ریٹائرڈ ملازمین کی ضایع ہوتی صلاحیتیں

اس تقریب میں ریٹائرڈ افسران اور چپڑاسی کی سطح کے تمام گریڈ والے شامل تھے۔


Muhammad Saeed Arain November 23, 2013

وہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی تقریب تھی، جس میں تقریری سلسلہ ختم ہونے کے بعد انھیں ایک گھنٹہ آپس میں ملنے کے لیے دیا گیا تھا۔ جس میں وہ ایک دوسرے سے نہایت جوش اور محبت سے بغلگیر ہورہے تھے اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ اس تقریب میں ریٹائرڈ افسران اور چپڑاسی کی سطح کے تمام گریڈ والے شامل تھے، جن کے سرکاری گریڈ ختم ہوچکے تھے اور وہ سرکاری ملازمت کے دوران گزارے ہوئے اپنے ماضی کے دنوں کی یادوں پر شاداں آپس میں اس اشتیاق سے گلے مل رہے تھے جیسے انھیں یہ سنہری موقع میسر آیا ہو۔ میل ملاقات کا یہ ایک گھنٹہ ظہرانے کے بعد بھی جاری رہا اور ریٹائرڈ افراد کھانے سے زیادہ اپنے پرانے شناسائوں سے ملنے میں زیادہ مصروف تھے اور ان کی مسرتیں دیدنی تھیں۔

یہ تقریب پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ریٹائرڈ ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن کراچی کے نو منتخب عہدیداروں کی رسم حلف برداری کی تھی اور مہمان خصوصی پی بی اے کی پہلی خاتون ڈائریکٹر جنرل ثمینہ پرویز خاص طورپر اسلام آباد سے آئی تھیں۔ جنہوں نے ریڈیو پاکستان کے ضعیف العمر نو منتخب ان عہدیداروں سے حلف لیا، جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال اور لازوال صلاحیتیں پاکستان کے اس اہم ادارے کے لیے وقف کی تھیں، جس ادارے کو 66سال قبل پاکستان کے قیام کا تاریخی اعلان کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ریٹائرڈ ملازمین کے سپاس نامہ میں یہ ذکر فخریہ طور پر کیا گیا کہ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب آج کی طرح ریڈیو اسٹیشنوں اور ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں تھی اور نوزائیدہ مملکت کے لوگوں کے لیے معلومات کا ذریعہ ریڈیو تھا اور اسی ریڈیوکے ذریعے قوم کو پاکستان کے قیام کی نوید ملی تھی۔

پاکستان میں سرکاری ملازمین کے لیے ملازمت کرنے کی عمر 60 سال مقرر ہے اور نیچے سے اوپر تک کے سرکاری ملازمین کو ساٹھ سال کی عمر ہوجانے پر ریٹائرڈ ہونا پڑتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی لوگوں میں اپنی عمر کے اندراج کا شعور نہیں تھا اور جب انھیں سرکاری ملازمت ملی تو ان کے پاس اسکول سرٹیفکیٹ تھے نہ بلدیاتی اداروں سے ملنے والے برتھ سرٹیفکیٹ، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی عمریں کم زیادہ لکھوا دیں اور اپنی عمر درست لکھوانے والوں کی تعداد کم ہی تھی اور انھیں شاید عمر کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں عمر کے اندراج پر اب بھی توجہ نہیں دی جاتی، سرکاری ملازمین کی اکثریت خاص طور پر نچلے اہلکار اور افسران کو اپنی دی گئی اسناد یا لکھوائی گئی عمر کے مطابق 60 سال مکمل ہونے پر سیاسی بنیاد پر یا ان کی انتظامی صلاحیت کی بنیاد پر کنٹریکٹ مل جاتا ہے اور جس کا زیادہ اثر و رسوخ ہوتا ہے وہ سرکار سے اپنے کنٹریکٹ میں توسیع کراتا رہتا ہے۔

کنٹریکٹ حاصل کرنے والے سفارشی افسران صلاحیت کے باعث کم مگر سیاسی طور پر کنٹریکٹ زیادہ حاصل کرتے ہیں اور جب تک موقع ملے وہ زیادہ تر اپنی صلاحیتیں کمائی کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کنٹریکٹ ملازمین کو زیادہ تر کنٹریکٹ سیاسی پارٹیوں کی حکومت میں حکمرانوں کے اشاروں پر ناجائز احکامات کی تعمیل اور سیاسی اثر و رسوخ پر ملتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں ملک و قوم کے بجائے سیاسی لوگوں کی خوشامد کے لیے مختص رہ جاتی ہیں جس کے طفیل انھیں توسیع ملتی رہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں ملنے والے کنٹریکٹ ملازمتوں کے خلاف ایکشن لیا تو یہ سلسلہ کچھ کم ہوا مگر اب بھی اپنی پسند کے ریٹائرڈ ملازمین کو اہم عہدے دے رکھے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ طبی طور پر 60 سال سے کم لگتے ہیں مگر ریٹائر کردیے گئے اور جو ستر اسی سال کی عمر کے نظر آتے ہیں وہ اب بھی ملازمتوں پر ہیں اور اپنے ان پسندیدہ افسروں کے لیے حکومتوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ ستر کے عشرے تک مارشل لاء دور کے بارہ تیرہ سال میں سرکاری ملازمت سیاسی سفارش اور سیاسی لوگوں کے امتیاز کے بغیر صرف اور صرف میرٹ پر ملتی تھیں مگر عوامی دور آنے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اور سرکاری ملازمتیں سیاسی بنیاد پر دی جانے لگیں۔ سیاسی کارکنوں کو نوازا جانے لگا، جعلی تعلیمی اسناد اور سیاسی سفارشوں پر اعلیٰ عہدوں پر صلاحیتیں نظر انداز کرکے من پسند لوگوں کو نوازا گیا اور سرکاری عہدوں پر صلاحیتیں مفقود ہوگئیں اور گزشتہ سیاسی حکومت میں تو انتہا ہوگئی اور نچلی سطح تک کی ملازمتیں رشوت پر دیے جانے کا چرچا آج بھی عام ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمین کو اپنی پنشن اور دیگر سرکاری معاملات میں صوبائی اور وفاقی محکموں میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور سرکاری افسران و اہلکار ریٹائرڈ ملازمین کو رشوت کے لیے جس طرح پریشان کرتے ہیں اور ذلت آمیز رویہ اس طرح اختیار کرتے ہیں جیسے انھیں ریٹائر ہونا ہی نہیں ہے اور پنشن کے معاملے سے فارغ ہونے کے بعد ان کے معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کی مالی آمدنی کم ہوجاتی ہے جس سے مجبور نچلے درجے کے سابق ملازمین نجی ملازمتیں، پارٹ ٹائم جاب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا دکانیں کھول کر وقت گزار لیتے ہیں مگر افسری عہدوں پر رہنے والوں کو مالی مسائل اتنا متاثر نہیں کرتے جتنا ان کے لیے وقت گزارنا مسئلہ بن جاتا ہے، ان لوگوں کی صلاحیتوں کو حکومت نظر انداز کردیتی ہے مگر ان میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن کی صلاحیتوں کا دوران ملازمت لوہا مانا جاتا تھا۔

ریڈیو پاکستان کے ریٹائر ملازمین کی تقریب میں ایسے افراد کی صلاحیتوں اور ادارے سے مخلص ہونے کے واقعات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی صلاحیتیں گنوا نہیں بیٹھے مگر 60 سال مکمل ہونے کے بعد انھیں ریٹائرڈ تو کردیا گیا مگر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ایسے باصلاحیت افراد وقت گزارنے کے لیے کوئی مالی لالچ رکھتے ہیں نہ معاوضہ چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی صلاحیتوں سے ان کے سابق اداروں والے فائدہ اٹھائیں اور ان سے کچھ سیکھیں۔ حکومتیں اور سیاست کی وجہ سے سرکاری عہدے لینے والے ان باصلاحیت ریٹائر افراد کی خدمات اعزازی طورپر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ آج کل کے سرکاری دفاتر کا جو حال ہے اور وہاں جس طرح فائلوں کے انبار لگے رہتے ہیں ان کی نمٹائی اور سرکاری امور کی بہتری کے لیے تجربے اور صلاحیتوں کے حامل ریٹائرڈ ملازمین سے فائدہ اٹھاکر سرکاری معاملات میں اصلاحات لائی جاسکتی ہیں جس سے عوامی مشکلات بھی کم ہوسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔