنیاد نہیں بن پا رہا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ڈرون حملوں پر پیپلز پارٹی جیسی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ سیدھے ہاتھ سے واشنگٹن کے ساتھ مصافحہ اور الٹے ہاتھ سے احتجاج اس پالیسی کا خلاصہ ہے۔ ہنگو کے حملے کے بعد یہ پالیسی یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ناگزیر ہو گئی ہے۔ اس حملے کے ذریعے امریکا نے پاکستان کو یہ واضح پیغام دیدیا ہے کہ اب اس ملک کے تمام اضلاع جہاں پر اس کے خیال کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے لوگ موجود ہیں کسی نہ کسی حملے کی زد میں آ سکتے ہیں ۔

یعنی اگر اسلام آباد یا لاہور کے بیچ کسی مدرسے یا عام گھر میں کوئی مطلوب شخص موجود ہے تو ڈرون کی جنگ پاکستان کے قلب تک بھی لے جائی جائے گی۔ فاٹا میں ہونے والے مسلسل حملوں کے تناظر میں ہمیں یہ پیغام ہنگو حملے سے پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ممالک کی خود مختاری، بری، فضائی، آبی یا مختلف علاقوں میں بٹی ہوئی لکیروں کے تابع نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک ایک انچ پر ہونے والی در اندازی کو خود پر حملہ گردانتے ہیں۔ یہ ہماری جیسی ریاستیں ہی ہیں جو اپنے حصے میں آئے ہوئے خطے کی بعض جگہوں کی خود مختاری کو کم اور دوسری جگہوں کی خود مختاری کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ہنگو حملے کے بعد یہ تمیز بھی ختم ہو گئی ہے۔ امریکا کی طرف سے دوسرا اشارہ پہلے پیغام کے مقابلے میں زیادہ غیر مبہم ہے۔ اس اشارے کا تعلق طالبان کے اس گروپ سے ہے جس کو پاکستان ایک طویل عرصے سے افغانستان میں پیچیدہ حالات کے پیش نظر دوست رکھے ہوئے تھا۔ امریکا اب حقانی نیٹ ورک کے ایک ایک فرد کی جان کے در پے ہے۔ امریکا میں وزیر اعظم نواز شریف کی بات چیت کے بعد ہونے والے ان واقعات نے نواز شریف کی حکومت کو بری طرح پھنسا دیا ہے۔

کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ ہنگو حملہ اس روز ہوا جس روز قومی سلامتی کے برگزیدہ مشیر اور کسی زمانے میں پاکستان کے لیے صدارتی امیدوار سرتاج عزیز صاحب کا یہ بیان تمام اخبارا ت میں چھپا ہوا تھا کہ امریکا نے طالبان سے بات چیت کے دوران ڈرون حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ شہہ سرخی ہماری سادگی کی ایک تازہ مثال ہے۔ ہم ابھی بھی یہ سمجھ نہیں پائے کہ امریکا نے ڈرون ہتھیار کو اپنی خارجہ پالیسی سے متعلق سفارت کاری سے بالکل علیحدہ رکھا ہوا ہے۔ سفارت کار جو بھی کہہ لے ڈرون حملے امریکی صدر کے آفس سے اس کے فیصلوں کے تابع ہوتے رہیں گے۔ پاکستان کے لیے یہ معاملہ صرف امریکا کی طرف سے ہمارے علاقوں پر فضائی حملے کا نہیں ہے۔ ہمارے برابر میں ہندوستان جو خود کو امریکا ثانی سمجھتا ہے، اس قسم کے حملے کرنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھا ہے، آپ اس امکان کو بالکل رد نہ کریں کہ آنے والے دنوں میں دہلی کی طرف سے امریکا کے ساتھ مل کر چند گروپوں کو پاکستان میں نشانہ بنانے کی بات چیت سنائی دینے لگے گی۔ موجودہ حکومت، عسکری قیادت اور اپوزیشن سب کو مل کے ایک حتمی اور واضح قومی پالیسی تشکیل دینا ہو گی، دفتر خارجہ کے احتجاجی نوٹ سے کام نہیں چلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں