کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
آخر دشمن کامیاب ہو ہی گیا! اسے کامیاب ہونا ہی تھا۔ ہم بٹے ہوئے لوگ ہیں۔
آخر دشمن کامیاب ہو ہی گیا! اسے کامیاب ہونا ہی تھا۔ ہم بٹے ہوئے لوگ ہیں۔ دشمن کے لیے یہی بہت ہے اور ہماری اس تقسیم سے فائدہ اٹھا کر دسویں محرم کے جلوس کی آڑ میں دشمن نے کام دکھا دیا، شہر تھا راولپنڈی۔ دشمن تو اپنا کام دکھا گیا اور غائب ہوگیا۔ جیسے ہمارے دشمن غائب ہوتے رہتے ہیں پھر نامعلوم کہلاتے ہیں۔ سانحہ راولپنڈی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ بہت ظلم ہوا۔ مسجد و مدرسے کو آگ لگائی گئی، پھر چل سو چل۔ امام بارگاہوں اور ان سے متصل مساجد کو جلانے کا سلسلہ اور پھر یہ آگ دوسرے شہروں تک پھیلتی چلی گئی۔
یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ ہمیں کبھی تو سوچنا چاہیے۔ ہمارے عوام خوب جانتے ہیں کہ اس کے ذمے دار ہم خود اور ہمارے بعض مذہبی رہنما ہیں۔ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں کہ خصوصاً چھوٹے شہروں اور دیہاتوں، قصبوں میں بعض مذہبی رہنما کیا کرتے ہیں، شہر شہر گاؤں گاؤں دیواروں پر ایسی عبارتیں لکھی جاتی ہیں جو دل آزاری کا سبب بنتی ہیں۔ ایسے ایسے جہازی سائز پوسٹر چسپاں کیے جاتے ہیں جن میں واضح اشاروں میں نفرت کا پرچار موجود ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کا شعر سن لیجیے:
تہران ہو اگر مشرق وسطیٰ کا جنیوا
ممکن ہے کہ انسان کے حالات بدل جائیں
راولپنڈی میں جو ہوا اور پھر دوسرے شہروں میں بھی ہوا، وہ کسی شیعہ یا سنی نے نہیں کیا۔ یہ محض ''دشمن'' نے کیا۔ مگر ہمارے دونوں طرف کے علماء اور ذاکرین کوامن والی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ نفرت انگیز چاکنگ و پوسٹر اور تقریروں میں زہر اگلنے کا عمل کسی صورت درست نہیں ہے۔ امام حسینؓ نے انسانیت کی بھلائی میں قربانی دی ہے۔ اسے یوں نفرتوں کی بھینٹ چڑھانا، شہدائے کربلا کے پیغام کے برعکس ہے۔
میرے نزدیک صورت حال اس وقت اور سنگین ہوگئی جب میں نے ایک بہت ہی معروف اور فن خطابت میں بے مثال علامہ جو یقیناً 70 سال سے اوپر کے ہو چکے ہیں ان کے بیس پچیس سال کے صاحبزادے کو ہو بہو اپنے والد محترم کے انداز خطابت میں تقریر کرتے سنا اور افسوس کہ صاحبزادے اشارے کنایوں میں ''دل آزاری'' کر رہے تھے۔ تو کیا دل آزاری کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ حالانکہ ہمارے ملک کے حالات ہرگز ایسے نہیں ہیں۔ میں نے دس محرم والے کالم میں لکھا تھا، چند سطریں دہرانے کی اجازت دیجیے ''زیب منبر'' (بادشاہ) پستی ہے کیونکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے اور ''بالائے دار'' بلندی ہے کیونکہ وہ سچ ہوتا ہے اور حسینیت پر چلنے والوں کا راستہ تو دار کی طرف ہی جاتا ہے۔ آج بھی اس رستے پر چلنے والے ''انکاریوں'' کے لیے کانٹوں بھری راہیں ہیں، زہر بھرے پیالے ہیں، جیلیں ہیں، پھانسی گھاٹ ہیں، بھوک ہے، پیاس ہے، بلکتے بچے ہیں، بیماری سے ایڑیاں رگڑتے اور بلا علاج معالجے مرتے انسان ہیں، درباری، سرکاریوں، حواریوں کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک علاج کی سہولتیں ہیں۔ حسین کا آسائش زمانہ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، باقی سب جھوٹ ہے، فریب ہے، مکر ہے۔ حسین کے پیغام کو لے کر چلنے والے ہر مذہب و ملت میں گزرے ہیں جنھوں نے سچ کو اختیار کیا اور دربار کو للکارا، دنیا کو ٹھکرایا، زہر کا پیالا پیا، یا سولی پر چڑھ گئے۔ آج بھی فرات لبالب بھرا، شور مچاتا بہہ رہا ہے، آج بھی دریا کو پہرے داروں نے گھیر رکھا ہے۔ حسین کا پیغام تو خلق خدا کو بھوکوں ترسانے والوں کے لیے پیام موت ہے۔''
یہ تھیں وہ چند سطریں، جنھیں میں نے دسویں محرم والے دن کالم میں تحریر کیا تھا۔ کیا آج ہم سب کا یہ فرض نہیں بنتا کہ ہم ظلم کے خلاف متحد ہوجائیں؟ ''مظلوم کربلا'' کے ساتھ ہوجائیں؟ حسین کا کردار تو یہ ہے کہ ''سر داد، نہ داد دست، در دست یزید'' اور یہ کردار کبھی نہ ختم ہونے والا کردار ہے۔ کیا حسینؓ کے اسی کردار کا پرچار ہم سب پر لازم نہیں ہے؟ ہماری عمریں گزر جائیں، ہم ختم ہوجائیں، تب بھی حسین کے اس کردار کا احاطہ نہ کرپائیں۔ حسین کے ہاں نفرت، دل آزاری کی تو گنجائش ہی نہیں ہے۔
عبید اللہ علیم یاد آگئے کہ ان کے مصرعے لکھ رہا ہوں:
میں یہ کس کے نام لکھوں، جو عذاب اتر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے، پس خنجر آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں، ہمی قتل کر رہے ہیں
یہ صورت حال پورے ملک میں عرصہ ہوا جاری و ساری ہے۔ امریکا بھی مار رہا ہے ۔ پرسوں ہی اس نے ہنگو میں مدرسہ کو تباہ کرکے اعلان جنگ کردیا، فضائی جارحیت کی، ڈرون کا پہلا شہری علاقہ میں حملہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔مگر ہم بھی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، گھروں کے گھر خالی ہورہے ہیں، نئے نئے قبرستان بن رہے ہیں۔ملک کا سب سے بڑا شہر 'منی پاکستان' مقتل بنا ہوا ہے۔ سارا سال محرم رہتا ہے، ماتم ہے، سوگ ہے، بین ہیں، شہر شہر، گلی گلی کربلائیں سجی ہوئی ہیں۔ واقعہ کربلا کے وقت بھی سب کیا اچھے کیا برے کیا اپنے کیا پرائے سب دربار کے ساتھ تھے۔ آج بھی غور فرما لیں، یہی حال ہے کہ سب کے سب دربار کے ساتھ ہیں۔ کس کس کا ذکر کروں۔ تمام طبقات ظلم کے ساتھ ہیں۔خالد علیگ نے کیا دلگداز شعر کہے تھے ؎
ساتھیو اب بھی وہی رسم چلی آتی ہے
کوئی صیاد ہوا اور کوئی صید ہوا
تم کہ ہر حال میں عیسیٰ کے حواری نکلے
میں کہ ہر دور میں مصلوب ہوا قید ہوا
فرات لبا لب بھرا شور مچاتا بہہ رہا ہے اور بھوکے پیاسے ''حسینی'' آج بھی بہتے فرات کو دیکھ رہے ہیں جہاں پہرے دار کھڑے ہیں۔ آج کے حالات میں کیا کرنا چاہیے یہ حکمراں اور عوام خود فیصلہ کریں۔ اپنے پچھلے کالم کا عنوان میں نے حبیب جالب کے ''سلام'' بخدمت امام حسین کے مصرعے کو بنایا تھا۔ اسی عنوان والے مکمل شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا:
صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے