پرویز مشرف کا پنڈورا باکس
جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آہنی اعصاب کے مالک ہیں۔
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پنڈورا بکس کھل رہا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آہنی اعصاب کے مالک ہیں لیکن خصوصی وفاقی عدالت کی تشکیل مکمل ہونے کے بعد وہ یقینی طور پر پریشان ہوئے ہوں گے' اب وہ غداری کے مقدمے کی لپیٹ سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو بھی کٹہر ے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں کہ اپنا بوجھ ہلکا کر لیں۔ ادھر پاکستان اور اس کے اداروں کے دشمن آئین کی سربلندی کا خوبصورت نقاب اوڑھ کر جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی آڑ میں پاک فوج کو ہدف بنانے کے لیے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ وہی سب کچھ ہو رہا ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جنرل (ر) مشرف پر غداری کا مقدمہ بڑا سادا اور عا م فہم ہے۔
جنرل(ر) مشرف سے اس وقت کی شوکت عزیز حکومت ان کی صدر پاکستان کی حیثیت سے خط و کتابت کرتی تھی جس میں روزمرہ کی صورتحال سے لے کر تمام درپیش مسائل کے بارے میں مراسلت ہوتی تھی جس کا مخاطب صدر مملکت ہوتے تھے لیکن اس وقت چونکہ صدارت اور مسلح افواج کی قیادت جناب پرویز مشرف کی 'ذات بابرکات' میں اکٹھی ہو چکی تھی، اس لیے 3 نومبر 2007ء کے المناک اقدام کے لیے انھوں نے ماورائے آئین طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مسلح افواج کے سربراہ کے عہدے کو استعمال کر کے ایمرجنسی پلس نامی مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے عبوری آئین کا حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے نیا حلف اٹھانا لازمی قر ار دے کر بیسیوں ججوں کو بیک جنبش قلم برطرف کر کے حراست میں لے لیا گیا۔ ان اقدامات کے لیے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
جناب پرویز مشرف باوقار انداز میں اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کے بجائے 'پنڈورا' باکس کھولنے کاآپشن اختیار کر سکتے ہیں۔
شب گزشتہ ایک لاہوری نے آئین کے تقدس اور اس کی تکریم کی بحالی کے نعر ے لگا تے ہوئے1956 ء کے مارشل لاء سے غداری کا مقدمہ شروع کرنے کا مطالبہ بار بار دھرایا۔ واضح مقصد صرف اور صرف صورتحال کو الجھا کر جنرل مشرف کو غداری کے مقد مے سے بچانا تھا جس کے بعد 1970ء اور 1977ء کے مارشل لائوں سے غداری کے مقدمات چلانے پر زور دیا جا رہا ہے تا کہ دبائو کا شکار پرویز مشر ف کی کسی طور گلو خلاصی کرائی جا سکے ۔
سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے مقدمے کی آڑ میں میڈیا سرکس میں اتر نے والے بعض کھلاڑی اپنے اپنے مقاصد کے لیے نت نئے تماشے دکھا رہے ہیں جن میں ہر نئے دن کے ساتھ مزید تیزی آتی جائے گی۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی کی چلمن میں واحد منظم ادارے کو نشانہ بنانے کا کام شروع ہے۔یہ مادر پدر آزاد عناصر واضح طور پر پارلیمان کی سربلندی کے گیت گاتے ہوئے جمہوری نظام کی بسا ط لپیٹنے پر تلے ہو ئے ہیں۔ یہ سب لو گ اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت میدان میں اتر ے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج کِن آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔ اس حقیقت کو پانے کے لیے زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔
ہمار ے پیارے دوست امریکی اس معاملے میں ہمیشہ صف اول میں رہے ہیں،اس کے بعد سرحد پار ہمسائے میں بیٹھے شہ دماغ بھی ہیں جو کشمیر سے کوئٹہ اور جلال آباد سے قندھار تک جگہ جگہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلا ف مورچہ بندی کیے ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہماری سرکار پیار کی پینگیں بڑھائے جا رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا سیاسی فیصلہ جمہوری حکومت نے طویل سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔
3 نومبر کے غیرآئینی اقدام کے بارے میں نئے حقائق چھن چھن کر منظر عام پر آرہے ہیں کہ سویلین حکومت کے بروئے کار ہوتے ہوئے جنرل مشرف کے ایک سیکریٹری کے زبانی احکامات پر کیبنٹ ڈویثرن سے ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے نوٹیفیکیشن جاری کرائے گئے جس کا کوئی تحریری ریکارڈ دستیا ب نہیں جس کی تما م تر ذمے داری جنرل پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ سرکاری کارند ے تو اب اپنی گردنیں بچا نے کے لیے وعدہ معاف گواہ بننے پر زور آزمائی کر رہے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کر بعض لوگ مسلح افواج اور مشرف کے خلاف مقدمہ کو آپس میں گڈ مڈ کر رہے ہیں' خدا کے لیے اس روش کو ترک کر دیا جائے۔ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کو فو ج کے خلاف کیس بنانے کی احمقانہ جسارت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ چند عقل مندوں کا خیال ہو گا کہ عالمی حالات ایسے ویسے ہیں، اب کچھ نہیں ہو سکتا یا جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہے، انھیں مصری عوام کے مقبول عام رہنما صدر مرسی کا انجام ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمارے جیسے ملکو ں میں زمینی حقائق سے جنم لینے والی سچائیوں سے روگردانی جمہور ی سفر کو مختصر کر سکتی ہے۔
لکھاریو، فنکا رو اور صدا کا رو، نوشتہ دیوار پڑھو۔
معاملہ پرویز مشرف تک محدود رہنے دو، اس میں ہی سب کی بھلائی ہے۔
جنرل(ر) مشرف سے اس وقت کی شوکت عزیز حکومت ان کی صدر پاکستان کی حیثیت سے خط و کتابت کرتی تھی جس میں روزمرہ کی صورتحال سے لے کر تمام درپیش مسائل کے بارے میں مراسلت ہوتی تھی جس کا مخاطب صدر مملکت ہوتے تھے لیکن اس وقت چونکہ صدارت اور مسلح افواج کی قیادت جناب پرویز مشرف کی 'ذات بابرکات' میں اکٹھی ہو چکی تھی، اس لیے 3 نومبر 2007ء کے المناک اقدام کے لیے انھوں نے ماورائے آئین طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مسلح افواج کے سربراہ کے عہدے کو استعمال کر کے ایمرجنسی پلس نامی مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے عبوری آئین کا حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے نیا حلف اٹھانا لازمی قر ار دے کر بیسیوں ججوں کو بیک جنبش قلم برطرف کر کے حراست میں لے لیا گیا۔ ان اقدامات کے لیے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
جناب پرویز مشرف باوقار انداز میں اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کے بجائے 'پنڈورا' باکس کھولنے کاآپشن اختیار کر سکتے ہیں۔
شب گزشتہ ایک لاہوری نے آئین کے تقدس اور اس کی تکریم کی بحالی کے نعر ے لگا تے ہوئے1956 ء کے مارشل لاء سے غداری کا مقدمہ شروع کرنے کا مطالبہ بار بار دھرایا۔ واضح مقصد صرف اور صرف صورتحال کو الجھا کر جنرل مشرف کو غداری کے مقد مے سے بچانا تھا جس کے بعد 1970ء اور 1977ء کے مارشل لائوں سے غداری کے مقدمات چلانے پر زور دیا جا رہا ہے تا کہ دبائو کا شکار پرویز مشر ف کی کسی طور گلو خلاصی کرائی جا سکے ۔
سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے مقدمے کی آڑ میں میڈیا سرکس میں اتر نے والے بعض کھلاڑی اپنے اپنے مقاصد کے لیے نت نئے تماشے دکھا رہے ہیں جن میں ہر نئے دن کے ساتھ مزید تیزی آتی جائے گی۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی کی چلمن میں واحد منظم ادارے کو نشانہ بنانے کا کام شروع ہے۔یہ مادر پدر آزاد عناصر واضح طور پر پارلیمان کی سربلندی کے گیت گاتے ہوئے جمہوری نظام کی بسا ط لپیٹنے پر تلے ہو ئے ہیں۔ یہ سب لو گ اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت میدان میں اتر ے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج کِن آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔ اس حقیقت کو پانے کے لیے زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔
ہمار ے پیارے دوست امریکی اس معاملے میں ہمیشہ صف اول میں رہے ہیں،اس کے بعد سرحد پار ہمسائے میں بیٹھے شہ دماغ بھی ہیں جو کشمیر سے کوئٹہ اور جلال آباد سے قندھار تک جگہ جگہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلا ف مورچہ بندی کیے ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہماری سرکار پیار کی پینگیں بڑھائے جا رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا سیاسی فیصلہ جمہوری حکومت نے طویل سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔
3 نومبر کے غیرآئینی اقدام کے بارے میں نئے حقائق چھن چھن کر منظر عام پر آرہے ہیں کہ سویلین حکومت کے بروئے کار ہوتے ہوئے جنرل مشرف کے ایک سیکریٹری کے زبانی احکامات پر کیبنٹ ڈویثرن سے ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے نوٹیفیکیشن جاری کرائے گئے جس کا کوئی تحریری ریکارڈ دستیا ب نہیں جس کی تما م تر ذمے داری جنرل پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ سرکاری کارند ے تو اب اپنی گردنیں بچا نے کے لیے وعدہ معاف گواہ بننے پر زور آزمائی کر رہے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کر بعض لوگ مسلح افواج اور مشرف کے خلاف مقدمہ کو آپس میں گڈ مڈ کر رہے ہیں' خدا کے لیے اس روش کو ترک کر دیا جائے۔ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کو فو ج کے خلاف کیس بنانے کی احمقانہ جسارت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ چند عقل مندوں کا خیال ہو گا کہ عالمی حالات ایسے ویسے ہیں، اب کچھ نہیں ہو سکتا یا جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہے، انھیں مصری عوام کے مقبول عام رہنما صدر مرسی کا انجام ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمارے جیسے ملکو ں میں زمینی حقائق سے جنم لینے والی سچائیوں سے روگردانی جمہور ی سفر کو مختصر کر سکتی ہے۔
لکھاریو، فنکا رو اور صدا کا رو، نوشتہ دیوار پڑھو۔
معاملہ پرویز مشرف تک محدود رہنے دو، اس میں ہی سب کی بھلائی ہے۔